وجود

... loading ...

وجود
وجود

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

جمعه 15 مارچ 2024 اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

زریں اختر

(گزشتہ سے پیوستہ)
جیسے کسی شخصیت کا خاکہ خاکہ نگار بناتاہے ویسے ہی انٹرویوایک مختلف انداز کا پورٹریٹ بناتا ہے ۔ اوریانا نے اپنے وقت کے سرکردہ رہنمائوں، سیاست دانوں اور فوجیوں سے انٹرویو لیے ،جنہوں نے نہ صرف اس وقت کی سیاست پر اثر ڈالابلکہ حالات ِ حاضرہ کی آگہی کے لیے یہ آج بھی اتنے ہی موثر ہیںخواہ وہ اسرائیل فلسطین مسئلہ ہو یا ملکی سیاسی منظرنامہ ۔
اوریانا: بھٹو کہتا ہے کہ وہ انڈیا کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے چارہ جوئی کرے گا۔ آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں مسز گاندھی؟
اندرا: تمہیں پتاہے ۔۔بھٹو بہت زیادہ متوازن آدمی نہیں ہے۔ جب وہ بات کرتاہے تو تمہیں سمجھ نہیں آتی کہ اس کا مطلب کیاہے؟ اس کی اس بات کا کیامطلب ہے؟ کیاوہ ہمارے ساتھ دوستی کرناچاہتاہے؟ کچھ عرصے سے ہم بھی اس سے دوستی کرناچاہتے ہیں،میں نے ہمیشہ ایسا چاہاہے۔ یہاں پر ایک ایسی بات ہے جو مغربی لوگ نہیں جانتے ہیں۔ مغربی اخبار ہمیشہ شور مچاتے ہیں کہ انڈیا پاکستان کا دشمن ہے کہ مسلمان ہندوئوں کے خلاف ہیں۔ لیکن انہوں نے کبھی یہ بات نہیں کی کہ ہماری جماعت ہمیشہ اس روّیے کی مذمت کرتی رہی ہے حتیٰ کہ ہمارا بٹواہ ا ہونے سے پہلے بھی ۔اوہ …برطانیہ کی طرف سے جو بٹوارہ ہم پر مسلط کیاگیاتھا اور وہ بہت غیر فطری تھا!اس کی بدولت فقط خاندان کے ٹکڑے ہوئے تھے ۔ میں نے ایسے بہت سے دل شکن مناظر دیکھے ہیں۔ ایسے لوگ جنہوں نے ہجرت کی،ایسے لوگ جو ہجرت نہیں کرنا چاہتے تھے ۔۔۔اور بٹوارے کے بعد ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مذہبی انتہاپسندی کو ہوا نہ ملے اور کسی ملک سے اقلیتوں کا خاتمہ نہیں ہونا چاہیے تاکہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ایک ساتھ رہ سکیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں لوگوں کے لیے کیوں کر ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مذہب کے نام پر قتل کریں؟ آج کی دنیا میں ہمیں جن مسائل کو اہمیت دینی چاہیے وہ بالکل مختلف ہیں۔وہ مسائل ہیںغربت، شخصی آزادی اور ان بدلائو کی سمجھ بوجھ جو نئی ایجادات کی وجہ سے وقوع پزیر ہو رہے ہیں۔ یہ ہیں وہ مسائل جو مذہب کے مسئلے سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ کیوں کہ یہ مسائل بین الاقوامی سطح کے ہیں،کیوں کہ یہ مسائل ہمیں اور پاکستان کو ایک جیسے میزان میں تولتے ہیں۔ میں اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ہوں جب لوگ جذباتی ہوکر چیختے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے اور ۔۔۔یا اس طرح کی فضول باتیں کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے انڈیامیں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیںجو اس قسم کی باتیں کرتے ہیںاور یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں ”ہمیں پاکستان کے وجود کو قطعی تسلیم نہیں کرناچاہیے تھا،اب جب اس کا وجود قائم ہوگیاہے تو اسے تباہ کردینا چاہیے”۔لیکن اس طرح کے پاگل تعداد میں تھوڑے ہیںجن کی گنتی نہ تین میں نہ تیرہ میں ہوتی ہے۔ تم ہندوستان کے اندر پاکستان کے خلاف سازشیں ہوتی ہوئی نہیں دیکھوگی۔ جنگ کے دوران ہلکا پھلکا ایسا ہوتارہاہے ،قدرتی بات ہے،لیکن جنگ کے دوران بھی ہم ان لوگوں کو قابو کرنے کی اہلیت رکھتے تھے ۔ حتیٰ کہ پاکستانی اس بات پر حیران تھے ۔فوجی کیمپ میں ہسپتالوں میں قیدی تھے جو فرطِ جذبات سے چلااٹھتے تھے ،”کیاتم ایک ہندو ڈاکٹر ہو اور تم میرا علاج کرناچاہتے ہو؟ ”
دیکھو! میں بھٹو کو جواباََ اتناہی کہتی ہوں کہ اگر وہ جانتاہے کہ وہ کیاکہہ رہاہے تو پھر وہ وہی بات کہہ رہاہے جو اسے کہنی چاہیے ،اور اگر وہ یہ بات نہ کہتا تو پھر اس کامستقبل کیاہوتا؟ میں پہلے ہی بتاچکی ہوں کہ بھٹو مہم جو طبیعت ہے ۔ میں امید کرتی ہوں کہ وہ بہت بلند نگاہ ہے ، کاش اس کی بلند نگاہی حقیقت کو دیکھنے میں اس کی مدد کرے۔
اوریانا: اس موضوع سے ہٹ کر ایک سوال پوچھتی ہوں مسز گاندھی ۔آپ مذہبی ذہن کی نہیں ہیں ۔ کیا آپ ہیں؟
اندرا: عُم … یہ اس بات پر نربھر کرتاہے کہ لفظ”مذہب” سے تمہاری کیامراد ہے۔ بے شک میں مندروں میں نہیں جاتی ہوںاور نہ ہی خدائوں یا کسی ایسی چیز کے سامنے سرجھکاتی ہوں ۔ لیکن اگر مذہب کا مطلب انسانیت میں یقین کرناہے ناں کہ خدائوں میں، اور اس سے مراد انسان کی بہتری اور خوشی کے لیے جدوجہد کرناہے تو پھر ہاں ،میں بہت مذہبی ذہن کی ہوں۔
اوریانا: لوگ سوچتے ہیں کہ آپ کا اپنے والد کی نسبت ”بائیں بازو ” کی طرف رجحان زیادہ ہے؟
اندرا: میں دنیا کو اس نظریے سے نہیں دیکھتی ہوںجیسے لوگوں نے اسے دائیں بازو اور بائیں بازو میں بانٹ رکھاہے ،اور نہ ہی مجھے اس بات کی پرواہ ہے کہ کون دائیں ہے یابائیں ہے یا کون درمیان میں ہے۔ وہ اس طرح بس لوگوں کو استعمال کرتے ہیںاور اس لیے یہ بات اب اپنی اہمیت کھو رہی ہے۔ میں اِس طرف یااُس طرف میں کوئی دل چسپی نہیں لیتی ہوں۔۔مجھے صرف مسائل حل کرنے میں دلچسپی ہے۔ میرے کچھ مخصوص مقاصدہیں،اوریہ وہی مقاصد ہیں جو میرے والد کے بھی تھے،لوگوں کو ایک معیاری زندگی کی فراہمی، لوگوں کو غربت کے سرطان سے نجات دلانااور پیسے کی بے ڈھنگی تقسیم کا خاتمہ کرنا۔ میں ان باتوں میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہوںاور میں جتنا ہوسکے اور اچھے انداز میں کامیابی کی خواہاں ہوں،پھر چاہے کوئی مجھے دائیں بازو کی طرف دار کہے یا بائیں کی ،مجھے کوئی فرق نہیں پڑتاہے۔
ایسی ہی باتیں ہوئیں تھیں جب ہم نے بینکوں کو سرکاری تحویل میں دیاتھا۔ میں سرکاری اشتراکیت(بینکوں کو سرکاری تحویل میں دینا) کی اس لیے قائل نہیں ہوں کہ لوگ اس کے بارے میں بڑے بڑے فلسفے پیش کرتے ہیں یا پھر میں سمجھتی ہوں کہ سرکاری اشتراکیت تمام بیماریوں کا واحدعلاج ہے ۔ میں تو بس وہاں سرکاری اشتراکیت کی قائل ہوتی ہوں جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم نے اس موقف پر سوچنا شروع کیاتھاتو میری جماعت دوحصوں میں نظریاتی طورپر بٹ گئی تھی ۔ تب میں نے جماعت کی نا اتفاقی سے نبٹنے کے لیے ایک تجویز پیش کی کہ چلو ہم بینکوں کو ایک سال کا وقت دیتے ہیں تاکہ وہ ثابت کرسکیں کہ قومی اشتراکیت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک سال گزر گیالیکن بینکوں نے کوئی بہتر نتائج پیش نہ کیے ۔ ابھی بھی دولت امیر سرمایہ داروں اور بینک والوں کے دوستوں کے ہاتھوں تک ہی محدود تھی ۔ سو میں نے سبق سیکھا کہ بینکوں کو قومی تحویل میں لے لینا ہی بہترہے ، اور ہم نے ایسا ہی کیا۔ بغیر اسے اشتراکی یا غیر اشتراکی نکتہ نظر کے میزان میں ناپے تولے ،ہم نے بس اسے وقت کی ضرورت جانا۔ ہر کوئی جو دائیں بازو کے فلسفے کے تحت ایسا فیصلہ لیتاہے وہ بیوقوف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر