وجود

... loading ...

وجود
وجود

مسلم لیگ ن کا سورج کیوں غروب ہوا ؟

اتوار 17 مارچ 2024 مسلم لیگ ن کا سورج کیوں غروب ہوا ؟

ب نقاب /ایم آر ملک

نام اُس کا قمر الدین عادل تھا ،مگر سب اُسے چا چا قمرو کہتے ،چاچا قمرو کا یہ شیوہ تھا کہ و ہ دوسروں کے دکھ کو اپنا دُکھ سمجھتا ،سیاست ہمیشہ سے چاچا قمرو کا پسندیدہ موضوع رہی ، ہر دل عزیز ہونے کے باعث چاچا قمرو ایک کثیر ووٹ بنک رکھتا تھا ، علاقہ کے ہر سیاست دان کی یہ خواہش ہوتی کہ الیکشن میں چاچا قمرو اُس کے ساتھ ہو مگر ایسا ہونا ناممکنات میں تھا کیونکہ چاچا قمرو بڑا خود دار، انا پرست تھا ،وہ الیکشن میں کردار والے اُمیدوار کا ساتھی بنتا ۔
چا چا قمرو کا سیاسی پس منظر یہ رہا کہ جب جنرل ضیاء نے مرحوم محمد خان جونیجو کے اقتدار کی بساط لپیٹی اور مسلم لیگ ن وجود میں آئی تو چا چا قمرو قائد اعظم کی مسلم لیگ کے زعم میں میاں نواز شریف کا دم بھرنے لگا ۔میاں نواز شریف کا چاچا قمرو اتنا گرویدہ ہو اکہ پاکستان میں وہ میاں نواز شریف کو قائد اعظم ثانی سمجھتا ۔اُس کا موقف تھا کہ پاکستان کی خوشحالی کی ضمانت میاں نواز شریف کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ معیشت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو اگر کوئی کنارے لگا سکتا ہے تو وہ مسلم لیگ ن کی قیادت ہے۔
یہی نہیں پبلک مقامات پر اگر کوئی ناقد یا کسی اور پارٹی کا ورکر مسلم لیگ ن کی قیادت پر تنقید کرتا تو چا چا قمرو اُس کا گریبان پکڑ لیتا ۔اُس کا کہنا تھا کہ نظریاتی ورکر اپنی قیادت پر تنقید کو کبھی برداشت نہیں کرتا اور جو پارٹی ورکر اپنی پارٹی قیادت پر تنقید سنتا ہے، اُس کا پارٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا، وقت کا پہیہ اپنی چال چلتا رہا ۔مسلم لیگ ن اقتدار میں رہی یا اپوزیشن میں چا چا قمرو اپنے مفادات پر پائوں رکھ کر وفا کی انتہائوں پر کھڑا رہا۔ اُس کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی، اُس کے نظریات پر ضرب لگانے والے ناکامی سے دوچار ہوئے ،دلائل کی طاقت بھی اُس کے نظریات کا رُخ نہ موڑ سکی۔
12اکتوبر1999کو جب سابق صدر مشرف نے مسلم لیگ ن کے اقتدار کی راسیں کاٹ دیں تو چاچا قمرو سراپا احتجاج بن گیا۔ وہ مشرف کے اس اقدام کے خلاف باغی بن گیا ۔قیادت نے جب اٹک کے قلعہ میں شاہ عبداللہ کے نمائندے سعد حریری کے ساتھ خود ساختہ جلاوطنی کا معاہدہ کیا تو بھی چاچا قمرو اپنے ساتھی ورکروں کے ساتھ جنوبی پنجاب میں وفائوں کی نہ ٹوٹنے والی زنجیر بن گیا ۔ایک وقت ایسا آیا کہ قیادت جدہ سدھار گئی اور پس منظر میں چاچا قمرو جیسے لاوارث ورکر یک و تنہا رہ گئے ۔چاچا قمرو در اصل مشرف حکومت کے خلاف ایک باغی کردار تھا۔ چا چا قمرو کو جب کوئی یہ باور کراتا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت ایک معاہدے کے تحت جلاوطن ہوئی ہے تو چاچا قمرو کا ذہن اس منطق کو قبول کرنے کیلئے کسی طور تیار نہ ہوتا ۔وہ کہتا کہ ہمیشہ جمہوریت کو دوام ہوا کرتا ہے آمریت کو چونکہ جمہور قبول نہیں کرتی اس لیے آمرانہ اقتدار پانی کا بلبلہ ہوتا ہے۔ پبلک مقامات پر وہ اب بھی میاں نواز شریف کا مقدمہ لڑتا ۔ وہ ماضی کی طرح لوگوں کو یہ باور کرانے میں لگا رہتا کہ دہشت گردی کی جس دلدل میں ہمیں مشرف نے آدھکیلا ہے ، اُس دلدل سے نکالنے کی صلاحیت میاں نواز شریف جیسے قائد میں ہی ہے ۔
پھر یکایک میاں نواز شریف کے واپس آنے کی خبریں آنے لگیں۔ چاچا قمرو کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ احباب کو بھاگ بھاگ کر بتا رہا تھا ”میرا قائد واپس آرہا ہے”۔حسب وعدہ میاں نواز شریف نے 9ستمبر 2007اتوار کی رات ساڑھے گیارہ بجے روانہ ہونا تھا مگر چا چا قمرو نے ن لیگی احباب کے ساتھ ایک روز قبل ہی رخت ِ سفر باندھ لیا۔ اسلام آباد روانہ ہونے والی گاڑی رستہ میں جس اسٹاپ پر رکتی، چا چا قمرو گلا پھاڑ کر میاں نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگاتا۔ 10ستمبر2007کو جب میاں نواز شریف نے صبح پونے 9بجے اسلام آباد کے انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر قدم رنجہ فرمائے، تماشائے آہن و سنگ دیکھنے کے مشتاق چا چا قمرو کی قیادت میں نظریاتی ورکروں کی کثیر تعداد اپنے قائد کے والہانہ استقبال اور دیدار کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر موذن کے الصلوٰة خیر من النوم کہنے سے قبل ہی اپنی صفیں بنا چکے تھے۔ والہانہ عقیدت ہو تو جذبات کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا ۔چا چا قمرو بھی ریاستی پولیس کی مزاحمتیں عبور کرتا ہوا اپنے ہدف کی طرف بڑھتا رہا۔ قیادت کو واپس جدہ ڈی پورٹ کردیا گیا۔ بھڑکے ہو ئے جذبات کے ساتھ کچہری چوک میں چاچا قمرو کی والہانہ عقیدت پر پولیس نے فائرنگ کردی۔ چا چا قمرو کی ٹانگ میں گولی لگی اور وہ شدید زخمی ہو کر گر گیا ۔احباب نے اُٹھایا ابتدائی طبی امداد کیلئے قریبی مرکز صحت لایا گیا مگر میاں برادران کیلئے گولی کھانے کے بعد کسی مسلم لیگی رہنٍما کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ایک نظریاتی ور کر کی دل جوئی کیلئے آتا ۔چا چا قمرو کو مشکل حالات میں واپس لیہ لایا گیا ۔ وہ دو ماہ تک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایک بستر پر موت و حیات کی کشمکش میں پڑا رہا۔ اُس کی آنکھیں کسی مسلم لیگی رہنما کی راہ تکتے تکتے پتھرا گئیں اور جب وہ واپس اپنے گھر آیا تو کاروبار تباہ ہو چکا تھا پھر ایک روز چاچا قمرو اپنے لیڈر کی راہ تکتے تکتے اگلے جہان کو سدھار گیا ۔
مجھے غیر جانبدار تجزیہ نگار پوچھتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن جو پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت تھی جس کے بارے میں ایک عام پاکستانی کی یہ رائے تھی کہ اس پارٹی کو کبھی زوال نہیں آئے گا ،اوج ثریا سے زمین پر کیوں آپہنچی ؟ پنجاب جس میں ن لیگ کا ڈنکا بجتا تھا ،اور زندہ دلان لاہور جو مسلم لیگ ن کا گڑھ تھا ،میاں برادران کا آبائی شہر تھا مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے کیوں نکل گیا ؟ تو میں ایسے تجزیہ نگاروں کو چاچا قمرو کی کہانی سناتا ہوں کہ وہ ورکرز جو میاں نواز نواز شریف کی عدم موجودگی میں اپنے مخالفین سے میاں نواز شریف پر تنقید برداشت نہ کرتے تھے ،جن کے ہاتھ میاں نواز شریف کے خلاف ایک لفط بولنے والے کے گریبانوں تک جاپہنچتے ،ان کو مشرف دور میں ناجائز مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ،وہ پابند سلاسل ہوئے ،مشرف کے خلاف میاں یاسین آزاد جیسے نظریاتی ورکرز تحریک نجات کا ہراول بنے ،جیلیں ہوئیں ،مقدمات ہوئے ،بیروز گاری کی بھینٹ چڑھے مگر میاں نواز شریف کے ساتھ وفائوں کی مالا نہ ٹوٹنے دی ، نظریاتی ورکروں کی بات کی جائے تو عابد انوار علوی سے زیادہ کوئی بھی نظریاتی نہیںجسے 2018کے انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی ضلعی صدارت اور انتخابات میں ٹکٹ کی پیش کش ہوئی مگر اس نے مفاد کو ٹھوکر مار کر میاں نواز شریف کی وفائوں کا بھرم رکھا ، کیا ن لیگ کے سابقہ دور اقتدار جس میںمیاں شہباز شریف وزیر اعظم بنے، میاں یاسین آزاد اور عابد انوار علوی کو کوئی مقام مل پایا ، چاچا قمرو کی کسی مشکل کا مداوا تو دور کی بات اُسے میاں نواز شریف کی خاطر لگنے والی ریاستی پولیس کی گولی کے زخم پرکسی نے بات تک نہ کی۔ جب نظریاتی ورکروں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جائے تو پیپلز پارٹی جیسی پارٹیوں کا سورج غروب ہوجاتا ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی یہی ہوا ،مریم نواز لاکھ اپنے انقلابی اقدامات کا ڈھنڈورا پیٹیں ،جب تک میاں یاسین آزاد اور عابد انوار علوی جیسے ورکروں کو ان کی وفائوں کا صلہ نہ ملا ،نظریاتی ورکروں کو ان کا مقام نہ ملا، شکست ہمیشہ نوشتہ ٔدیوار رہے گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر