وجود

... loading ...

وجود
وجود

مہنگائی کانیاطوفان

جمعه 17 فروری 2023 مہنگائی کانیاطوفان

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے رات کو گیدڑوں کی آوازیں سنی تو صبح وزیروں سے پو چھا کہ رات کو یہ گیدڑ بہت شور کررہے تھے۔کیا وجہ ہے؟۔اس وقت کے وزیر عقل مند ہوتے تھے۔انھوں نے کہا جناب کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہوگئی ہے اس لئے فریاد کررہے ہیں۔تو حاکم وقت نے آرڈر دیا کہ ان کیلئے کھانے پینے کے سامان کابندوبست کیا جائے۔وزیر صاحب نے کچھ مال گھر بھجوادیا اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیا۔اگلی رات کو پھر وہی آوازیں آئیں، تو صبح بادشاہ نے وزیر سے فرمایا کہ کل آپ نے سامان نہیں بھجوایا کیا،تو وزیر نے فوری جواب دیا کہ جی بادشاہ سلامت بھجوایا تو تھا۔اس پر بادشاہ نے فرمایا کہ پھر شور کیوں ؟۔تو وزیر نے کہا جناب سردی کی وجہ سے شور کررہے ہیں ،تو بادشاہ نے آرڈر جاری کیا کہ بستروں کا انتظام کیا جائے جس پر وزیر صاحب کی پھر موجیں لگ گئیں۔حسب عادت کچھ بستر گھر بھیج دیئے اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیے۔جب پھر رات آئی تو بدستورآوازیں آنا شروع ہوگئیں تو بادشاہ کو غصہ آیا اور اسی وقت وزیر کو طلب کیا کہ کیا بستروں کا انتظام نہیں کیا گیاتو وزیر نے کہا کہ جناب وہ سب کچھ ہوگیا ہے تو بادشاہ نے فرمایا کہ پھر یہ شور کیوں ؟تو وزیر نے اب بادشاہ کو تو مطمئن کرنا ہی تھا اور اوکے رپورٹ بھی دینی تھی تو وہ باہر گیا کہ پتہ کرکے آتا ہوں ،جب واپس آئے تو مسکراہٹ لبوں پر سجائے آداب عرض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ شور نہیں کررہے بلکہ آپ کا شکریہ ادا کررہے ہیں اور روزانہ کرتے رہیں گے،بادشاہ سلامت یہ سن کے بہت خوش ہوا اور وزیر کو انعام سے بھی نوازا۔اب یہی حال ہمارے ملک کا بھی ہے ،ملازمین و عوام مہنگائی سے پریشان ہیں ،مگر یہاں رپورٹ سب اوکے دی جارہی ہے اور بادشاہ سلامت خوش ہیں۔
گذشتہ سال اخبار میں افسوس ناک خبرپڑھی کہ لاہور کے علاقہ کاہنہ میں 12 سالہ بچے نے خود کشی کرلی بتایا گیاہے غربت نے 12 سالہ بچے ثقلین نے نئی پینٹ کی خواہش پوری نہ ہونے پر موت کو گلے لگا لیا، لخت جگر کی موت پر والدین غم سے نڈھال ہو گئے۔،بچے کے والد کا کہنا ہے کہ میرے چھ بچے ہیں اور ثقلین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا جس کی عمر 12 سال تھی، میں بہت غریب آدمی ہوں،ثقلین نے مجھ سے نئی پینٹ کی خواہش کی تھی، میرے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے ، نئی پینٹ کی خواہش کہاں سے پوری کرتا ؟ جس پر دلبرداشتہ ہو کر 12 سالہ ثقلین نے گلے میں پھندا ڈال کر موت کو گلے لگا لیا۔ ماں بچے کی تڑپ دیکھ کر ادھار پر پینٹ لائی لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایسے خودکشی کے واقعات تو پورے ملک میں افراط سے ہورہے ہیں ہرروز ایسی خبریں سننے ،پڑھنے اور دیکھنے کوملتی ہیں لیکن عام آدمی بے بس ،مجبور ہے کچھ نہیں کرسکتا عمران خان جب وزیر ِ اعظم تھے انہوں نے کہاتھاکہ سب کورلائوں گا، موجود ہ حکومت نے تو کہے بغیر ہی عوام کو رلانا شروع کررکھا ہے خان صاحب تو اپنے سیاسی مخالفین سے مخاطب تھے؟ لیکن پاکستانی عوام PDM کی حکومت نے واقعی سب کو رلادیا اب نہ جانے کتنے لوگ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے کتنے جتن کرتے پھرتے ہیں 13جماعتوںکی سرکار نے جتنا عوام کو رلایاہے گھر گھر اس کی کہانیاں ہیں کیونکہ ہمارے حکمرانوں کے پاس زمینی حقائق دیکھنے یاعوام کی مشکلات پرتوجہ دینے کے لیے وقت ہی نہیں اوریہ بھی نہیں سوچاان کے لہ دورحکومت میں مہنگائی کی ستائی عوام پرکیاگذررہی ہے اس کے برعکس ان کے وزیرباتدبیرسب اوکے کی رپورٹ دے رہے ہیں کہ اب عوام خوشحال ہوگئی ہے پہلے PTIوالے روزانہ عمران خان زندہ بادکے نعرے لگا تے تھے اب تیرہ جماعتیں کورس کے انداز میں نعرے لگاتی پھرتی ہیں اور ان کے حامی اپنے مخالفین کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے سرگرِ م عمل ہیں گویا سیاسی مخالفین نہ ہوئے دشمن کی فوج ہوگئی کیونکہ ان کی نظرمیں اب ان کے مسائل رہ ہی نہیں گئے یہ توصرف اپوزیشن کی کارستانی ہے جومسائل کاشورمچارہی ہے آج حکومت نے پاکستان کے حالات اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ لوگ بھوک بدحالی سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اس کاذمہ دارکون ہے ؟ کیاحاکم وقت سے اس ناحق موت کاحساب نہیں لیا جائے گا؟
ناجانے کیوں ہم من حیث القوم آخری ہدوں کوچھورہے ہیں،امریکہ میں جارج فلائیڈ کی موت نے ساری امریکن قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور پورا امریکہ نسل پرستی کے خلاف متحد ہوکے کھڑا ہوگیا اور حکومت کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا،لاطینی امریکا کے ملک چلی میں ایک ا سٹریٹ سنگرکی ایک پولیس والے کے ہاتھوں ہلاکت پرپورے چلی میں عوام سڑکوں پر آگئے،ہمارے ملک میں کتنے بیگناہوں کوپولیس نے قتل کردیاگیا ساہیوال کا واقعہ کو زیادہ وقت نہیں گذرا ،سانحہ ماڈل ٹائون میں نہتے لوگوںکو گولیاں مارنے والوں کی ویڈیو سب کے سامنے ہیں ان کو شناخت بھی کیا جاسکتاہے ،بلوچستان کے ایک سابق وزیر نے ڈیوٹی پرمامور ٹریفک پولیس کے ایک جوان کو دن دیہاڑے کچل کر مار ڈالا ا کچھ عرصہ پہلے کشمالہ طارق کے بیٹے نے چارنوجوانوں کو کچل ڈالا ،ہم یہ نہیں کہیں گے کہ گاڑی ڈرائیوکون کررہاتھا؟ مگر ہمارے حکمران شاید کسی بہت ہی بڑے سانحے کے انتظار میں ہیں ،حکمرانوں کویہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے جب عوام اپنے حقوق اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف کندھے سے کندھا ملا کر فسطائیت اور رجعت پسند حاکمیت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی توپھرانہیں روکنے والاکوئی نہیں ہوگااورخان صاحب کوسب اوکے کی رپورٹ دینے والے بھی کہیں نظرنہیں آئیں گے۔ ایک یار خان صاحب نے فرمایا تھا کہ جب ڈالر مہنگاہوتاہے تو سمجھ لو کہ آپ کا وزیراعظم چور ہے ان کے دور میں بھی ڈالر مہنگا ہوتا گیا، آج تو ڈالر نے مہنگا ہونے کی تمام حدیں ہی کراس کرلی ہیں لیکن پھر بھی نہ پہلا وزیراعظم چور تھانہ موجودہ وزیر ِ اعظم ڈاکو ، چور بلکہ عوام ہی چور ڈاکو اور لٹیرے ہیں جو ہمیشہ زندو باد اور آوے ای آوے کے نعرے لگاتے رہتے ہیں اسی لیے پٹرول تقریبا300روپے لٹر جاپہنچاہے یہی حال چکن کے گوشت کا ہے جو تاریخ کے سب سے بڑے مقام پر ہے مگر حکومت میں شامل سب سیاست دنوں نے اپنے کیس معاف کروا کر پوتر ہو چکے ہیں آج وزیراعظم کو سلام ہے کہ جن کی حکومت مہنگائی ختم کرے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کررہی انہوںنے تو یہ بھی نوٹس نہیں لیا کہ سستا آٹا خریدنے کی کوشش میں کتنے ہی شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لوگوںکا یہ بھی کہناہے کہ جناب جوآٹا ٹرکوں اور ٹرالیوں میں لوڈکرکے عوام کو ساراسارادن لائن میں لگواکردیاجارہاہے اتناناقص کوالٹی کاہے جسے جانوربھی نہ کھائیں،پاکستان میں پہلی بارایماندارحکومت آئی ہے جس کے تمام معاملات کی رپورٹس اوکے ہیں ہر دور حکومت میں بجلی، گیس سمیت اشیا ضروریہ کی قیمتیں بار باربڑھائی جاتی رہی ہیں حکمران جب نوٹس پر نوٹس لیکر قیمتوں میں مزید اضافے کا سبب بنتے جارہے ۔
ہیں حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں 170 ارب کا منی بجٹ کی وجہ سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سیلز ٹیکس کی شرح ایک فیصد بڑھنے سے 50 ارب سے زائد کا اضافی بوجھ عوام پر آ سکتا ہے پرتعیش اشیاء پر ڈیوٹی کی شرح 25 فیصد تک پہنچانے کی حکومتی تیاری مکمل ہو گئی ہے شورہے کہ منی بجٹ سے حکومت کو 200 ارب روپے آمدن ہوگی جبکہ سینکڑوں پرتعیش اشیاء پر 25 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی بھی منظوری دے دی ہے، پرتعیش اشیاء پر 25 فیصد جی ایس ٹی کا اطلاق ضمنی فنانس بل میں کیا جارہاہے سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کا فوری نفاذ کر دیا گیا ادویات کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں اب غریب عوام دوائی نہ خریدسکنے کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں مگرہمارے حکمرانوں کوسب اوکے نظرآرہاہے اورمسلسل کہے جارہے کہ گھبرانانہیں حکمران اپنے وعدے کے کتنے پکے نکلے کہ دیہاڑی دار مزدور سے لیکر سرکاری ملازم، بیوروکریسی سے لیکر تاجر صنعتکار ہر امیر غریب سارے ملک ساری قوم کوہی صرف اپنے10-9 ماہ کے اقتدارمیں خون کے آنسو رلادیا ہے اور عمران خان سابقہ وزیر ِ اعظم بن کر روزانہ د ہانیاں دیتے پھرتے ہیں ہم نے تو پہلے بھی عرض کیا تھا کہ میاں شہباز شریف آپ وزیروں مشیروں کی فوج ظفرموج کے گھیرے باہر نکلئے اور زمینی حقیقتوں کاسامناکیجئے اورعوام کے مسائل کاادراک کیجئے ورنہ تاریخ کاحصہ بنتے دیرنہیں لگتی کیونکہ مہنگائی کا نیا طوفان سب کو بہاکر لے جاسکتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر