وجود

... loading ...

وجود
وجود

دہر کے اندھیرے کو اک چراغ کافی ہے

جمعه 02 جون 2023 دہر کے اندھیرے کو اک چراغ کافی ہے

ڈاکٹر سلیم خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رجب طیب اردگان ان رہنما وں میں سے ایک ہیں جن اچھے لگنے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی ۔ دنیا بھرکے انتخاب میں ہار جیت ہوتی ہے لیکن ان کے حوالے سے وہ تجسس ، دلچسپی اور فکر مندی نہیں ہوتی جو ترکیہ کے تعلق سے ہوتا ہے ۔ اردگان کے انتخاب کی جانب ساری دنیا کے مسلمان متوجہ ہوجاتے ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوجائیں۔ محبت اور عقیدت کی بنیاد پر قائم ہونے والایہ قلبی تعلق مادی نفع نقصان سے سے پرے ہے ۔ اس لیے جب یہ خبر آئی کہ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں صدر اردگان نے اپنے مد مقابل کمال کلچدار اولو کو شکست دے دی تودنیا بھرکی امت مسلمہ میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔غزہ میں مٹھائی تقسیم ہوئی۔ 28 مئی کو دوسری کوشش میں طیب اردگان نے 52.09 فیصد ووٹ حاصل کر کے اپنی کامیابی کا پرچم لہرایا۔ حزب اختلاف کے امیدوار کلچدار اولو 47.91 فیصد ووٹ حاصل کر سکے ۔ گوکہ فرق صرف چار فیصد کا ہے لیکن کامیابی تو کامیابی ہوتی ہے ۔ رجب طیب اردگان کی کامیابی نے اہل ایمان کوخوش کردیا ۔ بیس سال تک اقتدار میں رہ کر عوام کی ناراضی سے بچے رہنا بے حد مشکل ہدف تھا لیکن بقول احمد فراز(مع ترمیم)
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا تھا
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا تھا
رجب طیب اردگان کی جیت کی ایک نظریاتی تاریخ بھی ہے ۔ سلطنتِ عثمانیہ کی فوج کے سابق کمانڈر مصطفیٰ کمال اتاترک نے پورے سوسال قبل 1923 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرکے سیکولر زم کو بزور قوت ملک پرمسلط کر دیاتھا۔ اتاترک اور ان کے جانشین فوجیوں نے چارمنتخبہ حکومتوں کومحض اس لیے گرادیا کہ ان کے نزدیک عوام کی تائید سے قائم ہونے والی ان سرکاروں سے سیکولرازم کے نظریے کو خطرہ لاحق ہوتا تھا۔ اس طرح کئی دہائیوں تک ساری دنیا نے ترکیہ میں سیکولر جمہوریت کے دیو استبداد کا ظلم و جبر دیکھا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ موجودہ صدر رجب طیب اردگان کو بھی 1999 میں سیکولر ریاست پر تنقید کرنے کی پاداش میں جیل جانا پڑا لیکن وہ حربہ نا کام ر ہا۔ چار سال بعد سنہ 2003 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے قوم کو سخت گیر سیکولر طرز حکمرانی سے نجات دلائی ۔ اس وقت ملک اور بیرونِ ملک میں لوگ باگ فوج کے حوالے سے مختلف اندیشوں کا شکار تھے لیکن وہ سیل رواں رک نہیں سکا اور کامیابی کے ساتھ دودہائیوں کا سفر پورا کیا۔ اس طرح گویا مصطفیٰ کمال اتاترک کے نظامِ جبر کو ایک صدی کے بعد ٹھکانے لگا دیاگیا۔ رجب طیب اردگان کی مقبولیت کا راز اس عظیم کارنامہ میں پنہاں ہے ۔ اپنی حالیہ کامیابی کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ ‘آپ نے ہمیں دوبارہ یہ ذمہ داری دی ہے ۔ ہم سب مل کر اسے ترکی کی صدی بنائیں گے ۔’
بیس سال قبل اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد رجب طیب اردگاں نے نہایت صبرو استقامت کے لادینیت کی بیخ کنی کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے مذہبی قوانین نافذ کیے ۔ گیارہ سالوں تک وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سنہ 2014 میں انہوں نے آئینی ترمیم کرکے ملک میں صدارتی نظام رائج کیا ۔ پارلیمانی طرزِ حکومت میں جوڑ توڑ کی کافی گنجائش ہوتی ہے ۔ سیاسی جماعتیں تیس پینتیس فیصد ووٹ حاصل کرکے بھی سرکار بنا لیتی ہیں۔ ایسے میں ایک نہایت جرأتمندانہ اقدام کے ذریعہ انہوں نے عوام کوبراہ راست اپنی رائے سے سربراہِ مملکت منتخب کرنے کا موقع دیا ۔ اس میں یہ شرط بھی تھی کہ کامیاب امیدوار کے لیے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا لازمی ہے ۔ یہ فیصلہ اردگان کی خود اعتمادی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اس کے بعد دو مرتبہ صدارتی انتخاب جیت کر انہوں نے اپنی مقبولیت کا لوہا منوایا۔ طیب اردگان کی جماعت کو 600 ارکان والی پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل ہے ۔رجب طیب اردگان کی مقبولیت ملک وبیرونِ ملک میں دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا بنی رہی۔ انتخابی میدان میں پے درپے ناکامیوں کے بعد انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی خاطر سنہ 2016 میں ایک فوجی بغاوت بھی کی گئی مگر اس پر قابو پانے کے بعد ان کی مقبولیت میں چار چاند لگ گئے ۔
ترک صدر طیب اردگان کے لیے دو دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد مسلسل تیسری بار صدر منتخب ہونا نہایت مشکل چیلنج تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ایک مصلح کے طور پر انسانی حقوق اور آزادیوں کو توسیع دے کر انہوں نے اکثریتی مسلم ملک ہونے کے باوجود یورپی یونین کی رکنیت کے لیے راہ ہموارکی مگر پھر مغرب ان کے پیچھے پڑگیا۔ ان پر اختلاف رائے کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور میڈیا کا گلا گھونٹنے کے الزامات لگائے گئے ۔ اس کے ساتھ انتخاب سے قبل معاشی بدحالی، بلند افراط زر نے لوگوں کو پریشان کررکھاتھا۔ اس دوران ملک کے حصے میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے معیشت کا بحران سے بڑھا دیا۔ اس کے بعد تین ماہ کے اندر صدارتی اورپارلیمانی انتخابات کا سامنا کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ ملک کی خستہ حالی کا بہانہ بناکر انتخابات ملتوی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کا ایسا اقدام کمزوری کی علامت گردانا جاتا اور ایردوان جیسے رہنما کے لیے بزدلانہ شبیہ سے زیادہ نقصان دہ کچھ بھی نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمت کے ساتھ پیش قدمی کا ارادہ کیا ۔ مثل مشہور ہے ‘ہمتَ مرداں مدد خدا’ رجب طیب اردگان کے اس توکل پر نصرت الٰہی شامل ہوئی اور کامیانی سے ہمکنار کردیا۔ اس نوید صبح پر شاعر کہتا ہے
لباس صبح میں ہے کوئی رہبر صادق
جگا رہی ہے اندھیرے کو روشنی کی پکار
27 مارچ 1994کورجب طیب اردگان نے اپنے سیاسی سفر کی ابتداء استنبول شہر کے مئیر کی حیثیت سے کی تھی ۔ اگست 2001 میں انہوں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی بنیاد رکھی۔3 نومبر 2002کو اے کے پی نے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی، تاہم سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے اردگان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تھے ۔9 مارچ 2003 کو سیاسی پابندی ہٹائے
جانے کے بعد ایک ضمنی انتخاب میں وہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور پانچ روز بعد وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔اردگان نے اکتوبر 2005 میں ترکی کو یورپی یونین میں شامل کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ 22 جولائی 2007کو 46.6 فیصد ووٹ حاصل کرکے اردگان نے دوسری پارلیمانی جیت درج کرائی ۔اس طرح ان کے اعتماد میں جو اضافہ ہوا تو انہوں 20 اکتوبر 2008کو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث فوجی افسران اور دیگر عوامی شخصیات کے خلاف مقدمہ چلا کر ان کو کمزور کردیا۔ 12 ستمبر 2010 کو ایردوان نے بڑے پیمانے پر آئینی تبدیلیاں کرکے استصواب کرایا اور کامیابی حاصل کی۔ اس طرح عوام کی منتخبہ حکومت کو ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری اور فوج کے اختیارات کم کرنے کا اختیار مل گیا۔ یہ اصلاحات نہ ہوتیں تو عوامی حکومت پراس فوج اور عدلیہ کی تلوار لٹکی رہتی جس نے ماضی میں چار مرتبہ بزور قوت اپنی آمریت قائم کردی تھی۔
ان اصلاحات کے بعد 12 جون 2011کو منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخاب میں اے کے پی نے 49.8 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ 28 مئی 2013 کو ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول سے ان کے خلاف احتجاج شروع ہوا اور ملک بھر میں پھیل گیا۔ اس طرح دنیا بھر میں یہ ماحول بنایا گیا کہ رجب طیب اردگان کے د ن لد گئے ہیں مگرایک سال بعد 10 اگست 2014ایردوان نے براہ راست انتخاب کے ذریعے ترکی کا پہلا صدراتی انتخاب جیت کر اس غبارے کی ہوا نکال دی۔اس کے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخاب میں 7 جون 2015کواے کے پی نے پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو دی لیکن جب نومبر میں دوبارہ انتخابات ہوئے تو پارٹی نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ پا لی۔16 اپریل، 2017 کو ایک اور ریفرنڈم کرایا گیا جس میں ترک رائے دہندگان نے ملک کی پارلیمانی جمہوریت کو صدارتی نظام میں بدل دیا۔ پچھلا صدارتی انتخاب 24 جون 2018 کو منعقد ہوا تھا۔ اس میں اردگان نے 52.59 فیصد ووٹ حاصل کیے ۔حالیہ انتخاب سے قبل 6فروری 2023کو ایک طاقتور زلزلے نے ترکی کے کچھ حصوں کو تباہ کر دیا۔ شام سمیت ترکی میں 50,000 سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بن گئے ۔ اردگان حکومت پراس قدرتی آفت نمٹنے پر تنقید کی گئی۔ یہی وجہ ہے غالباً کے اس بار اردگان کوکامیابی کے لیے دوسرے مرحلے کا انتظار کرنا پڑا۔
یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہے کہ اس بار انتخابی نتائج کا اعلان 29 مئی کوہوا۔ 1453میں اسی دن سات سو سال کی جدوجہد کے بعدمسلمانوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا۔اس واقعہ نے دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم کرکے نئے دور کی ابتدا کی تھی۔ 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والا رومن سامراج 1480 برس کے بعد اپنے انجام کو پہنچا تھا اور عثمانی سلطنت نے اگلی چار صدیوں تک ایشیا، یورپ اور افریقہ میں اپنی شجاعت کے جھنڈے گاڑے ۔29 مئی 1453 کو ارسطو، افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے قرونِ وسطیٰ کا اختتام اور جدید دور کا آغاز مانا جاتا ہے ۔ یہیں سے یورپ میں نشاة الثانیہ کی داغ بیل پڑی جوہنوز یورپ اور دنیا کے مختلف ممالک میں غالب ہے ۔ اس کے باوجود سقوطِ قسطنطنیہ یوروپ کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا اور وہ اسے بھولنے سے قاصر ہے ۔ صدیوں پرانایہ صدمہ ہنوز یورپی یونین میں ترکیہ کی شمولیت پر سوالیہ نشان لگادیتا ہے ۔یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے کیونکہ 29 مئی 1453 کو یہی دن تھا۔اردگان کی کامیابی اور عالمی تذبذب پر روش صدیقی یہ شعر صادق آتا ہے
کہیں فسانہ غم ہے کہیں خوشی کی پکار
سنے گا آج یہاں کون زندگی کی پکار


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر