وجود

... loading ...

وجود
وجود

کون ساقانون اور کون سا تحفظ؟

منگل 12 دسمبر 2023 کون ساقانون اور کون سا تحفظ؟

ب نقاب /ایم آر ملک

کون سا قانون اور کون سا تحفظ صحافیوں کیلئے ہے ، حکمرانوں سے تو ایک سچ برداشت نہیں ہوسکتا ،وہ تحریر کی شکل میں ہو یا تقریر کی شکل میں! ضمیر کی لاش کے تعفن پر خوشبو کی چادر نہیں ڈالی جاسکتی،جذبوں پر ضبط کے بند نہیں باندھے جاسکتے، سچ ہمیشہ غیر مرئی رفتار سے سفر کرتا ہے ۔ سراپا احتجاج لوگ یقین کے ساتھ اعادہ کرنے نکلتے رہے کہ سچ پر جتنے کڑے پہرے بٹھا دیے جائیں سچ آزاد ہوگا اور ہم سچ کو آزاد کرائیں گے ۔ ایک متعین صبر کے ساتھ ہماری لاشیں گرتی رہیں مگر صحافتی آزادی کی جدوجہد آہستہ خرام اور دھیرے دھیرے اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہی،بے دردی سے مارے جا نے والوں کی کراہوں کا پس منظر اب نہیں دب سکتا ۔درد کی تپش آج بھی ہمارے وجود کو جھلسا رہی ہے ۔ ہمارے آباء کو مت بھولو جو اس سچ کی خاطر پابند سلاسل ہوئے ،شاہی قلعہ کے زنداں گواہی کی مہریں آج بھی ثبت کر رہے ہیں۔ قید تنہائی،سچ کے ساتھ لگن اور دیوانگی کا عالم جس نے چمکتے سورج اور نیلے آسمان کونظروں سے اوجھل کردیا اور ماضی کے وہ غاصب، سچ کو نکیل ڈالنے کے خواہش مند جن کی دھنسی ہوئی قبروں پر قدم رکھ کر سچ کی صبح طلوع ہوئی اور سچ کا احسا س دلانے والے ،صداقتوں کے امیں شورش کاشمیری ،مولانا ابوالکلام آزاد،مولوی باقر ،ظفر علی خان ،سے لیکر ارشد شریف شہید کا سچ زندگی ہے، موت نہیں،اُمید ہے مایوسی نہیں،صبح ہے شام نہیں،تازگی ہے پژمردگی نہیں،جدوجہد ہے ہزیمت نہیں۔
وطن عزیز کے ہر باسی کے خواب کو حقیقت بنانے والے سچ کو لگے قفل کے دہانے کھولنے والے ،قبرستان نما خاموشیوں کو زبان دینے والے جب جھوٹ راکھ پر راکھ لاد رہا ہے تو کون سا قانون ہے جو صحافیوں کے تحفظ کیلئے بنایا گیا،کیا ہم وطن عزیز میں آزادی صحافت کو تصوراتی حدتک ہی دیکھ سکتے ہیں۔ عملاً زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ سول آمریت کے کانوں کے پردے تو ہمیشہ سچ کی گونج سے پھٹتے رہے ، مفتوح صحافت کی ناکام خواہش ہر دور کے حکمرانوں کا مقصد اولین رہا،مفتوح صحافت کی ضرورت ایوب خان کو بھی محسوس ہوئی جس نے صحافت کی آزادی کا دائرہ تنگ کرنے کیلئے پی پی او کے نام سے 8ستمبر1963ء کو اپنے خود ساختہ کالے قانون کے ذریعے پریس کو پابہ زنجیر کرنے کی ناکام خواہش کی مگر 24گھنٹوں کے احتجاج نے آمر وقت کے ارادوں کو متزلزل اورآمریت کو سر نگوں کردیا۔ آزادی صحافت کے قافلے کے آگے ضیائی آمریت کے کوڑے اور مشرف آمریت کا پیمرا آرڈیننس بھی بند نہ باندھ سکا،کوئی حیرت نہیں،ہم لکھنے والوں اور بولنے والوں کو ادراک ہے کہ ضیائی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والوں نے ہمیشہ پریس کو پابہ زنجیر کر نے کی کوشش کی مگر شخصی طاقت کا ظہور ہمیشہ غیر یقینی اور مختصر مدت کیلئے ہوا کرتا ہے۔
2010میں جب پنجاب کے تخت و تاج کے وارث خادم اعلیٰ تھے تو اُس وقت بھی میڈیا کے خلاف ایک ن لیگی رکن اسمبلی نے حکومتی آشیر باد سے پنجاب اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی جسے منظور کر لیا گیا اور تخت پنجاب پر مسلط حکمران نے ایک جھوٹ یہ بولا کہ مجھے اس قرار داد کا علم نہیں حالانکہ جب یہ قرار داد اسمبلی میں پیش کی جارہی تھی تو موصوف اُس وقت موجود تھے ،ارشد شریف کے ساتھ ہونے والی انتقامی کارروائی کے پس منظر سے کیا ہم جان چھڑا سکتے ہیں۔ سچ کے عیا ں ہونے کا خوف سچ کو سلاخوں کے پیچھے لے گیا،کیا اس بات سے انکار ممکن ہے کہ زندگی کے کئی معاملات ہم سے عاجلانہ فیصلوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔بے شک کشتیاں ساحلوں پر محفوظ رہتی ہیں لیکن کشتیاں سمندروں کیلئے اور تلاطم کا سامنا کرنے کیلئے ہی بنائی جاتی ہیں۔ میڈیا پرسنز اور جمہوریت کا لباس زیب تن کئے ہوئے آمر حکمران ان حقائق کو بھی مد نظر رکھیں ۔ میڈیا ہاؤسزمیں سچائی کا پرچار کرنے والے صحافی اپنے کڑوے سچ کی اسکرین کے پس منظر میں اُبھرنے والے شخصی انتقام کو ہمیشہ مد نظر رکھ کر ہی آزاد صحافت کی پیشانی روشن کرتے ہیں۔ اقتدار کے اندھے جنون کی نابینا آنکھیں ہمیشہ شخصی خواہشات کے منظر تخلیق کرتی رہیں۔ سچ اسی کو سمجھا گیا جسے حکمرانوں کی سماعت سننا چاہتی تھی۔ آمرانہ اور شخصی حکمرانی کے نزدیک بانگ جرس یہی ہے کہ خاموش رہا جائے۔ چینلز پر اپنے ضمیر کی آواز اُٹھانے والے پرتعیش اشرافیہ پر نچھاور کیے جانے والے ٹیکسوں پر خاموش رہیں،صحافت کے علمبرداروں کے خلاف انتقامی کارروائی کو ہم ان پر عوام کے غیر متزلزل یقین کا با آواز بلند اعلان کہہ سکتے ہیں جس سے جمہوری حکمران خائف ہیں۔ اسے ہم تاریخی غلطی کہہ سکتے ہیں کہ حکمران اس بات کا ادراک تک نہیں رکھتے کہ ہر دور کی تبدیلی میں بنیادی کردار میڈیا کا رہا۔ بالا دست طبقات کے خلاف تاریخی جدوجہد سے میڈیا کو نکال دیا جائے تو تاریخ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی ہمیں اس بحث کو بھی سمیٹنا ہے کہ حکومت کا دست نگر اور خوشامدی میڈیامحض کاسہ لیسی کیلئے ہی کمر بستہ ہے اور اپنے ہی تخلیق کردہ تضاد میں پھنسا ہوا دلالی کی صحافت میں نظریاتی اصولوں کو متروک اور بے معنی قرار دینے میں کوشاں جبکہ ارشد شریف شہید ایک ناقابل مصالحت سچائی کے ساتھ فاتح، پریس کی آزادی سلب کرنے کا خواب ہمیشہ خواب ہی رہا۔ ایک سچ کیا اسکرین پر چلتا ہے کہ سارے جمہوری بلبلا اُٹھتے ہیں ،سچائی کے عارضی جمود میں جمہوریت کی رہی سہی ساکھ چکنا چور ہو چکی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر