وجود

... loading ...

وجود
وجود

غزہ کی ناکہ بندی اور یہودی!

جمعه 13 اکتوبر 2023 غزہ کی ناکہ بندی اور یہودی!

ریاض احمدچودھری

اسرائیل پر حماس کے فاتحانہ حملے کے بعد بھی مسلم ممالک خواب غفلت میں ڈوبے رہے۔ دو تین ممالک کے سوا’ عرب دنیا اور او آئی سی نے بھی فوری طورپر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تین چار روز بعد اب مسلم دنیا کی قیادتوں نے حماس کے ساتھ رسماً یکجہتی کے اظہار کا سلسلہ شروع کیا ہے تو اس میں بھی زور حماس پر انسانیت کے احترام کا درس دینے پر لگایا جا رہا ہے۔ اور تنازع اسرائیل و فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیا جارہا ہے۔ ترک صدر اردوان کا فلسطینیوں کی حمایت میں پہلے روز ہی جاندار بیان آ گیا تھا جبکہ وزیر خارجہ پاکستان کا یہ بیان آیا کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قابض اسرائیل تشدد بند کرے۔ ایران نے اسماعیل صفعوی کے انقلاب کے بعدکبھی بھی مسلم کاز کا کھل کر ساتھ نہیں دیا۔ جناب سراج الحق،امیرجماعت اسلامی پاکستان نے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو ”الاقصیٰ فلسطین مارچ” سمیت 16اکتوبر کو اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے تحت ”قومی مشاورتی اجلاس ” میں شرکت و رہنمائی کی دعوت دی۔ اس موقع پرامیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ ہم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اور قبلہ اول کی آزادی کی جدوجہد میں پوری امت اہل فلسطین کے ساتھ ہے۔ امت مسلمہ کا قبلہ اول یہودیوں کے قبضے میں ہے ، طویل عرصے سے مسلمانوں کو عبادت کرنے سے روکا جارہا ہے ،بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں پر بدترین ظلم کیا جارہا ہے۔الخدمت فاؤنڈیشن نے فلسطین کے لیے ابتدائی طور پر 10 کروڑ روپے سے میڈیکل ریلیف فنڈ قائم کیا ہے جو ترک رفاعی اداروں کے تعاون سے متاثرہ علاقوں میں پہنچایا جائے گا۔
فلسطین اسرائیل جنگ میں امریکا سب سے منفی کردار ادا کررہا ہے ۔ جنگ شروع ہوتے ہی امریکہ نے فوری طور پر نہ صرف ظالم صہیونیوں کو آٹھ ارب ڈالر کی جنگی امداد دینے کا اعلان کیا بلکہ اپنا جنگی بحری بیڑا بھی اسرائیل کے نزدیک بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اعلان کیا کہ اسرائیل کی مدد کے لیے جنگی بحری بیڑے کو اسرائیل کی طرف روانہ کر رہے ہیں۔ امریکا اسرائیل کو گولہ بارود بھی فراہم کرے گا۔ اسرائیل کو امریکی سکیورٹی امداد کی فراہمی آج سے شروع ہو جائے گی۔حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ کرکے فلسطینیوں کو خوراک، بجلی، گیس اور پانی کی سپلائی مکمل طور پر بندکر دی ہے۔اسرائیلی افواج نے حماس کے ٹھکانوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی آبادیوں اور سکولوں پر بھی فضائی بمباری کی یہاں تک کہ ہسپتالوں اور امدادی ٹیموںپر بھی فائرنگ کی گئی۔ اسرائیل نے غزہ میں پناہ گزینوں کے کیمپوں سمیت 800 مقامات کو وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنایا اور درجنوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں ۔ اسرائیلی حملوں سے غزہ میں سینکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں جن میں 140 بچے اور150خواتین بھی شامل ہیں۔
اسرائیل ، فلسطین تنازع کی ابتداء بیسویں صدی کے آغاز میں ہوئی جب یورپ میں یہودیوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ان حالات میں یہودیوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان واقع فلسطین کا علاقہ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے مقدس سمجھا جاتا تھا۔ یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر کنٹرول تھا اور اس پر زیادہ تر عربوں اور دیگر مسلم کمیونٹیز کا قبضہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ بکھر گئی اور برطانیہ نے فلسطین کے انتظامی امور پر قبضہ کرنے کے لیے لیگ آف نیشنز سے منظوری حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے اور اس کے دوران انگریزوں نے عربوں اور یہودیوں سے بہت سے وعدے کیے تھے لیکن وہ ان میں سے ایک چھوٹا سا حصہ بھی پورا نہ کر سکے۔ برطانیہ پہلے ہی فرانس کے ساتھ مشرق وسطیٰ کو تقسیم کر چکا تھا۔ جس کی وجہ سے عربوں اور یہودیوں کے درمیان کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو گئی ۔برطانوی سامراج کے صہیونیت نواز وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ کے صہیونی لیڈر لارڈ روتھس چائلڈ(Lord Rothschild) کو ایک خط لکھا تھا۔ اس نے یقین دلایا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی گھر (نیشنل ہوم) کے قیام کی حمایت کرتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے برطانیہ بھرپور کوشش کرے گا۔ اسی خط کو ”بالفور اعلامیہ ” کہا جاتا ہے۔
بالفور اعلامیہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہودی اسی اعلامیے کو اسرائیل کے قیام کی بنیاد بتاتے ہیں۔ حالانکہ اس اعلامیے میں صاف لکھا گیا تھا کہ ایسا کوئی کام نہیں کیا جائے گا جس سے فلسطین کی غیر یہودی آبادی کے شہری اور مذہبی حقوق پامال ہوں۔ اس میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا جائے گا جس سے دیگر ملکوں میں آباد یہودیوں کے حقوق اور سیاسی حیثیت متاثر ہوں۔دوسری جنگ عظیم اور نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی کے بعد، یہودیوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کرنے کے لیے دباؤ بڑھنا شروع ہوا۔ اس وقت یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ برطانوی زیر کنٹرول علاقے کو فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودی وفد نے جرمنی کے ہٹلر سے ملاقات میں پیش کش کی کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کریں تو یہودی جنگ میں جرمنی کا ساتھ دیں گے مگر ہٹلر نے ان کی پیشکش ٹھکرادی۔ یہودی وفد نے برطانوی وزیر اعظم کے سامنے بھی یہی پیشکش رکھی تو وہ مان گیا لہذا برطانوی حکومت کے صہیونی حلقوں نے کھل کر صہیونی اہداف کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس مسئلے کو کابینہ میں پیش کیا ۔
یہودیوں کا خیال ہے کہ آج جہاں اسرائیل واقع ہے وہ وہی علاقہ ہے جس کا وعدہ خدا نے ان کے پہلے آباو اجداد ابراہیم اور ان کی اولاد سے کیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس علاقے پر بابلیوں، فارس، مقدونیہ اور رومیوں نے حملہ کیا۔ اس علاقے کو رومی سلطنت کے دور میں فلسطین کا نام دیا گیا اور مسیح کے سات دہائیوں بعد اس علاقے سے یہودیوں کو بے دخل کر دیا گیا۔ اسلام کے عروج کے ساتھ، فلسطین ساتویں صدی میں عربوں کے قبضے میں آیا اور پھر یورپی حملہ آوروں نے اسے فتح کر لیا۔ سال 1516 ء میں یہ ترکی کے کنٹرول میں آیا اور پھر پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے کنٹرول میں آنے تک یہ جمود برقرار رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یورپ میں لاکھوں یہودیوں کے قتل عام کے بعد ایک علیحدہ یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھنے لگا۔ عربوں اور یہودیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو حل کرنے میں ناکامی کے بعد برطانیہ نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے زیر غور لایا۔29 نومبر 1947 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی منظوری دی۔ اس میں ایک عرب ملک اور یہودی ریاست کے قیام کی سفارش کی گئی اور یروشلم کے لیے خصوصی انتظامات کا بھی بندوبست کیا گیا۔اس منصوبے کو یہودیوں نے قبول کیا لیکن عربوں نے اسے مسترد کر دیا۔ انہوں نے اسے اپنی زمین کھونے کے طور پر دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اقوام متحدہ کے منصوبے پر کبھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔ آزاد اسرائیل کے قیام کا اعلان فلسطین پر برطانیہ کے تسلط کے خاتمے سے ایک دن قبل 14 مئی 1948ء کو کیا گیا تھا۔ اگلے دن اسرائیل نے اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے درخواست دی اور ایک سال بعد اس کی منظوری مل گئی۔ اقوام متحدہ کے 83 فیصد رکن ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ دسمبر 2019 تک 193 میں سے 162 ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔اقوام متحدہ کی تاریخ میں یہ سب سے پرانا مسئلہ ہے جو یہود و نصاریٰ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر