وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاک ایران تعلقات کا جائزہ

بدھ 24 مئی 2023 پاک ایران تعلقات کا جائزہ

حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوست اور دشمن بدلے جا سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں ۔پاکستان اور ایرا ن بھی دونوں ایسے ہمسائے ہیں جن کے تعلقات کو مثالی نہیں کہہ سکتے ۔دونوں کو معاشی مسائل درپیش ہیں۔ مذہبی ہم آہنگی اور ثقافتی ورثے میں باہم منسلک ہونے کے باوجودباہمی تعلقات اختلافات سے پاک نہیں۔ حالانکہ پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک ایران ہے۔ بھلے دونوں مشکل وقت میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ قیام ِ پاکستان کے وقت ملک کا پہلا بجٹ شاہ ایران کی مالی مدد سے ہی پیش ہوسکالیکن اِس کے باوجود حکومتی اور عوامی سطح پر تعلقات کا جائزہ لیں تو قابلِ رشک صورتحال دکھائی نہیں دیتی ۔
ایران کا طویل عرصہ بھارت پر انحصار کرنااور نوے کی دہائی میں او آئی سی اجلاس سے غیر حاضرہوکر مسلہ کشمیر پر متفقہ قرارداد پاس نہ ہونے دینا بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔بھارت کی طرف جھکائو سے قریبی تعاون نہ بڑھ سکاخطے میں کبھی ایران بھی امریکہ کا قریبی اتحادی رہا لیکن شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی معزولی کے بعد ایران روس کا طرفدارہو گیا۔مگر پاکستان نے روس کی بجائے امریکہ اور سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنائے رکھے۔ دو حریف قوتوں پر انحصار بھی دوطرفہ تعاون میں کمی کا باعث رہا لیکن اب نہ صرف پاک روس تعلقات بہتر ہورہے ہیں بلکہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بھی بحال ہو چکے ہیں۔ اسی بنا پر توقع ہے کہ اب پاک ایران تعلقات بہتر ہوں گے اورقریبی تعاون بھی فروغ پائے گا۔
18مئی جمعرات کو وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے سو میگاواٹ گبد۔پولان بجلی ٹرانسمشن لائن کے ساتھ ایک سرحدی مارکیٹ کا افتتاح کیا ۔یہ منصوبے کوئی بڑی لاگت کے نہیں۔ البتہ اِتنا کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک نے چاہے تاخیر سے سہی قریبی تعاون بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کا آغازکردیا ہے۔ اگر تعاون کی رفتار بہتررہی تو ایسی کوششیں خطے کی ترقی اور خوشحالی میں سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہیں جس سے تجارت کو فروغ ہو گا اور دونوں ممالک کے معاشی مسائل میں کمی آئے گی اور دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ ایسے منصوبوں سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔ اگر دونوں ممالک آزاد تجارتی معاہدے کو جلد حتمی شکل دیں تو بھوک و افلاس اورمہنگائی جیسے مسائل میں کمی ممکن ہے نہ صرف مہنگائی میں کمی آئے گے بلکہ عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہو گا۔اِس میں شائبہ نہیں کہ دونوں ممالک میں تجارتی حجم ا ستعداد کے مطابق نہیں کم ہے اگر تجارتی حجم استعدادکے مطابق بنانا ہے تو دونوں ممالک کو حائل رکاوٹیں ختم کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
پاکستان اور ایران میںزراعت، تجارت ،سرمایہ کاری اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع ہیںخوش آئند امریہ ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعاون کے خواہشمند ہیں لیکن یہ خواہش عملی طورپراشیا و خدمات کے حوالے سے خوش کُن نہیں اسی لیے بلند بانگ دعوئوں اور ارادوں کے باوجود تعاون کی رفتار سُست ہے نو سوکلو میٹر طویل سرحد پرپچھتربرسوں میں دونوں ممالک کا پہلی مارکیٹ قائم کر نا اور گوادر کو بجلی فراہم کرنے کے لیے محض سو میگاواٹ کی لائن کا افتتاح ثابت کرتا ہے کہ الفت پر مبنی باتوں کی زمینی حقائق تائید نہیں کرتے۔ اسی لیے وعدوں اور معاہدوں کے مطابق تعاون نہیں اصل میں جب تعاون کی طرف قدم بڑھایاجاتا ہے تو کوئی نہ کوئی ایسی انہونی ہوجاتی ہے جس سے تعاون میں اضافہ کی بجائے ایک قسم کی تلخی پیدا ہو جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر ماضی میں ایرانی صدر پاکستان کے دورہ پر آئے تومحض دودن قبل بھارتی نیوی کمانڈر کلبھوشن یادیوایک ایسا ہندوستانی جاسوس گرفتار ہوا جس نے دہشت گرد کارروائیوں کا اعتراف کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ ایرانی راستے سے پاکستان آتاجاتا اور دہشت گردگروہوں سے رابطہ رکھتاہے۔ اب بھی صدر رئیسی نے پاکستانی وزیرِ اعظم کے ہمراہ سرحد پر مارکیٹ اور بجلی ٹرانسمشن لائن کاافتتاح کیا تو اگلے ہی دن ایرانی سرحدی پرخونریز جھڑپ ہوگئی۔ ایسی جھڑپوں میں پاک ایران سرحدی محافظ اکثر نشانہ بنتے رہتے ہیں جس سے اِس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ دونوں ممالک کے بہتر ہوتے تعلقات سے کچھ طاقتیں خوش نہیں۔ اسی لیے سرحدی محافظوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بہتر ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف سازشوں سے محتاط رہیں بلکہ التوامیں پڑے معاہدوں پر پیش رفت کریں ۔
پیپلز پارٹی نے اپنے گزشتہ دورمیں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے جو پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ کیا تھا ایران اپنے حصے کا کام مکمل کر چکا لیکن پاکستان ابھی تک ایسانہیں کر سکا ۔حالانکہ ایسا کرنے سے توانائی کے مسائل کم ہو سکتے ہیں نیز دونوں ملک کوشش کریں کہ ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں تجارت ہو تاکہ زرِ مبادلہ پر دبائو میں کمی آئے۔ سرحدی جرائم بھی خوشگوار تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ باوجود کوشش کہ پرُتشدد واقعات کا سلسلہ تھم نہیں سکا ۔اتوار 21 مئی کو ایران کے شورش زدہ صوبے سیستان اور پاکستانی سرحد کے قریب واقع شہر سراوان میں ہونے والی جھڑپ میں چھ ایرانی گارڈ جا ں بحق ہوئے جس پر ایران نے پاکستان سے دہشت گردگروپوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ۔ایسا ہی مطالبہ ایک سے زائد بار پاکستان بھی کر چکا ہے ایسے واقعات کا تقاضا ہے کہ دونوں ملک مشترکہ سرحد کی سیکورٹی بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کریں۔ اگر امن لانا اورتشددختم کرنا ہے تودونوں ملکوں کو بارڈرمیکانزم پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔
پاکستان کو بجلی اور گیس کی کمی کا سامنا ہے اور یہ قلت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے ایران کی طرف سے بجلی کی فراخدلانہ پیشکش سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے اِس کے عوض ایران کو زرعی اور صنعتی پیداوار برآمد کی جا سکتی ہے پاکستان سے ایران آم ، کینو، چاول ، سیمنٹ اور کپڑا وغیرہ درآمد کرتا ہے جس میں مزید بہتری کی کافی گنجائش ہے۔ اگر دونوں ممالک بلا تعطل تجارتی وفودکا تبادلہ کرتے رہیں اور خطے کی صورتحال کو معاہدوں کی تکمیل میں آڑے نہ آنے دیں تو باہمی تجارت میں اضافہ ممکن ہے۔ تعاون کے وسیع ترامکانات کے باوجوددو طرفہ تجارت بہت کم ہے۔ دونوں ممالک میں سات برس قبل 2016 میں ایک معاہدہ طے پایا کہ 2021تک باہمی تجارت کا حجم تیس کروڑ ڈالر سے بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا لیکن یہ منزل بھی آج تک حاصل نہیں کی جا سکی۔ اب پاکستانی وزیرِ اعظم نے ایرانی صدر کو موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے قبل دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے جو بخوشی قبول کر لی گئی ہے مگر یہ دورہ تبھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جب التوا میں پڑے منصوبوں پر کام شروع اور معاہدوں کے مطابق تعاون کی رفتار بہتر ہو2022کے یو این او کی جنرل
اسمبلی کے 77اجلاس کے دران بھی دونوں رہنما ئوں نے ملاقات کے دوران یہ تسلیم کیا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان جتنا تعاون ہونا چاہیے ویسا نہیں بلکہ باہمی تجارت معمول سے بھی کم ہے۔ حالانکہ سرحدوں پر نقل و حرکت کے لیے بنائے مقامات پر مشترکہ مارکیٹیں بنانے سے نہ صرف غیر قانونی نقل و حمل ختم کی جا سکتی ہے بلکہ اربوں کا ریونیو بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پاک ایران تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے صورتحال اچھی دکھائی نہیں دیتی۔ سرحد پر پہلی مارکیٹ کا افتتاح دونوں ممالک کی قیادت کر چکی۔ مزید ایسی چھ بارڈر مارکیٹیں بنانے کا عزم بھی کیا گیا لیکن عملی طور پر کب ایسا ہو گا، وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سرحدی تجارت بہتر اور مربوط بنانے سے نہ صرف اسمگلنگ کی روک تھام ہو گی بلکہ سرحد کے آرپار رہنے والے لوگوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عزم بھی گیس پائپ لائن کی طرح تشنہ تکمیل رہتا ہے یا عملی طورپر بھی اِس طرف کچھ پیش رفت ہوتی ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر