وجود

... loading ...

وجود
وجود

مصنوعی ذہانت اور ہمارا مستقبل

هفته 25 نومبر 2023 مصنوعی ذہانت اور ہمارا مستقبل

میری بات/روہیل اکبر

پاکستان کو مصنوعی ذہانت کے فروغ کیلئے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے کیونکہ مستقبل قریب میں پورا عالمی ڈھانچہ مصنوعی ذہانت پر منتقل ہو جائیگا اور اگر ہم نے اس پر بھی توجہ نہ دی تو پھر ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ صرف آئی ٹی کے شعبہ میں 2025 ء تک 97ملین نئی نوکریاں پیداہوںگی جس سے روایتی نوکریاں مکمل ختم ہوجائیںگی اور اس صورتحال سے پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں فوری طور پر تعلیم یافتہ افرادی قوت کو مصنوعی ذہانت اور اس سے متعلقہ علوم کی تربیت دینا ہو گی۔ ہمارے ہاں ریٹیل بزنس سے متعلقہ 80فیصد اداروں کے مالکان کا خیال ہے کہ وہ 2027ء تک مصنوعی ذہانت پر منتقل ہوںگے جس کے بعد افرادی قوت کی جگہ مشینیں اور روبوٹ لے لیںگے جبکہ مزدور طبقہ سمیت سیلز مین وغیرہ افراد بے روزگار ہو جائیں۔ ویسے بدقسمتی سے ہم نے آج تک مزدور اور کلرک ہی پیدا کیے ہیں اور خوش قسمتی سے جو اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں وہی بھی گھر سے اپنے دفتر مزدوری کرنے ہی جاتے ہیں اور ہمارے مزدوروں کا حال بھی آپ کے سامنے ہی ہے۔ ہمارے ہاں ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی والے بہت مل جائیں گے۔ وہ بھی بے روزگار کیونکہ ہمارا نظام تعلیم ہی اس طرح کا ہے کہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والا بچہ اعلیٰ اور اچھی تعلیم حاصل کر ہی نہیں سکتا اور پاکستان میں 80فیصد لوگوں کا تعلق غربت کے خاندان سے ہے۔ اگر ہم نے ہنگامی بنیادوں پر اپنے آپ کو تبدیل نہ کیا تو پھر آنے والے بے روزگاری کے طوفان کے سامنے کوئی بھی ٹھہر نہیں سکے گا۔ آج ہم 2023 میں رہ رہے ہیں اور اس سال کے آخر تک عالمی معیشت میں مصنوعی ذہانت کا حصہ 15.7ٹریلین ڈالر ہو جائیگا ۔عالمی سطح پر 86فیصد ادارے مصنوعی ذہانت کے مرکزی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ سے نہ صرف اُن کے اخراجات کم ہوئے ہیں بلکہ ان کے منافع میں بھی اضافہ ہوا اور ہم ابھی تک ان کاموں سے فائدہ نہیں اٹھا رہے ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں 60فیصد پیداواری عمر کی افراد قوت دی ہے مگر انہیں مناسب ہنر نہ سکھانے کی وجہ سے وہ بھی اپنے والدین پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے اور اس صورتحال میں ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
مصنوعی ذہانت کے بارے میں ہمیں اپنے نصاب میں ضروری تبدیلی کر کے زیر تعلیم طلبہ کو اس شعبہ میں پڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہم اسکول کی سطح سے ہی نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کا سلسلہ شروع کردیں تو آنے والے دور میں ہماری انڈسٹری بھی ترقی کریگی اور مختلف اشیا میں ملک بھی خود کفیل ہو جائیگا ۔آج کل چونکہ مصنوعی ذہانت کا چرچا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت اس سے ناواقف ہے مصنوعی ذہانت کی بنیاد 1956 میں ایک تعلیمی نظم و ضبط کے طور پر رکھی گئی تھی اور پھر اس پر متعدد تجربات کیے گئے۔ اس فیلڈ کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی گئی تھی کہ انسانی ذہانت کی نقل کرنے کے لیے ایک مشین بنائی جائے جو بالکل انسانی ذہن کی طرح کام کرے 1960 کی دہائی کے وسط تک امریکہ میں تحقیق کے لیے محکمہ دفاع کی طرف سے بہت زیادہ مالی اعانت فراہم کی گئی جس سے دنیا بھر میں لیبارٹریز قائم کی گئی۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں محققین کو یقین تھا کہ علامتی نقطہ نظر بالآخر مصنوعی عمومی ذہانت کے ساتھ ایک مشین بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہربرٹ سائمن نے پیشین گوئی کی تھی مشینیں بیس سال کے اندر اس قابل ہو جائیں گی کہ کوئی بھی کام جو ایک انسان کرسکتا ہے وہی کام مشین کے ذریعے بھی ممکن ہوپائے گا۔ مصنوعی ذہانت (AI) ذہانت ہے جس سے معلومات کو سمجھنا، ترکیب کرنا اور اندازہ لگاناسب مشینوں کے ذریعے ہوگا جبکہ ان کے مثالی کاموں میں آواز کی شناخت، کمپیوٹر ویژن اورمختلف زبانوں کے درمیان ترجمہ کی میپنگ شامل ہیں۔ AI ایپلی کیشنز میں ایڈوانس ویب سرچ انجن (جیسے گوگل سرچ)، سفارشی نظام (یوٹیوب، ایمیزون اور نیٹ فلکس کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے) انسانی تقریر کو سمجھنا (جیسے سری اور الیکسا)، خود چلانے والی کاریں (مثلاً، ویمو)، جنریٹو یا تخلیقی ٹولز (ChatGPT اور AI آرٹ)، خودکار فیصلہ سازی، اور اسٹریٹجک گیم سسٹمز (جیسے شطرنج اور گو) میں اعلیٰ سطح پر مقابلہ وغیرہ شامل ہےAI تحقیق کے مختلف ذیلی شعبے خاص اہداف اور مخصوص ٹولز کے استعمال پر مرکوز ہیں۔ AI تحقیق کے روایتی اہداف میں استدلال، علم کی نمائندگی، منصوبہ بندی، سیکھنا، فطری زبان کی پروسیسنگ، ادراک، اور اشیاء کو حرکت دینے اور جوڑ توڑ کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔ AI محققین نے مسائل کو حل کرنے کی وسیع تر تکنیکوں کو اپنایا اور مربوط کیا ہے جس میں تلاش اور ریاضی کی اصلاح، رسمی منطق، مصنوعی اعصابی نیٹ ورکس، اعداد و شمار، امکان اور معاشیات پر مبنی طریقے شامل ہیں AI کمپیوٹر سائنس، نفسیات، لسانیات، فلسفہ اور بہت سے دوسرے شعبوں کو بھی نمایا ں کررہا ہے جبکہ ریاضیاتی منطق کا مطالعہ براہ راست ایلن ٹیورنگ کے نظریہ حساب کی طرف لے گیا جس نے تجویز کیا کہ ایک مشین “0” اور “1” جیسی سادہ علامتوں کو تبدیل کرکے ریاضیاتی کٹوتی کے کسی بھی قابل تصور عمل کی نقل کر سکتی ہے اور پھر نیورو بیالوجی، انفارمیشن تھیوری اور سائبرنیٹکس میں ہم آہنگی سمیت مختلف دریافتوں کے ساتھ محققین کو ایک الیکٹرانک دماغ کی تعمیر کے امکان پر غور کرنے پر مجبور کیا 1950 کی دہائی تک مشینی ذہانت کے حصول کے لیے دو تصورات سامنے آئے تھے۔ ایک وژن جسے Symbolic AI یا GOFAI کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں کمپیوٹر کا استعمال دنیا اور ایسے نظاموں کی علامتی نمائندگی کرنے کے لیے کرنا تھا جو دنیا کے بارے میں استدلال کر سکیں اس نقطہ نظر کے قریب “ہورسٹک سرچ” نقطہ نظر تھا جس نے ذہانت کو جوابات کے امکانات کی تلاش کے مسئلے سے تشبیہ دی تھی جبکہ دوسرا نقطہ نظر جسے کنکشنسٹ اپروچ کہا جاتا ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے اس طرف کوئی توجہ دے اور نہ ہی ہمارے بابوئوں نے اگر توجہ رہی تو اس بات پر کہ پاکستان میں غریبوں کو رگڑا کیسے لگانا ہے انکی آنے والی نسلوں کوغلام کیسے بنانا ہے اور پھر اس قوم کو جہالت کی دلدل میں دھکیل کر ان پر حکمرانی کیسے کرنی ہے باپ کے بعد بیٹے نے ملک پر قبضہ کیسے کرنا ہے کیونکہ اگر قوم کو شعور آگیا تو پھر حکمران بھی کام کے آئیںگے جو ملک کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی باوقار بنائیں گے کاش کوئی تو سمجھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

عمران خان کا مستقبل وجود هفته 11 مئی 2024
عمران خان کا مستقبل

شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر