وجود

... loading ...

وجود

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

منگل 28 فروری 2023 آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

ماجرا/محمد طاہر
______
شاعر یوں بھی خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے ہیں۔ جاوید اختر زیادہ بھٹک گئے، کچھ بہک بھی گئے۔ ایک نحوست بھری زندگی سے کنارہ کش ہونا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں، یہاں تک کہ اس کا ادراک بھی نہیں، مگر یہ شاعر ہوتے ہیں جو تتلی کے رنگوں ، بلبل کے نغموں اور سنگیت کے تاروں میں یہ ممکن کر دکھاتے ہیں۔ مکروفریب اور نفاق وفساد سے لبریز معاشرے کے اندر رہتے ہوئے اِسے خیرباد کہہ سکتے ہیں۔ افسوس! ہمیں تو ایسے شاعر بھی دستیاب نہیں ہوسکے۔ الفاظ سے عروسِ فطرت کی رعنائیوں کو کاڑھتے ہیں مگر کوئی لعنت وغلاظت ایسی نہیں جو وہ اپنی زندگی میں نہ رکھتے ہوں۔ اب بھارتی نغمہ نگار جاوید اختر کے متعلق کیا بات کی جائے؟ ایسے مرفوع القلم پر لکھنا گاہے خود کو خود سے قابلِ ملامت بنا دیتا ہے۔ مگر جاوید اختر کا معاملہ ہمارے معاشرے کے اندر جنمتے ایک ردِ عمل کی نشاندہی کرتا ہے جو شرمناک سناٹے اور پراسرار سکوت کی سنگین تہہ داریوں سے متعلق ہے ۔یہ معاملہ جاوید اختر کا نہیں اُن مقتدر حلقوں کے گریبانوں کا ہے، جس میں جھانکنے کا وقت آگیا۔
بھارتی نغمہ نگار فیض فیسٹیول میں نفرت کے منطقے میں رضاکارانہ شریک ہوتے ہوئے گویا ہوئے کہ ہم ممبئی کے لوگ ہیں ہم نے دیکھا ہمارے شہر پر کیسے حملہ ہوا ، وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے ، نہ مصر سے آئے تھے ۔ وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں”۔ یہ قیاس بھی کیا جا سکتا تھا کہ بھارتی نغمہ نگار کے کُنج لب سے یہ الفاظ کسی انجانے اُبال میں بے اختیار پھوٹ بہے ہوں، مگر ایسا نہیں۔ لاہور کے فیض فیسٹیول میں جاوید اختر نے سوال وجواب کا سیشن خود طلب کیا تھا، جو منتظمین کے نظام الاوقات کا حصہ نہیں تھا۔ جاوید اختر نے اُسی سیشن میں وہ بات کی جس سے اندازا ہوا کہ نفرت اور تعصب میں آدمی کہاں تک گر سکتا ہے، پھر وہ بھی شاعر، جس کی پستی حدوں سے گزر جائے!اغلب گمان یہی تھا کہ بھارتی نغمہ نگار نے طے شدہ پروگرام سے ہٹ کرجو سیشن طلب کیا تھا، اس میںیہ متنازع الفاظ پہلے سے طے کر رکھے ہوں گے۔ درحقیقت جاوید اختر نے بھارت جاکر حُسنِ ظن کی کوئی گنجائش بھی نہیں چھوڑی۔ جاوید اختر نے اپنے الفاظ کو درست سمجھتے ہوئے بھارت میں یہ موقف دُہرایا اور کہا : لاہور میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف بات کرنے پر انہیں کسی طرح کا خوف نہیں ہوا، کیوں کہ انہوں نے کوئی غلط بات نہیں کہی تھی”۔
بھارتی نغمہ نگار کے یہ متعصبانہ الفاظ بھارت کی فلم نگری کے اُن برائے نام مسلم اداکاروں کے مخصوص رویوں سے میل کھاتے ہیںجو انتہاپسند ہندؤں کو خوش رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً اختیا ر کیے جاتے ہیں۔ بھارت ایک ہندو راج میں مکمل تبدیل ہو چکا ہے۔ جہاں مودی سرکار نے اقلیتوں کے لیے زندگی کا واحد مطلب یہ چھوڑا ہے کہ وہ کسی قانونی تحفظ اور حقوق ِ شہریت پر اِصرار کیے بغیر ہندؤں کے رحم وکرم پر رہیں۔جاوید اختر ایک طفیلی زندگی گزارنے پر راضی ہیں جس میں ہندوؤں کو خوش کرنا ایک لازمی ضرور ت ہے۔چنانچہ جاوید اختر کے الفاظ پر ہندو انتہاپسندوں کا ردِ عمل قابل فہم ہے۔ یہی نہیں بھارتی نغمہ نگار کے انداز و تیور سے لگتا ہے کہ وہ یہ الفاظ ادا کرنے سے پہلے اس ردِ عمل کا پیشگی اندازا رکھتے ہوں گے۔انتہا پسند ہندؤں نے کہا کہ ”جاوید اختر نے گھر میں گھس کر مارا”۔اکثر انتہا پسندوں کے ردِ عمل میں اِسے پاکستان میں بیٹھ کرپاکستان پر” سرجیکل اسٹرائیک”قرار دیا گیا۔ یہ سب کچھ قابل فہم تھا۔ اصل سوال فیض فیسٹیول کی انتظامیہ اور وہاں موجود حاضرین وسامعین سے متعلق ہے۔ کیا لاہور میں الحمرا آرٹس کونسل کے اندر جاری تقریب میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا، جو آداب میزبانی کا لحاظ رکھتے ہوئے جاوید اختر سے یہ سوال کرتا کہ کیا کلبھوشن پاکستان میں ناروے سے آیا تھا؟بھارتی نغمہ نگار جاوید اختر تو فیض فیسٹیول کے انتظامیہ کی طرف سے مدعو کیے گئے تھے، مگر ابھینندن کو تو محترمہ منیزہ ہاشمی نے مدعو نہیں کیا تھا؟ وہ یہاں کیوں آیا؟ کیا اس مجمع میں ایک بھی باضمیر پاکستانی نہیں تھا جو یہ سوال کرتا کہ اس فیض فیسٹول کی تاریخوں (17تا 19فروری) کے درمیان میں ایک تاریخ 18 فروری بھی آتی ہے، اور اسی تاریخ کو بھارتی انتہا پسند ہندوؤں نے سمجھوتا ایکسپریس میںبیٹھے پاکستانیوں کو ریاستی سرپرستی میں نشانا بنایا جس میں 43پاکستانی شہید ہو گئے تھے۔ جاوید اختر جب فیض فیسٹیول منا رہے تھے تو اسی کے درمیان ان 43شہیدوں کے خاندان اپنے پیاروں کی سولہویں برسی منارہے تھے۔ جاوید اختر تب پاکستان میں تھے، جب بھارت سے یہ خبر آئی کہ سمجھوتا ایکسپریس کو نشانا بنانے والے انتہا پسند ہندوؤں کو بھارت کے نظام انصاف نے رہا کردیا۔ کیا جاوید اختر نہیں جانتے کہ بھارت کا پورا قانونی وعدالتی نظام مسلمانوں کے خلاف ہندو ؤں کاسرپرست بنا ہوا ہے؟ افسوس لاہور میں جاوید اختر سے یہ سوالات نہیں پوچھے جاسکے! اس سے بھی زیادہ افسوس اس امر کا ہے کہ جب جاوید اختر خلاف واقعہ یہ باتیں کررہے تھے تو الحمرا آرٹس کونسل میں موجود مجمع تالیاں بجا رہا تھا۔ کیا پاکستانیوںکا قومی شعور اس درجہ پست ہو چکا ہے؟یہ سوال ارباب بست وکشاد کی توجہ چاہتا ہے!پاکستان میںایسے حلقے موجود ہیں جو تجارتی قافلوں اور ثقافتی طائفوں کے تبادلوں سے دونوں ملکوں میں امن کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان حلقوں کی” تسلی” جاوید اختر کے ہونٹوں پر کِھلتے تکلم سے ہونی چاہئے جو پاکستان اور بھارت کی جنگ کو ثقافتی سطح پر بھی اُتار لائے ہیں۔
درحقیقت جاوید اختر کے الفاظ سے کہیں زیادہ دل دہلا دینے والا مسئلہ پاکستان کے اندر اس پر ردِ عمل کی سطح سے ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا نظریاتی حلقہ اور سنجیدہ طبقہ اس حوالے سے خاموش رہا۔ جاوید اختر کے خلاف ردِ عمل کچھ پاکستانی اداکاروں اور اداکاراؤں کی سطح سے اُبھرا ۔ جن میں سے اکثر کے ٹوئٹر ہینڈلز کو ”کوئی اور” حرکت دیتا ہے۔ اس طرح یہ ردِ عمل بھی کچھ زیادہ معنی خیز اور فطری نہیں رہ جاتا۔ پاکستان کے اندر نظریاتی گرمجوشی اور ردِ عمل کی دلسوزی و رعنائی تیزی سے ختم کیوں ہو رہی ہے؟ یہ جاوید اختر کی ہرزہ سرائی سے کہیں زیادہ پریشان کن سوال ہے۔ پاکستانیوں کی عظیم اکثریت کی یہ بیگانگی ہمارے پالیسی ساز حلقوں کی اُس روش سے پیدا ہوئی ہے جنہوں نے وقتی مفادات اور ارزل سیاست پر گرفت رکھنے کے لیے تمام نظریاتی مورچے پسپا ہونے دیے۔ نظریاتی سرحدوں کے فہم کو اپنی بدلتی ضرورتوں کی بھینٹ چڑھنے دیا۔ بااثر قوتوں اور مقتدر حلقوں نے اپنے نظریاتی دھاروںاورفکری سرچشموں کو بار بار بدلا۔نظر پھیری، نظریے چھوڑے، سر اور سرچشمے تبدیل کیے، یہ سب کچھ اتنی بار ہوا کہ پاکستان کے لیے حساسیت عوامی سطح پر بھی ختم ہونے لگی۔ اس خطرے کو بھانپنے کے بجائے گندے سیاسی کھیلوں پر گرفت رکھنے کا مذموم کاروبار ابھی تک ختم نہیں ہورہا۔ یہی سبب ہے کہ ایک بھارتی نغمہ نگار پاکستان کے قلب لاہور میں بیٹھ کر ہمارے قومی فہم کا مذاق اڑاتا ہے اور حاضرین تالیاں بجاتے ہیں۔ وہیں کہیں پاکستان کہہ رہا تھا ، مگر کسی نے سنا نہیں کہ
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات وجود جمعه 29 ستمبر 2023
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات

نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت وجود جمعه 29 ستمبر 2023
نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت

کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار

سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر

وکیل اور وکالت وجود بدھ 27 ستمبر 2023
وکیل اور وکالت

اشتہار

تجزیے
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود هفته 23 ستمبر 2023
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

اشتہار

دین و تاریخ
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ وجود جمعه 29 ستمبر 2023
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش وجود هفته 23 ستمبر 2023
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش

جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی

سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر

فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال