وجود

... loading ...

وجود
وجود

منی پور:شرم تم کو مگر نہیں آتی

جمعه 28 جولائی 2023 منی پور:شرم تم کو مگر نہیں آتی

معصوم مرادآبادی

شمال مشرقی ریاست منی پور میں قبائلی خواتین کی برہنہ پریڈ کی انتہائی شرمناک ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد پورا ملک سراپا احتجاج ہے ۔اس ویڈیو کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس شورش زدہ ریاست میں نظم ونسق کی مشنری گھٹنوں کے بل چل رہی ہے ۔ بی جے پی کے اقتدار والی اس ریاست میں امن وقانون نام کی تو کوئی چیزپہلے ہی نہیں تھی، اب شرم وحیا اور غیرت کا بھی جنازہ نکل گیا ہے ۔ کوکی قبائل کی دو خواتین کو پولیس حراست سے چھڑا کر ان کے ساتھ جو درندگی اور بربریت کی گئی ہے اس نے ان تمام لوگوں کو شرمسار کردیا ہے جو خودکو ایک مہذب سماج کا حصہ سمجھتے ہیں۔ دوخواتین کو مادرزاد برہنہ کرکے نہ صرف یہ کہ شارع عام پر ان کی پریڈ کرائی گئی بلکہ اس دوران ان کے جسم نوچے گئے اور انھیں اجتماعی عصمت دری کا بھی نشانہ بنایا گیا۔
یہ واردات اپنے آپ میں اتنی شرمناک اور درندگی و بربریت والی ہے کہ اسے بیان کرنے پر قلم بھی پوری طرح قادر نہیں ہے ۔ اس ملک میں خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی کے شرمناک واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوا ہے کہ وحشی درندوں نے خواتین کو شارع عام پر برہنہ کرکے ان کی پریڈ نکالی ہو اور ان کے ساتھ وہ سب کچھ کیا ہو جس کی اجازت مہذب سماج میں کسی بھی طورپر نہیں دی جاسکتی۔ اس واقعہ نے 2013میں دہلی میں ہوئی اس وحشیانہ واردات کی یاد تازہ کردی ہے جس میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ رات کے وقت ایک بس میں درندگی، بربریت اور وحشت کی تمام حدیں پارکرلی گئی تھیں۔ بعد کو یہ واقعہ نربھیا کیس کے نام سے مشہور ہوا اور پورے ملک میں اس کے خلاف بے نظیر احتجاج کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس شرمناک واقعہ کی زد میں آکر یوپی اے سرکار کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔
کیا اب یہ سمجھنا چاہئے کہ منی پور کی واردات کے بعد بی جے پی اقتدار کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ؟ہاں فرق اتنا ہے کہ اس سنگین وارادات کے خلاف گودی میڈیا پوری طرح سرگرم تھا جو اس وقت مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ یہ گودی میڈیا ہے جو بی جے پی کے اقتدار میں ہونے والی کسی بھی سنگین وارادات پر یونہی مجرمانہ خاموشی اختیار کرتا ہے جبکہ غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں ہونے والی معمولی وارادت پر آسمان سرپر اٹھا لیتا ہے ۔ منی پور میں گزشتہ تین ماہ سے جو کچھ ہورہا ہے ، اس پر گودی میڈیا نے مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے جبکہ یہاں اس عرصے میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 160افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور اربوں روپوں کی جائیداد شعلوں کی نذر ہوچکی ہے ۔اس وقت بھی اگر ملک کی سب سے بری عدالت یعنی سپریم کورٹ خواتین کی بے حرمتی کے واقعہ پر سرگرم نہ ہوتا تو شاید حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔
منی پور گزشتہ تین ماہ سے مسلسل آگ اور خون میں لت پت ہے ۔ دوقبائل کے درمیان جاری رسہ کشی کے نتیجے میں اب تک بھاری تباہی وبربادی ہوچکی ہے ۔وہاں بی جے پی اقتدار میں ہے جو طاقت کے بل پر اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ منی پور میں مرکزی سیکورٹی فورس کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے ۔ لیکن یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ہر مسئلہ کو طاقت کے زور پر حل نہیں کیا جاسکتا۔ منی پور کا مسئلہ دراصل کوکی اور میتئی قبائل کے درمیان ہے ۔ کوکی قبائل کا تعلق عیسائی طبقہ سے جبکہ میتئی قبائل ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں حکمراں جماعت حسب عادت میتئی قبائل کے ساتھ ہے اور یہی اس سنگین مسئلے کے حل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔اسی سبب منی پور پچھلے تقریباً تین مہینے سے بدترین تشدد، آگ زنی اور فرقہ وارانہ منافرت کی آگ میں جل رہا ہے ۔ ڈبل انجن کی سرکار میں ہرمسئلے کو آن واحد میں حل کرنے کی دعویدار مرکزی اور صوبائی حکومت منی پور میں پوری طرح بے بس اور لاچار نظر آتی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہاں حکمرانی نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اس صورتحال پر مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے اور ایک ایسے وقت میں زبان کھولی ہے جب دوخواتین کی برہنہ پریڈ کرائے جانے کا معاملہ منظرعام پر آیا ہے ۔یہاں بھی انھوں نے بیان دیتے وقت کانگریس کے اقتدار والی دوریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ کوبھی لپیٹا ہے تاکہ منی پور کی واردات کا جواز پیش کیا جاسکے ۔لیکن منی پور کی واردات ہندوستان کی پیشانی پر اتنا بدنما داغ ہے کہ اس کا کبھی مٹایا نہیں جاسکتا۔ منی پور میں ظلم وبربریت کا شکار ہونے والی دوخواتین میں سے ایک کا شوہر فوجی ہے اور وہ کارگل کی جنگ میں حصہ لے چکا ہے ، لیکن اپنی تمام ترحب الوطنی کے باوجود وہ اپنی بیوی کو بے عزت ہونے سے نہیں بچا سکا۔ہندوستانی فوج کی آسام رجمنٹ میں خدمات انجام دے کر سبکدوش ہونے والے فوجی کا کہنا ہے کہمیں نے کارگل جنگ میں ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی بازی لگادی، شری لنکا میں ہندوستانی امن فوج کا حصہ بھی رہا، لیکن جب اپنوں پر بن آئی تو ان کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔میری بیوی کو سرعام بے قابو بھیڑ نے برہنہ کرکے سڑکوں پر گھمایا اور میں اس کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا۔ اپنا گھر اور گاؤں والوں کو نہیں بچا سکا، جس کا مجھے تازندگی افسوس رہے گا۔
منی پور کی جس واردات نے پوری دنیا میں ہندوستان کو شرمسار کیا ہے ،وہ اب سے ڈھائی مہینے پہلے یعنی /۴مئی کو ہوئی تھی۔ اس کی باقاعدہ ایف آئی آر بھی دررج کی گئی تھی، لیکن مقامی پولیس اور انتظامیہ نے اس پرکوئی کارروائی نہیں کی اور وہ لیپا پوتی کرنے کی کوشش کرتی رہی۔جب سپریم کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس لیا تو ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے اس وارادات پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی کی مرکزی اور صوبائی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ فوری اقدامات کریں اور سپریم کورٹ کو آگاہ کریں کہ کیا کارروائی عمل میں آئی ہے ۔ بنچ نے حکومت کو متنبہ کیا کہ ہم حکومت کو کارروائی کرنے کے لیے تھوڑاوقت دیں گے ، لیکن اگر کچھ نہیں کیا گیا تو ہم کارروائی کریں گے ۔سپریم کورٹ کے علاوہ اس معاملے میں پارلیمنٹ میں بھی زبردست ہنگامہ برپا ہے ۔ اپوزیشن مسلسل اس واقعہ پر وزیراعظم نریندر مودی سے بیان دینے کا مطالبہ کررہا ہے ۔ اس مطالبہ پر پچھلے ہفتہ پارلیمنٹ کی کارروائی تعطل کا شکار رہی۔کانگریس نے اس معاملے میں منی پور کے وزیراعلیٰ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے منی پور میں صدرراج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ حکمراں بی جے پی کے ایک ممبرپارلیمنٹ اور سابق کرکٹ کھلاڑی گوتم گمبھیر نے اس واقعہ کو انتہائی شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ خودکو ہندوستانی کہنے پرشرم محسوس کرتے ہیں، کیونکہ معاملہ صرف منی پور تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے پوری قوم کو شرمسار کردیا ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ منی پور پولیس کے پاس اس انتہائی سنگین واردات کے تعلق سے اٹھنے والے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے ۔4مئی کو ہونے والی شرمناک واردات کی ایف آئی آر 19مئی کو ہی درج ہوگئی تھی مگر دوماہ تک کسی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔ پہلی گرفتاری اس وقت ہوئی جب ویڈیو منظرعام پرآیا اور یہ معاملہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں آگیا۔سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ اگر ویڈیو منظرعام پر نہ آتا تو کیا پولیس اب بھی ملزمان کو گرفتار نہ کرتی۔پولیس اس الزام کا بھی جواب نہیں دے رہی ہے کہ خودپولیس اہل کاروں نے پانچ افراد کے گروپ کو میتی مردوں کی بھیڑ کے حوالے کیا تھا اور واردات کے وقت وہ خود بھی وہاں موجود تھی۔ایف آئی آر میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ جب فسادی بھیڑ نے دوخاندانوں کے پانچ افراد کو گھیر لیا اور ان پر ظلم کرنے لگے تو اپنی بہن کی آبرو بچانے کے لیے ایک نوجوان اپنی جان پر کھیل گیا۔بھیڑ نے اسے بہن کے ساتھ موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اتنا ہی نہیں مذکورہ لڑکی کے والد کو بھی اسی کے سامنے قتل کردیا گیااور دھمکی دی گئی کہ اگر وہ کپڑے نہیں اتارتی ہے تو اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔دراصل بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں خواتین کی بے حرمتی کرنے والوں کے ساتھ جو حسن سلوک کیا جاتا ہے اس کی مثال گجرات میں بلقیس بانو کے مجرموں کی پذیرائی، ہریانہ میں آسارام باپو کو ملنے والی چوتھی پیرول اور برج بھوشن سرن سنگھ کے ساتھ ہونے والی نرم کارروائی سے دی جاسکتی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر