وجود

... loading ...

وجود
وجود

متناسب نمائندگی کا نظام ہی ہمارے لیے بہتر ہوگا

بدھ 03 جنوری 2024 متناسب نمائندگی کا نظام ہی ہمارے لیے بہتر ہوگا

ریاض احمدچودھری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے گزشتہ پچھتر برسوں سے مختلف نظام آزما کر دیکھ لیے ہیں۔ ہمارے ملک میں گورنر جنرل بھی رہے۔ہم نے صدارتی نظام کا مزا بھی چکھا۔ بنیادی جمہوریت، سول مارشل لاء اور اسلامی سوشلزم بھی چیک کر لیا۔ ہم نے شوریٰ نظام بھی دیکھ لیا۔ہم نے چیف ایگزیکٹو کے ذریعے ملک چلانے کا تجربہ بھی کر لیا۔تین ریفرنڈم بھی کرا لیے، پارلیمانی نظام بھی چیک کر لیا۔سوال یہ ہے کہ سارے نظام پاکستان میں فیل کیوں ہوگئے؟ اصل بات یہ ہے کہ غلطیاں نظاموں میں نہیں تھیں ہم میں ہیں۔
متناسب نمائندگی کے طریق انتخاب میں انتخاب میں حصہ لینے والی جماعتیں اپنے اپنے نمائندگان کی فہرست بنا کر الیکشن کمشن کو پیش کر دیتی ہے اور پھر ووٹ کسی فرد کے بجائے ان کی جمع کردہ فہرست کو سامنے رکھ کر جماعتوں کو ڈالے جاتے ہیں۔ جو جماعت جتنے ووٹ لے گی اس کے تناسب سے اسے صوبہ میں اور مرکز میں سیٹیں مل جائیں گی۔ مثلاً اگر اسمبلی کے انتخابات میں دو کروڑ ووٹ ڈالے جائیں تو ایک سیٹ ایک لاکھ ووٹ پر بنے گی اس طرح جو جماعت بیس لاکھ ووٹ لے گی اسے بیس اور جو پچاس لاکھ ووٹ لے گی اسے پچاس سیٹیں ملیں گی اور ہر جماعت کی فراہم کردہ فہرست میں سے اوپر کے اتنے ممبر منتخب قرار پائیں گے۔ اس طرح تمام بڑے بڑے نقطہ ہائے نظر چاہے وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں ان کی صحیح نمائندگی ہو جاتی ہے اور پارلیمنٹ قومی رائے عامہ کی سچی تصویر پیش کرتی ہے۔ ہر حکمران اقتدار میں آنے سے قبل کہتا ہے کہ ہم نظام کو بدلیں گے اداروں میں اصلاحات لائیں گے۔ انصاف کا بول بالا کریں گے قوانین میں بہتری لائیں گے۔ ہم پچھتر سال سے ہنگاموں اور احتجاج میں مصروف ہیں چناں چہ آپ ملک کی حالت دیکھ لیجیے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سال بدل جاتے ہیں لیکن فرسودہ نظام قائم ہے، قوم کے پاس بہترین موقع ہے کہ نئے سال میں ہونے والے جمہوری عمل میں بھرپور حصہ لے کر جماعت اسلامی کے امیدواران کو کامیاب کرائے اور اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھے۔
الیکشن سے متعلق غیر یقینی پھیلانے والے اور ان کے التوا کی باتیں کرنے والے سپریم کورٹ کے واضح احکامات اور جمہوریت کی نفی کررہے ہیں۔انتخابات میں قوم کے پاس موقع ہے کہ آزمود پارٹیوں سے جان چھڑائے۔ ملک پر سالہا سال سے مسلط حکمران پارٹیوں نے عوام کو سوائے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے اور کچھ نہیں دیا۔ یہ مزید مواقعوں کی تلاش میں ہیں اور باریوں پر یقین رکھتے ہیں، اب سانپوں کو دودھ پلائے گی تو یہ اڑدھے بن کر انہیں ہی کھا جائیں گے۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی آئے گی تو سودی معیشت کا خاتمہ کر کے زکوٰة اور عشر کی بنیادوں پر قومی معیشت میں بہتری لائے گی۔ عدالتوں میں قرآن کا نظام لائیں گے، نوجوانوں کو روز گار ملے گا۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائیں گے۔ قومی وسائل کو عوام پر خرچ کیا جائے گا۔جماعت اسلامی اقتدار میں آ کر طلبہ یونین بحال کرے گی۔ ہمارا خیال تھا کہ پی ڈی ایم حکومت میں مولانا فضل الرحمان سودی نظام کا خاتمہ کریں گے مگر وہ ایسا نہ کرسکے ہمیں موقعہ ملا تو سب سے پہلے سودی نظام کا خاتمہ کریں گے۔ ہم ملک کے عوام کو مایوس نہ کریں گے اور نہ ہونے دیں گے ۔ہم پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانا چاہتے ہیں جہاں پر اقلیتی برادری بھی محفوظ ہو۔ نوجوانوں کو روزگار دیں گے۔ انھیں زرعی زمینیں دی جائیں گی۔بنجر اراضی کاشت کے لیے نوجوانوں میں تقسیم کریں گے ۔ بچیوں کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائیگا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف مقرر کریں گے۔ ہم اس دوہرے نظام کو ختم کریں گے ۔ انہوں نے دعا کی کہ نیاسال ملک میں اسلامی جمہوری انقلاب کا سال ثابت ہو اور پاکستانیوں سمیت پوری امت کو کامیابی اور کامرانی ملے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ طرز انتخاب اس وقت دنیا کے80 سے زائد ممالک میں مختلف صورتوں میں نافذ العمل ہے، جن میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں، ناروے، ڈنمارک ،جرمنی، فرانس، ہالینڈ قابل ذکر ہیں۔ اس کا فائدہ یہ کہ اس طریقہ انتخاب میں پیسہ کا کردار بہت حد تک محدود ہو جائے گا، ووٹ شخصیت کے بجائے پارٹی کو پڑے گا، کسی بھی پارٹی کے لئے پورا ملک یا صوبہ بھی انتخابی حلقہ ہو سکتا ہے، انتخابات پارٹی نشان پر ہوں گے،پارٹی قائدین اپنے منشور اور کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن میں شریک ہوں گے،اس طریقہ انتخاب میں صرف وہی سیاسی جماعتیں شریک ہوں گی جو الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرد ہیں، جن کے باقاعدہ ممبرز ہیں جو اپنا دستور اور منشور رکھتی ہیں، جن کے فنڈز کا حساب کتاب بھی شفاف ہے، یہ نظام سب سے زیادہ جمہوری ہے، اس میں پارلیمان میں نمائندگی کی شرط صرف اور صرف اکثریت ہے۔
حقیقی جمہوریت کے لئے ضروری ہے کہ پورے نظام میں شفافیت ہو ۔ہمارے یہاں کوئی شفافیت یا کھرا پن نہیں جبکہ مغربی اور جمہوری ملکوں میںمکمل شفافیت ہے کہ وہاں نمائندگان کیا کیا مراعات لے رہے ہیں، ان کے اخراجات کیا ہیں؟ اثاثہ جات کیا ہیں؟ اختیارات و کارکردگی کیا ہے؟ مغربی ملکوں کی جمہوریت میں پارلیمنٹ کی ویب سائٹس ہوتی ہیں جس پر ہر ایم پی اے اور ایم این اے کے بارے میں مکمل معلومات دست یاب ہوتی ہیں۔ ہر شہری کو حق ہے کہ وہ خود دیکھ سکے کہ اس کے حلقے کے ایم این اے نے کیا کمایا، کتنی مراعات لیں، کیا اخراجات کیے اور کیا اثاثہ جات جمع کیے۔ پاکستان میں کتنے لوگوں کو ان معلومات تک رسائی ہے؟


متعلقہ خبریں


مضامین
عمران خان کا مستقبل وجود هفته 11 مئی 2024
عمران خان کا مستقبل

شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ وجود جمعرات 09 مئی 2024
بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ

مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر