وجود

... loading ...

وجود

نئے چیف جسٹس سے توقعات

جمعرات 21 ستمبر 2023 نئے چیف جسٹس سے توقعات

حمیداللہ بھٹی

کچھ عرصے سے عدلیہ اور ریاست بظاہر مدمقابل اوراِن میں ٹکرائو کی کیفیت ہے ۔یہ صورتحال عدالتی وقار کے لیے خطرہ ہے۔ عدالت اگر کسی کی ضمانت منظور اور گرفتار شخص کو رہا کرنے کا حکم صادرکرتی ہے تو اِدارے بڑی دیدہ دلیری سے کسی نئے مقدمے میں نامزد کرنے کے ساتھ ہی گرفتاری ڈال لیتے ہیں۔ ایسا مشاہدہ بھی ہواہے بندے کو اُٹھا لیا جاتا ہے مگر کوئی اِدارہ کئی کئی روز گرفتاری تسلیم ہی نہیں کرتا ۔اگر عدالت استفسار کرے توبڑے آرام سے معصومانہ انداز میں لا علمی ظاہر کردی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں پولیس کے اعلیٰ افسران طلبی کے باوجود عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے جو نظامِ عدل کی نہ صرف سپرمیسی متاثر ہونے کا باعث ہے بلکہ اِس طرح عوامی اعتماد بھی کم ہوا ہے عوام کے اذہان میں یہ سوچ قوی ترہورہی ہے کہ نظامِ انصاف میں طاقتور پر ہاتھ ڈالنے کی سکت ہی نہیں رہی۔ اِس کی بڑی وجہ سیاسی معاملات میں بے جا دخل اندازی ہے۔ عدالتوں کاکام انصاف کرنا ہے۔ محاذآرائی نہیں ۔ملک کے 29نئے چیف جسٹس سے توقع ہے کہ عوام میں عدالتی وقارکی بحالی اور 56 ہزارسے زائد زیرالتوا مقدمات کابوجھ کم کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں بے مقصد مداخلت سے گریز کی روش پر چلیں گے۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نیک سیرت اور آئین و قانون کی پاسداری پر یقین رکھنے والے ایک انصاف پسند شخص ہیں مگر غیرضروری سیاسی معاملات میں ملوث ہونے سے اُن کاتشخص متاثرہوا ۔کوئی لاکھ جواز پیش کرے کسی اورکونہیں اِس میں اُن کااپنا قصور ہے۔ اُکسانے والا نہیںنقصان کاذمہ دار مداخلت کامرتکب ہی قرار پاتا ہے۔ قومی اسمبلی میںعدمِ اعتماد کے ایا م میں اگر رات کو عدالتِ عظمیٰ نہ لگائی جاتی بلکہ مروجہ طریقہ کار کے مطابق مقدمہ سنا جاتا تو عدالتی وقار بھی بحال رہتا اور غلط و درست کی نشاندہی بھی ہو جاتی مگر بات یہاں تک ہی محدودنہ رہی ۔پنجاب اسمبلی میں ووٹوں کی گنتی کے فیصلے سے بھی عدالتی وقار کو ٹھیس پہنچی اور ایسے تاثر نے جنم لیاکہ کوئی بھی روابط رکھنے والا شخص من پسند فیصلہ حاصل کر سکتا ہے۔ پوری قوم نے پھر وہ وقت بھی دیکھا کہ عدالت پنجاب میں الیکشن کرانے کی تاریخ کا اعلان کرتی ہے لیکن الیکشن کمیشن سمیت کوئی اِدارہ عملدرآمدنہیں کرتا ۔دراصل جب مخصوص کیس ہی فوری سنا جائے تو حکم عدولی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ نئے چیف جسٹس کی اِس سے بڑھ کراورکیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے کہ اُن کے خلاف ریفرنس بھجوانے والے صدر عارف علوی نے ہی منصب کا حلف لیا۔ امیدواثق ہے کہ مروجہ طریقہ کار کی پاسداری کرتے ہوئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گاتو آئندہ ایسی صورتحال پیدانہیں ہو گی۔
ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا مسئلہ ایسا نہیں جو حل نہ ہو مگر فیصلہ ٹھونسنے کا عمل شکوک وشبہات پیداکرتا ہے ۔بظاہر حلقہ بندیاں اورانتخابی فہرستیں تیار کرنے کا عمل سُست روی کا شکارہے۔ اِس سست روی پر انگلیاں اُٹھنے سے روکنے کے لیے ہی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔ عدالتیں بھی فیصلہ تو کردیتی ہیں لیکن عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں توہینِ عدالت جیسی کارروائی بھی نہیں کی جاتی ،یہ درست ہے کہ عدالت کے پاس اپنے فیصلوں پر عمل کرانے کے لیے اپنی طاقت ورفورس نہیں بلکہ ریاستی اِداروں پر انحصار کرنا پڑتاہے لیکن ایک طرف تو جلد بازی میں فیصلے کردیے جاتے ہیں اورجب فیصلوں پر عمل نہیں ہوتا تو چُپ سادھ لی جاتی ہے۔ بہتر ہے عدالتِ عظمیٰ نہ صرف جلدبازی کے فیصلوں میںاحتیاط برتے بلکہ عدم تعمیل پر توہینِ عدالت کی کارروائی سے بھی دریغ نہ کرے تاکہ عدلیہ کی بالادستی قائم ہوطاقتورنظامِ انصاف سے ہی معاشرتی خرابیوں کا خاتمہ ہوتاہے۔ نئے چیف جسٹس کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا کہ جہاں سیاسی لوگ بیٹھتے ہیں وہاں سیاسی باتیں لازمی ہوتی ہیں ۔آئین کی سالگرہ کے موقع پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں جاکر انھیں اِس کا تلخ تجربہ ہو چکا ۔لہٰذا بہتر ہے ججز غیرجانبدارانہ تشخص کی بحالی کو اولیت دیں اور جلدبازی نہیں انصاف کوترجیح دیں۔ اِس طرح عدالتی فیصلوں پرعوامی اعتماد کی بحالی کا مقصدبھی حاصل ہو جائے گا ۔
سبکدوش چیف جسٹس عمرعطابندیال نے رخصت ہونے سے قبل نیب ترامیم کے حوالے سے ایک تاریخی فیصلہ دیا جس پرعمل ہونے سے کرپشن میں ملوث کئی سیاسی عناصرسیاسی اکھاڑے سے باہرہوسکتے ہیں کیونکہ اِس ایک فیصلے سے بظاہر 598کرپشن کے کیس ازسرِ نو بحال ہو نے کا امکان ہے بلکہ تین درجن کے لگ بھگ ایسے بھی مقدمات ہیں جن میںملک کے صف ِاول کے سیاستدانوں کے نام شامل ہیں مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا کہ عدلیہ اور ریاست میں ٹکرائو کی کیفیت سے ہی مطلوبہ مفید نتائج حاصل نہیںہو سکتے ہیں۔ نیز نیب ترامیم کالعدم ہونے کا عمل بھی آسان نہیں قومی احتساب بیورکی طرف سے وضاحت آچکی ہے کہ نیب قوانین میں سابق حکومت کی طرف سے کی گئی ترامیم کے بعد جو مقدمات بند ہو چکے یا جن پر عدالتیں فیصلہ سنا چکی ہیں انھیں دوبارہ نہیں کھولیں گے ۔مزید یہ کہ نیب اِس وقت انتظامی حوالے سے نامکمل ہے۔ ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل جیسے اہم ترین عہدے ہنوز خالی ہیں۔ امکان ہے کہ مذکورہ اہم عہدوں پر نئی تعیناتیوں تک کسی نوعیت کی پیش رفت مشکل ہے ۔لہٰذاکہہ سکتے ہیں کہ دیگر کئی فیصلوں کی طرح سبکدوش چیف جسٹس کے آخری فیصلے پر بھی شاید ہی پیش رفت ہو۔ ایسی افسوسناک صورتحال حددرجہ احتیاط کی متقاضی ہے جس سے بچنے کے لیے نئے چیف جسٹس کو حکمت وتدبر سے کام لینا ہو گا ۔ نیز ریاستی اِداروں کی عدلیہ سے روارکھی جانے والی عدم تعاون کی پالیسی کے خاتمے کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ علاوہ ازیں ایک جماعت کی طرف سے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے نئے چیف جسٹس کے منصب سنبھالنے پروہ اس لیے خوش ہیں کہ قیادت کو مقدمات سے ریلیف ملنے کاامکان ہے جو کسی طوربہتر نہیں۔ یہ تاثر جتنی جلدی ممکن ہو ختم کرنے سے عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہو گا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فل کورٹ بینچ تشکیل دینا اور عدالتی کارروائی سے آگاہ رکھنے کا عمل سنجیدہ فکر طبقے کے لیے باعثِ اطمنان ہے۔ شروعات کو مدنظر رکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ نئے چیف جسٹس آئینی بحران کی راہ روکیں گے کیونکہ حکومت کی خواہش کے برخلاف انھوں نے میمو گیٹ اسکینڈل میں ایک جرأت مندانہ فیصلہ دیا۔ بعض قانونی ماہرین اِس طرف اِشارہ کرتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ اگر سپریم کورٹ ایکٹ 2023کی سماعت کے دوران اِس حوالے سے ہونے والے فیصلوں کو معطل یا کالعدم قرار دیتا ہے تو عین ممکن ہے سبکدوش چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے قومی احتساب بیورو کے بارے میں کیا فیصلہ ختم کرنے کی راہ نکال کرہونے والی ترامیم کو من وعن بحال کردیاجائے، ایسا ہونے کی صورت کچھ سیاسی حلقے خاموش نہیں رہیں گے اور عوام کوبھی اچھا تاثر نہیں جائے گا؟ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ عدالتی تقسیم کا تاثر دور کرنے کے ساتھ غیر ضروری معاملات میں اُلجھنے سے پرہیز کیا جائے۔ نئے چیف جسٹس نے ایسے حالات میں منصب سنبھالا ہے ،جب ملک میں ایسی قیاس آرائیاں عام ہیں کہ ملک میں انصاف کے سب سے بڑے اِدارے میں براجمان منصف بھی تقسیم ہیں۔ نئے چیف جسٹس خود بھی 2019کے بعد سے کسی آئینی بینچ کا حصہ نہیں بنے جس کی وجہ عدلیہ میں تقسیم سمجھا جاتا ہے۔ اِس لیے ایسے تاثر کے خاتمے سے عدالتی عزت ووقار میں اضافہ ہوگا۔ تیرہ ماہ کے دوران نہ صرف چیف جسٹس نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں ۔بلکہ اِدارے میں اتفاق ویکجہتی کی فضا قائم کرنے کے ساتھ ملک میں شفاف طریقے سے انتخابی عمل مکمل کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت بھی کرنی ہے۔ قوم کو نئے چیف جسٹس سے بڑی توقعات ہیں۔ آیا وہ توقعات پرپورا اُتریں گے ؟اِس سوال کا وثوق سے جواب فوری طورپر دینا قدرے مشکل ہے ۔عدالتی فیصلوں سے ہی حتمی رائے دینے میں آسانی ہوگی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست ، غزہ میں نسل کشی وجود هفته 09 دسمبر 2023
مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست ، غزہ میں نسل کشی

خطرے کی گھنٹی وجود هفته 09 دسمبر 2023
خطرے کی گھنٹی

بدلہ نہیں بدلاؤ وجود جمعه 08 دسمبر 2023
بدلہ نہیں بدلاؤ

پنو اور نجر پر 'ہنگامہ ہے کیوں برپا'؟ وجود جمعه 08 دسمبر 2023
پنو اور نجر پر 'ہنگامہ ہے کیوں برپا'؟

جنگ بندی کے بعد اہل غزہ کا قتل عام وجود جمعه 08 دسمبر 2023
جنگ بندی کے بعد اہل غزہ کا قتل عام

اشتہار

تجزیے
غزہ موت وزیست کی کشمکش میں وجود بدھ 25 اکتوبر 2023
غزہ موت وزیست کی کشمکش میں

فلسطینیوں کے خلاف سفاکانہ کارروائیاں اور مغربی ممالک کا مجرمانہ کردار وجود بدھ 18 اکتوبر 2023
فلسطینیوں کے خلاف سفاکانہ کارروائیاں اور مغربی ممالک کا مجرمانہ کردار

متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود هفته 23 ستمبر 2023
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

اشتہار

دین و تاریخ
مسجد اقصیٰ کی فضیلت وجود جمعه 20 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ کی فضیلت

اسلام اور طہارت وجود منگل 17 اکتوبر 2023
اسلام اور طہارت

حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ وجود جمعه 29 ستمبر 2023
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات

مودی اور احمد آباد اسٹیڈیم کو دھماکے سے اڑانے کی دھمکی وجود هفته 07 اکتوبر 2023
مودی اور احمد آباد اسٹیڈیم کو دھماکے سے اڑانے کی دھمکی

بھارت کی سیکم ریاست میں سیلاب ،23 فوجی لاپتا وجود بدھ 04 اکتوبر 2023
بھارت کی سیکم ریاست میں سیلاب ،23 فوجی لاپتا
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
بھاری بھرکم آواز کے مالک عزیز میاں قوال کی 23 ویں برسی آج منائی جائے گی وجود بدھ 06 دسمبر 2023
بھاری بھرکم آواز  کے مالک عزیز میاں قوال کی 23 ویں برسی آج منائی جائے گی

ملی نغموں کے خالق نامور شاعر جمیل الدین عالی کی آٹھویں برسی آج منائی جائے گی وجود جمعرات 23 نومبر 2023
ملی نغموں کے خالق نامور شاعر جمیل الدین عالی کی آٹھویں برسی آج منائی جائے گی

دنیا کی 100 با اثر خواتین کی فہرست جاری، 2 پاکستانی بھی شامل وجود بدھ 22 نومبر 2023
دنیا کی 100 با اثر خواتین کی فہرست جاری، 2 پاکستانی بھی شامل
ادبیات
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر

فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے