وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہر پاکستانی سوادولاکھ کا مقروض

جمعه 02 جون 2023 ہر پاکستانی سوادولاکھ کا مقروض

روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے بعد میںسمجھتا تھا کہ اب پاکستان ضرور ترقی کرلے گا کیونکہ عمران خان اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا جسے ہٹا دیا گیا اسکی پارٹی میں کوئی لیڈر نہیں بچا سبھی دم دبا کر بھاگ چکے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان جیسا نیک سیرت اور پاکباز شخص جسے وزارت نہیں بلکہ وزارتوں سے نوازا گیا۔ پہلی بار وزیر بننے کے بعد جس کے پاس خاتون سے مساج کروانے کے بعد اسے دینے کو بھی پیسے بھی نہیں تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ۔وہ بھی گلے شکوے سے پارٹی چھوڑ گیا اس وقت سیاسی میدان تقریبا صاف ہے۔ قومی اسمبلی میں پہلے ہی میدان صاف ہو چکا ہے وہاں بھی کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔ راجہ ریاض ہاتھی کا وہ دانت ہے جو صرف دکھاوے کے لیے ہوتا ہے ۔پی ڈی ایم اور باقی ساری جما عتیں بمعہ اسٹیبلشمنٹ حکومت میں ہیں ۔ اس لیے پاکستان میں سیاسی استحکام آئے گا۔ ساری پارٹیاں آپس میں شیر وشکر ہوں گی نہ کوئی دھرنا ہوگا اور نہ ہی کوئی احتجاج ،فیس بک پربھی تنقیدی اوازیں دب جائیں گی۔
اسمبلی میں بھی اپوزیشن کی تقریروں اور روز کی چخ چخ سے جان چھوٹ جائے گی۔ اب پاکستان چند سالوں میں چین سے بھی ذیادہ ترقی کر لے گا کیونکہ اب حکومت کی باگ ڈور کہنہ مشق،ایماندار دنیا اور عالم اسلام کے بہترین رہنماؤں نواز شریف بمعہ اہل خانہ،زرداری بمعہ اہل خانہ،فضل الرحمن بمعہ اہل خانہ اور دیگر زعماء کے ہاتھ میں ہیں ۔اس کے علاوہ اس حکومت کے ساتھ حضرت مولانا فضل الرحمان مد ظلہ ان کی جماعت سے منسلک ہزاروں علما اور ان کے لاکھوں پیروکاروں کی دعائیں بھی ساتھ ہوں گی اور ساتھ میں مولانا صاحب نے تھائی لینڈ میںجو چلہ کشی کی ہے ۔ اس کے بھی اثرات نمایا ں ہو نگے، جلد ہی روپیہ کی قدر ڈالر سے بڑھ جائے گی۔ ملک میں امن امان کا دور دورہ ہوگا۔ صنعتی اور ٹیکنالوجیکل انقلاب برپا ہوجائے گا ۔گوگل،فیس بک اور دوسری ٹیک کمپنیوں کے سی ای اوز پاکستانی ہوں گے۔ یورپ والے پاکستانی یونیورسٹیوں میں داخلے اور پاکستانی ویزے کے لئے منتیں ترلے کرتے نظر ا ئیں گے، کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام دنیا کا سب سے بہترین تعلیمی نظام ہوگا ۔ہر سال ہزاروں لاکھوں سائنسدان ان یونیورسٹیوں سے فارغ ہوکر نت نئی ایجادات کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ امریکہ،چین اور یورپ سے لوگ لاعلاج امراض کے لئے پاکستانی ہسپتالوں میں ائیں گے جی ڈی پی گروتھ ریٹ 22 فیصد سالانہ ہوجائیگی ۔پاکستانی اگر ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی ضرور ہو جائیں گے مہنگائی کا نام ونشان نہیں رہیگا۔زر مبادلہ کے ذخائر کھربوں ڈالر ہو جائیں گے اور بہت سارے ممالک ہمارے مقروض ہونگے، مگر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ سبھی تدبیریں الٹی ہوگئی اور ملک میں اس وقت کم شرح نمو، آسمان کو چھوتی مہنگائی، بے روزگاری، گرتی ہوئی سرمایہ کاری، وسیع ہوتا ہوا تجارتی اور مالیاتی خسارہ، غیر یقینی طور پر کم غیر ملکی ذخائر، قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم اور بیرونی عدم توازن کم ہونے کا نام نہیں لے رہا، جس کی بنیادی وجہ پالیسیوں میں عدم مطابقت ، سیاسی عدم استحکام اورمتضاد اقتصادی پالیسیاں ہیں۔ جبکہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عملدرآمد بشمول توانائی کی سبسڈی ختم کرنے سے عام لوگوں کے معاشی حالات مزید خراب ہوگئے جس کی وجہ سے ہم بلند افراط زر، روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر گراوٹ اور اشیائے ضروریہ کی شدید
قلت کے ساتھ ایک مفلوج معاشی بحران کا شکار ہو گئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 10 فروری 2023 تک زرمبادلہ کے ذخائر 3.1 بلین ڈالر کی خطرناک حد تک گر چکے ہیں۔ ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات 60 کھرب روپے سے زائد ہو چکے ہیں ۔ہر شہری پر قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک 21 فیصد اضافے سے 216,708 روپے تک پہنچ گیا ہے جو دن بدن بڑھتا ہی رہے گا اور یہی قرضہ ہماری معاشی بدحالی کی وجہ ہے پوری قوم مل کر اس قرضہ کو اتارنے میںلگی ہوئی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنہوں نے ملک کے نام پر قرضے لے کر خود کھائے وہی ادا کریں۔ اس وقت بھی ملک میں عالمی مالیاتی ادارے کا 23واں پروگرام چل رہا ہے اور ملک آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جا رہا ہے آج ہم اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے بھی دوچار ہیں حکمرانوں اورمقتدرقوتوں کی لوٹ مار کی وجہ سے عوام نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ہر طرف بدعنوانی کا دوردورہ ہے تعلیم وصحت ،خوراک سمیت ہرپراجیکٹ میں کمیشن خور مافیا اپنے دانت تیز کیے بیٹھا ہے بڑھتی غربت اور بے روزگاری نے نوجوانوںکو بدعنوانی،جہالت،ناانصافی اورسائل کی لوٹ مار نے تباہ کر دیا ۔ مفت آٹا اسکیم میں 22ارب روپے سے زائد کی کرپشن نے حکمرانوں کے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے لوٹ مار کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس قسم متعدد واقعات ماضی میں بھی رونما ہو چکے ہیں جن میں اربوں روپے خرد بردکیے گئے ۔غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے نام پر اربوں روپے کی بوکس پراجیکٹ بنائے جاتے رہے۔
ملک و قوم کا یہ المیہ رہا ہے کہ جو بھی بر سرا قتدار آیا اس نے لوٹ مار اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سوا کچھ نہیں کیاقومی خزانے کو بے دردی سے لوٹاگیااور کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے سبھی ادارے تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں کرپٹ افراد کی کرپشن کو روکنے والا کوئی نہیں نیب سمیت چیک اینڈ بیلنس بر قرار رکھنے اورانسداد بد عنوانی کے تمام ادارے ناکام اور ان کے تمام حربے بے سود دکھائی دیتے ہیں آئے روزکرپشن کی داستانیں منظر عام پر آ رہی ہیں اور دنیا مریخ پر پہنچ گئی مصنوعی ذہانت اور آئی ٹی کے میدانوں میںانقلاب آرہے ہیں اورہمارے یہاں 80فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں بجٹ بنانے کے لیے حکومت ٹکٹکی باندھ کر آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہی ہے ۔ ادارے ،سیاسی جماعتیں مفادات کے لیے دست وگریبان اور عوام غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے لڑ رہے ہیں۔ وسائل پر دو فیصد حکمران اشرافیہ قابض ہے جنہوں نے قوم کو تعصبات پر تقسیم کیا گیا جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے قوم کو تقسیم کر کے فائدہ اٹھایا اور اقتدار پر قابض رہے جنکی غلط معاشی پالیسیوں کا نتیجہ غیر موثر اقتصادی پیداوار، بے روزگاری، افراط زر، آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات، تجارتی خسارے اور کم سرمایہ کاری کا باعث بنتا ہے۔ زراعت میں جدت نہ ہونے کی وجہ سے تباہی کی جانب گامزن جعلی ادویات کی بھر مار ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر