وجود

... loading ...

وجود
وجود

خط غربت اور خطرے کی گھنٹی

پیر 03 اپریل 2023 خط غربت اور خطرے کی گھنٹی

روہیل اکبر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور مختلف ایپلیکیشنز گوگل پلے ا سٹور پر پڑی ہوئی ہیں جو انسانی زندگی میں بے پناہ معلومات کا باعث ہیں۔ اس وقت تقریبا 27لاکھ سے زائد ایپ موجود ہیں ہم اس ٹیکنالوجی میں دنیا سے بہت دور اور پیچھے ہیں ۔پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے پنجاب میں ایک ایسی ایپلی کیشن متعارف کروائی ہے جو بچھڑے ہوئے لوگوں کو اپنے پیاروں سے ملانے میںاہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ اس ایپلی کیشن کا نام بھی میرا پیارا رکھا گیا ہے۔ اس ایپ کے ذریعے گمشدہ بچوں، بزرگوں، مریضوں کو ورثا سے ملایا جائے گا۔ اس ایپ میں گمشدہ بچے اور افراد، ان کے لواحقین کا بائیو ڈیٹا، تصویر، فنگر پرنٹ، شناختی کارڈ اور ب فارم کی تفصیلات ہوں گی۔ گمشدہ بچوں، افراد اور ان کے لواحقین کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرائے جائیں گے اور پنجاب بھر کے تھانوں میں گمشدگی کی رپورٹس کا ڈیٹابھی تیار کیا جائے گا۔ یتیم خانوں، دارالامان اور دیگر اداروں میں مقیم بچوں اور افراد کا ڈیٹا بھی میرا پیارا ایپ پر موجود ہوگا۔ شہری اب اپنے موبائل فون، فرنٹ ڈیسک، تحفظ مرکز اورخدمت مرکز کے ذریعے گمشدگی کی رپورٹ میرا پیارا پر لوڈ کر سکیں گے اور اپنے پیاروں کو اسی ایپ کے ذریعے ڈھونڈ بھی سکیںگے۔ پنجاب حکومت کا پیاروں کا پیاروں سے ملانے کا یہ اقدام قابل تحسین ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت نے مزدروں کی خوشحالی کے لیے کم ازکم اجرت 7ہزار روپے اضافے سے 32ہزارروپے مقررکردی جو پہلے 25ہزار تھی اور یہ صرف پنجاب حکومت کا ہی کارنامہ ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ مہنگائی ،غربت اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ مفت آٹے کی تلاش میں بہت سے پیارے اپنے پیاروں سے بچھڑ چکے ہیں ۔
ملک میں مہنگائی کی شرح میں55 فیصد اضافہ ہو چکا ہے زرعی ملک ہونے کے باوجودپاکستان غذائی قلت کا شکار ہے۔ ملک میں تقریبا 220 ملین افراد رہتے ہیںپھر بھی تقریبا 40 فیصد آبادی خوراک کی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ مہنگائی و بے روزگاری عروج پر ہے اورمتوسط طبقے کی قوت خرید جواب دے چکی ہے ۔ ماہ صیام میں آٹا، چینی، سبزیاں، دالیں، گوشت، مچھلی، چاول، جان بچانے والی ادویات اور خوردنی اشیاء عوام کے دسترس سے دور ہو گئی ہیں۔ ملک بھر میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر فعال نظر آرہی ہیں ۔پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے غریب عوام اشیائے خورونوش مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہے اور انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ غریب عوام کو ذخیرہ اندوزوںاور خود ساختہ مہنگائی کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑرکھاہے۔ ذخیرہ اندوز اور خود ساختہ و مصنوعی مہنگائی کرنے والے سرکاری نرخ نامہ محض ایک کاغذی ٹکڑا سمجھ کر پھینک دیتے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے سستے اور مفت آٹے کا اعلان بھی ایک مذاق بن چکا ہے۔ غریب عوام سستے اورمفت آٹے کے حصول میںاپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ حکومت مفت آٹے کے نام پر بزرگوں،بچوں اور خواتین کو ذلیل و رسوا کررہی ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرے۔ حکمرانوں نے غریب عوام بالخصوص محنت کش طبقے کو ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ ہوشربا مہنگائی نے سرکاری ملازمین کی بھی کمر توڑ رکھی ہے۔ تنخواہیں اور مراعات محدود اور مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ان کے لیے گھریلو اخراجات پورے کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ حالیہ مہنگائی کے تناسب سے اتنی قلیل تنخواہوں میں گزارہ مشکل ہو چکا ہے، گھریلو اخراجات پورے نہیں ہو رہے ہیںاور ہمارے حکمران گزشتہ 75 سالوں سے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔ہماری اشرافیہ سالانہ اربوں روپے کھا جاتی ہیں۔ مجال ہے ہمارا ملکی نظام کسی پر لوٹ مار کا ایک روپیہ ثابت بھی کرسکاہو۔ ملک کا بچہ بچہ آج آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا مقروض ہے اور ہمارے دیانت دار اور ایماندارحکمران ارب پتی بنتے چلے جارہے ہیں۔ بدقسمتی سے حکمران طبقہ اپنا بچائو،مقدمات ختم کرنے اورلوٹ مار چھپانے کیلئے قانون سازی کر رہاہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ عوام کی پریشانی مشکلات ،مہنگائی ،بھاری سودی قرضے وملک ڈوبنے سے انہیں کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی مظلوم وپریشان حال عوام کا کوئی پرسان حال ہے۔ ہر طرف ناانصافی ،ظلم وجبر ،لوٹ مار ،بھتہ خوری کا راج ہے۔ اوپر سے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے حکمران 22کروڑ عوام کی زندگی اجیرن بنا رہے ہیں ۔بجلی پر 3.23روپے فی یونٹ فکس سرچارج کے اضافے سے صارفین پر 335ارب روپے کااضافی بوجھ پڑے گا۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں کسانوں اور برآمدی شعبوں کے لئے سبسڈی ختم کرنے سے جہاں ایک طرف غریب کاشتکار وں کی کمر ٹوٹ جائے گی وہاں دوسری جانب انڈسٹریز بھی تباہ ہو جائے گی۔ اس وقت عوام کے آمدن کے ذرائع مخدوش اور اخراجات کا گراف آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ پی ڈی ایم کی ناکام حکومتی پالیسیوں کی بدولت غربت کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 116ممالک کی فہرست میں 92ویں نمبر پرپہنچ چکا ہے۔ ملک میں شرح غربت 47فیصد ہو چکی ہے چند ماہ قبل آنے والے سیلاب سے پاکستان کے 90 لاکھ افراد خط غربت سے نیچے گر چکے ہیں جوخطرے کی گھنٹی ہے۔ اس سے پہلے یہ تعداد 58لاکھ افراد پرمشتمل تھی ،اس وقت 3.4 ملین سے زائد بچے بھوک کا شکار ہیں۔ گزشتہ سال کے سیلاب نے خوراک کے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے سیلاب نے آٹھ لاکھ ہیکٹر پر کھڑی فصلوں کا صفایا کر دیاتھا ۔متاثرہ لوگ اب بھی حکومت کی طرف کسی بامعنی مدد کے منتظر ہیں۔ ملک میں اس وقت نہ صرف غذائی قلت بڑھتی جارہی ہے بلکہ سیاسی معاشی اور غذائی بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے دوسری طرف بنگلہ دیش اپنے پڑوسیوں بھارت اور پاکستان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے گلوبل ہنگر انڈیکس میں 107 ممالک میں 13 درجے آگے بڑھ کر 75 ویں نمبر پر آگیا ہے اورہم حد سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بنیادی ضروریات کے عدم تحفظ کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار بنتے جارہے ہیں۔ مفت آٹا تقسیم کرنے والے مقامات پر بھگدڑ میں لوگ ہلاک اور زخمی ہو رہے ہیں۔ کراچی میںایک ہی دن 12افراد زندگی کی بازی ہار گئے، جس سے عوام میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔ اب بھی صورتحال کو بے قابو ہونے سے قبل کنٹرول کرلیا جائے تو بہتر ہے ورنہ ملک تو ہرطرف سے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے ۔ زرمبادلہ کے ذخائر ناکافی ہیںاور کرنسی کی قدرمیںبھی کمی ہو رہی ہے جس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر