وجود

... loading ...

وجود
وجود

پرانی معیشت نئے مسائل

اتوار 23 جولائی 2023 پرانی معیشت نئے مسائل

روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام حسین اور ان کے رفقا نے باطل کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے انکار کرکے کلمہ حق بلند کیا اور جرأت و استقامت کی وہ تاریخ رقم کی جس کی مثال ملنا نا ممکن ہے۔ محرم الحرام صبر اور استقامت کا درس دیتا ہے۔ باطل کے خلاف ڈٹ جانا شہدائے کربلا کا درس انقلاب ہے۔ آج بھی حالات ہمیں ڈٹ جانے کا درس دیتے ہیں۔ ملک میں معاشی،سماجی اور قانون کی ناانصافی کی وجہ سے غریب طبقہ روٹی سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ حضرت عمر فارو ق نے اپنے دور میںعد ل و انصا ف اور مساوات کو قائم کر کے بہتر ین خدمات سر انجام دیں۔ان کادور خلافت پوری دنیا کے حکمرانو ں کیلئے قا بل تقلید اور قابل عمل ہے۔ آ ج معا شرہ عد ل و انصا ف اور مساوات کی نعمت سے محرو م ہو چکا ہے جس معا شرے میں عدل و انصاف ختم ہو جائے، وہ معا شرہ تمام تر نعمتوں کے موجود جانوروں اور بھیڑیو ں کامعاشرہ ہی کہلاتا ہے، عدل و انصاف اورمساوات ہی انسانیت کو انسانیت آشنا بناتے ہیں۔ اگر عدل و انصاف کو اٹھا دیا جائے تو معا شرہ عذاب بن کررہ جا تا ہے اورانسانیت اپنے ہی کیے دھرے میں جھلس کررہ جا تی ہے۔
ہمارے حکمران زبانی جمع خر چ کے علاوہ کو ئی خدمات سرانجام نہیں دیتے۔ اگر سیا ستدان خدمت انسانیت میں مخلص ہیں انہیںحضر ت عمر فارو ق اعظم رضی اللہ عنہ سمیت دیگر خلفائے راشدین کی زند گیوں کامطالعہ کر کے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی صلاحیتو ں کو وقف کرنا ہوگالیکن بدقسمتی سے ہم باتیں تو ان کی کرتے ہیں لیکن حکم بیرونی آقائوں کا مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم قرضہ کی ایک قسط حاصل کرکے خوشیاں منارہے ہیں اگر دیکھا جائے تو ہم نے ملک کو گروی رکھ کر حکمرانوں کی عیاشیوں کے لیے پیسے حاصل کیے ہیں ۔بڑی جماعتوں کا آئی ایم ایف قرض معاہدے پر کاربند رہنا قومی اور حساس اداروں کو بیچنے کے مترادف ہے۔ واپڈا، ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ ، او جی ڈی سی ایل، پاور ہائوسز اور انٹرنیشنل ایئرپورٹس سمیت دیگر قومی اثاثوں کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنا ملک کے ساتھ کھلم کھلا مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ ان تحریری معاہدوں میں قومی اثاثوں کی نجکاری، ڈائون سائزنگ، رائٹ سائزنگ، غریب ملازمین کی تنخواہوں پر پہلے سے حاصل مراعات سے کٹوتی، پنشن کا خاتمہ ، پیٹرولیم مصنوعات،بجلی، گیس اور خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں50 فیصد سے زیادہ اضافہ،نجکاری کے نام پر لاکھوں برسرروزگار لوگوں کو روزگار سے محروم کرنے سمیت آئی ایم ایف قرض پروگرام میں دیگرسخت شرائط رکھنا 24کروڑ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ حکمرانوں کی غلط معاشی و مالیاتی پالیسیوں نے پہلے ہی ملک کو 129 ار ب ڈالرز سے زیادہ کا مقروض بنادیا ہے۔ گزشتہ 75 سالوں سے 5 فیصد مراعات یافتہ طبقہ بیورورکریٹس، سرمایہ دار، جاگیردار،صنعتکار، چوہدری، خان، سردار اور وڈیرے غریب عوام بالخصوص محنت کش طبقے کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ عوام ہر آنے والے دن ابتری کا شکار ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ عوام کے حقوق کیلئے لڑتے لڑتے دولت مند ہوگیا ہے، انہوں نے اتنا پیسہ جمع کرلیا ہے کہ ان کے پاس پاکستان میں پیسہ رکھنے کی جگہ ہی نہیں ہے۔ اس لیے وہ اپنا مال و دولت بیرونی ملک بینکوں میں منتقل کرتے ہیں۔ کاش ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے عہدیدار آئی ایم ایف کو تحریری معاہدے میں یقین دہانی کرانے کے بجائے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس پاکستان لے کر آتے ان اربوں ڈالرز سے نہ صرف آئی ایم ایف کا قرضہ اتر سکتا ہے بلکہ اس دولت کو ملک کی تعمیر و ترقی پر لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ملک و قوم کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کرایا جاسکتا ہے، لیکن حکمرانوں میں سے کوئی بھی قربانی دینے کو تیار نہیں، الٹا عوام کو قربانی کا درس دیا جارہا ہے۔ اس مشکل وقت میں بڑی سیاسی جماعتوں کے دولتمند عہدیداران قربانی دے کر ملک و قوم پر رحم کریں کیونکہ حکمرانوںنے آئی ایم ایف کی شرائط پر ٹیکسز عائد کر کے عوام کا خون تک نچوڑ لیا ہے۔ ملک وقوم سے محبت کرنے والے سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام اور غلامانہ پالیسیاں ملک و قوم کیلئے زہر قاتل ہیں جو ملکی سا لمیت اور معیشت کو زمین بوس کر دیں گی کیونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی جن شرائط پر عمل کرنا ہے وہ بہت سخت ہیں اور پاکستانی معیشت کو نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا اور غریب کا مزید سوا ستیا ناس ہو جائے گا ۔ہمارے دوست ملکوں نے بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ اپنے ملک کے اندر کے حالات ٹھیک کرکے سیاسی اور معاشی استحکام لائیں جبکہ حکمرانوں کی پالیسیوں سے غریب کا کوئی والی وارث نہیں رہا۔کاروباری حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں نہ کوئی فیکٹری لگا رہا ہے نہ کوئی سرمایہ کار آ رہاہے۔24کروڑ لوگوں میں سے 10 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ 10 لاکھ ڈاکٹر ز، انجینئر زپروفیسر زملک چھوڑ گئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو آئی ایم ایف نے جو شرائط جاری کر دی ہیں، وہ حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ بجلی اورگیس کی قیمت بڑھا کر چینی آٹا مہنگا کر کے حکمران عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتے اور یہ کس منہ سے عوام میں ووٹ مانگنے جائیں گے۔ اسی لیے تو الیکشن کے حوالے سے کبھی 90دن کی اور کبھی60دن کی باتیں ہو رہی ہیں ابھی تک نگران وزیر اعظم کے نام پر بھی اتفاق نہیں ہوسکا۔ حکومت نے اپنے منی لانڈرنگ اور کرپشن کے کیس ختم کرا لیے ہیں لیکن آج عوام کا کیس لڑنے والا کوئی نہیں ہے، ہر کوئی اپنے سیاسی فائدے کا سوچ رہا ہے۔ ملک و قوم اور غریب عوام کے فائدے کی کوئی بات نہیں ہو رہی۔
ان مشکل ترین حالات میں حکومت کو چاہیے کہ ملک کے محب وطن تاجروں، معیشت ومالیات کے ماہرین اور دانشوروں کے ساتھ بیٹھ کر ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کی غلامی، سود وقرضوں کی معیشت سے نجات دلانے کیلئے لانگ ٹرم پالیسیاں بنائی جائیں جبکہ زراعت ،تعمیرات، بجلی، گیس اور پیٹرول پر ٹیکس لگانے سے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں مزید ہوشربا اضافہ اور تعمیرات کے شعبہ کی حوصلہ شکنی سے بیروزگاری میں اضافہ ہوگا اس لیے آئی ایم ایف کے معاہدے اورڈکٹیشن سے ملک کی معاشی تباہی وبربادی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا مہنگائی کا بم گراکر عوام کا خون چوسنے کیلئے مجبور کرنے والا آئی ایم ایف حکمرانوں کو شاہانہ اخراجات ختم اور سادگی اختیار کرنے کا پابند کیوں نہیں کرتا؟ آئی ایم ایف نے عام لوگوں کے سامنے بھی بیشتر شرائط بیان کردی ہیں جن کا براہِ راست اثر عوام کی زندگی پر پڑے گاآخر میں پنجاب حکومت نے میڈیا کے حوالہ سے ایک اچھا کام کیا ہے کہ راولپنڈی میں انفارمیشن کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھ دیا یہ انفارمیشن کمپلیکس راولپنڈی ڈی جی پی آر کا پہلا فیلڈ آفس بھی ہوگا جس کی اپنی سٹیٹ آف دی آرٹ عمارت ہوگی اور میڈیا کی تمام جدید سہولیات میسر ہونگی کیونکہ ڈی جی پی آر مستند اطلاعات کی ترسیل کا ذریعہ ہے اور اسکے فیلڈ آفیسز کو جدید سہولیات سے لیس کر کے عوام اور حکومت کے درمیان تعلق کومزید مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ اس کمپلیکس میں ایک وسیع پریس کانفرنس ہال کے علاوہ سوشل میڈیا سٹوڈیو، نیوز روم اور الیکٹرانک میڈیا مانیٹرنگ کا سسٹم بھی مہیا کیا جائے گاجبکہ اسکے کیفے ٹیریا کو نیشنل پریس کلب کے کیفے ٹیریا کے طرز پر چلایا جائے جہاں سرکاری افسران و ملازمین اور صحافیوں کو رعایتی نرخوں پر اعلیٰ کوالٹی کا کھانا فراہم کیا جائے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

واحدسپرپاورکاگھمنڈ وجود پیر 13 مئی 2024
واحدسپرپاورکاگھمنڈ

سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر