وجود

... loading ...

وجود
وجود

غزہ کی جنگ کو بھڑکانے میں امریکہ کا کردار

بدھ 20 دسمبر 2023 غزہ کی جنگ کو بھڑکانے میں امریکہ کا کردار

معصوم مراد آبادی

غزہ کی جنگ کو 70 دن پورے ہوچکے ہیں۔جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، اسرائیلی فوج خان یونس میں شدید بمباری کررہی ہے ۔مزاحمتی فورس کے جوابی حملے میں اسرائیلی فوج کو بھی جنوبی غزہ میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔حماس کے ترجمان ابوعبیدہ نے 72 گھنٹوں کے اندر 72سے زائد فوجی گاڑیوں کو تباہ اور36سے زائد اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔جنوبی غزہ میں صیہونی فوج کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے ۔ وہ یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ ہم ایک بہت مشکل جنگ لڑرہے ہیں۔ اپنی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لیے اسرائیلی فوج مسلسل بمباری کا سہارا لے رہی ہے ، جس سے درجنوں فلسطینی روزجام شہادت نوش کررہے ہیں، لیکن انھوں نے اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔ ادھر امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم کو خبردار کیا ہے غزہ کے شہریوں پر بلا امتیاز بمباری سے اسرائیل اپنی عالمی حمایت کھورہا ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو امریکہ اور یوروپی یونین کی حمایت حاصل ہے ، لیکن غزہ میں بچوں،خواتین اور نہتے شہریوں پر مسلسل بمباری سے وہ بین الاقوامی حمایت کھورہا ہے ۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر ہم جو بائیڈن کے اس بیان کو کس عینک سے دیکھیں، کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جو فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کو نہ صرف سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کررہا ہے بلکہ جب سے اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی ہے ، وہ مستقل اس کی پشت پر کھڑا ہوا ہے ۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ امریکہ کی اندھی حمایت کے سبب ہی آج اسرائیل دندناتا پھر رہا ہے ۔ اگر امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پاس ہونے والی قراردادوں کو ویٹو نہیں کرتا تو آج اسرائیل دنیا میں الگ تھلگ پڑگیا ہوتا۔آئیے پہلے اسرائیل کو حاصل امریکہ حمایت کے پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں۔
امریکی راجدھانی واشنگٹن ڈی سی میں یوں تو سیکڑوں میوزیم ہیں، لیکن ایک میوزیم ایسا بھی ہے جسے دیکھ کر آپ یہودی قوم کے لیے آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ ‘ہولو کا سٹ میوزیم’ کے نام سے موسوم یہ میوزیم سخت حفاظتی بندوبست میں ہے اور یہاں داخل ہونے والوں کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے ۔ کئی برس قبل امریکی سفر کے دوران جب میں نے اس میوزیم کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کی تعمیر وتشکیل اس انداز کی ہے کہ آپ اس میں تجسس کے ساتھ داخل ہوں گے اور روتے ہوئے باہر آئیں گے ۔ آپ کے یہ آنسو ان’مظلوم’ یہودیوں کے لیے ہوں گے ، جو آج کی تاریخ میں دنیا کی بدترین ظالم و جابر قوت ہیں اور جنھوں نے فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنارکھا ہے ۔اس میوزیم کی تعمیر وتشکیل سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے دور میں ہوئی تھی اور اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جب لاکھوں یوروپی یہودیوں کا قتل عام کیا تھا تو صورتحال کیا تھی اور یہودی کن کن مصیبتوں سے گزرے تھے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم کے دوران لاکھوں یہودیوں کو گیس چیمبر میں بند کرکے موت کے گھاٹ اتاردیاتھا، لیکن آج اسی قوم کے ظالم وجابر حکمراں غزہ میں جو کچھ کررہے ہیں، وہ اس سے زیادہ بدتر ہے ، جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔ یہودیوں کے قتل عام پر آج 78 برس بعد بھی دنیا آنسو بہاتی ہے ، لیکن آج نہتے اور بے قصور فلسطینیوں کے قتل عام پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو تاریخ کی اس بدترین نسل کشی کو روکنے کاحوصلہرکھتا ہو۔ وہ عرب ممالک بھی نہیں، جنھوں نے اپنے تاجوں کی حفاظت کے عوض اپنا سب کچھ اس امریکہ کے پاس گروی رکھا ہوا ہے ، جو اس جنگ میں اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے ۔ ایک اقوام متحدہ ہے جس کا کام کاغذی قراردادیں پاس کرکے مظلوموں کو یہ فریب دینا ہے کہ ہم بھی کچھ کررہے ہیں۔اس بار بھی اقوام متحدہ نے یہی کیا ہے ۔ وہ متعدد قرادادیں پاس کرنے کے باوجود اس جنگ کو روکنے میں ناکام رہا ہے ۔ کیونکہ امریکہ مسلسل جنگ کے شعلے بھڑکارہا ہے اور اس خطرناک آگ کو ہوا دے رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس نے گزشتہ ہفتہ سلامتیکونسل میں امارات کی طرف سے پیش کی گئی جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کردیا تھااور اسرائیل کے لیے مزید اسلحہ کی سپلائی کو ہری جھنڈی دکھادی تھی۔اس کارروائی کے بعد اسرائیل نے غزہ میں اپنی کارروائی مزید تیز کردی ہے ۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک طرف تو امریکہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کررہا ہے اور دوسری طرف امریکی صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ ‘غزہ پر مسلسل بمباری سے عالمی سطح پر اسرائیل اپنی حمایت کھوتا جارہا ہے ۔’ بدترین منافقت شاید اسی کوکہتے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے درست ہی کہا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جنگی جرائم میں امریکہ برابر کا شریک ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیاں بسانے اور اسرائیل کو ہرقسم کی مدد پہچانے میں امریکہ ہمیشہ پیش پیش رہا ہے اور اس نے اپنے اختیارات سے آگے بڑھ کر اسرائیل کی مدد کی ہے ۔ جب بھی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں اسرائیل کو اس کے سنگین جرائم کی وجہ سے یکا وتنہا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو امریکہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہوگیا ہے ۔ امریکی حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اسرائیل غزہ میں جہنم تخلیق کررہا ہے ۔دنیا کو امن کا سبق پڑھانے والے امریکہ نے حالیہ جنگ کو ہوا دینے میں جو کردار ادا کیا ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔غزہ جنگ کو تقویت دینے کے لیے امریکہ نے کانگریس کی منظوری کے بغیر ٹینک کے 14ہزار گولے اسرائیل بھیج دئیے ہیں۔ امریکی حکومت کے مطابق یہ کام امریکہ کی قومی سلامتی کے مفادات کے تحت کیا گیا ہے ۔
غزہ کی جنگ اب تیسرے ماہ میں داخل ہوچکی ہے ۔اسرائیلی بربریت اور درندگی کے نتیجے میں اب تک تقریباً19ہزارفلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے ۔تقریباً پچاس ہزار زخمی ہیں۔23/لاکھ کی آبادی والے غزہ میں زندگی جہنم بنادی گئی ہے ۔ تقریباً آدھی آبادی قابل رحم حالت میں زندگی بسر کررہی ہے ۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں۔شمالی غزہ کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد اسرائیلی فوج خان یونس میں آگ برسارہی ہے ۔زمینی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیلی فوجی خان یونس کے وسط تک پہنچ گئے ہیں۔اسرائیلی فوج نے کئی دن پہلے فلسطینیوں سے غزہ کے اضلاع جبالیہ اور شجائیہ کو خالی کرنے کو کہا تھا، لیکن اس کے باوجود وہاں اب بھی بڑی تعداد میں لوگ آباد ہیں اور ان علاقوں میں قابض اسرائیلی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے ۔شمالی علاقہ بیت لاحیہ میں گھر تباہ ہونے کے بعد جبالیہ میں پناہ لینے والے ٧بچوں کے 59 سالہ والد نے کہا کہ’اس لڑائی، فائرنگ اور بمباری کے باوجود ہم کہیں نہیں جائیں گے ۔انھوں نے کہا کہ
ہم یاتو شہیدوں کی طرح مارے جائیں گے یا پھر وہ یہاں ہمیں اکیلے چھوڑ کرچلے جائیں گے ۔یہ اپنی سرزمین کی خاطر مرنے کی وہ آرزو ہے جسے اسرائیل فنا نہیں کرسکتا۔
قابل ذکر ہے کہ غزہ میں زمینی جنگ کے دوران اسرائیلی فوجیوں کو لوہے کے چنے چبانے پڑرہے ہیں۔ وہ شدید الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہیں، یہاں تک کہ بوکھلاہٹ میں وہ خود اپنے ہی سپاہیوں کو قتل کررہے ہیں۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق غزہ میں صیہونی فورسز نے اپنے ہی بیس فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ہے ۔الجزیرہ کی اطلاعات کے مطابق غزہ میں حماس کے ساتھ لڑتے ہوئے 20اسرائیلی فوجی ‘فرینڈلی فائر’ کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ اسرائیلی فوج نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے ۔اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری اعداد وشمار کے مطابق غزہ پٹی میں زمینی کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے 105اسرائیلی فوجیوں میں سے 20دوستانہ فائرنگ اور اسی طرح کے دیگر واقعات میں مارے گئے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ کچھ فوجیوں کو اس لیے گولیاں ماری گئیں کیونکہ ان پر حماس کے جنگجو ہونے کا شبہ تھا۔قابل ذکر یہ ہے کہ /٧اکتوبر سے حماس کے خلاف جاری جنگ میں اب تک420اسرائیلی فوجی ہلاک اور دوہزار سے زیادہ معذور ہوچکے ہیں۔
زخمی فوجیوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار ہے ، جن میں دوہزار ہمیشہ کے لیے معذور ہوچکے ہیں۔اسرائیل کی وزارت دفاع کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ ہم نے ایسی صورتحال کا کبھی سامنا نہیں کیا، زخمیوں میں 85 فیصد سے زائد فوجیوں کی حالت سنگین ہے ،جس کی وجہ سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹنے پڑے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 7فیصد اسرائیلی فوجی ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ۔دوسری طرف اسرائیلی خبررساں ادارے کی طرف سے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ میں مصروف فوجی اپنی بینائی سے محروم ہورہے ہیں۔ سیکڑوں اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں میں غزہ جنگ کے دوران شدید چوٹیں آئی ہیں، جن میں سے بعض کی ایک یادونوں آنکھیں ضائع ہوگئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

واحدسپرپاورکاگھمنڈ وجود پیر 13 مئی 2024
واحدسپرپاورکاگھمنڈ

سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر