وجود

... loading ...

وجود
وجود

واشنگٹن اور بیجنگ کی ’’بیلون وار‘‘

جمعرات 16 فروری 2023 واشنگٹن اور بیجنگ کی ’’بیلون وار‘‘

 

ہمارے ہاں ہی بلکہ کرہ ارض پر بسنے والے اکثر لوگ اِس بات پر حیرت زدہ اور ششدر ہیں کہ عسکری اعتبار سے دنیا کے دو، سب سے طاقت ور ترین ممالک امریکا اور چین آج کل اپنی اپنی فضائی حدود میں اُڑنے والے رنگے برنگے غباروں کے بارے میں شدید پریشانی سے دوچار ہیں ۔ کیا فضا میں اُڑنے والا صرف ایک غبارہ ، عالمی سپر پاور امریکاکے لیے اِس قدر خطرناک ہوسکتاہے کہ وہ اُسے ’’ہائی سیکورٹی رِسک ‘‘قرار دے کراپنے جدید ترین جنگی طیاروں کو مہلک میزائیلوں سے لیس کر غبارہ کو تباہ برباد کرنے کے لیے بھیجے اور پھرغبارہ کی بروقت اور فوری تباہی کو اپنی بڑی عسکری کامیابی بھی قرار دے ؟۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ دو ، تین ہفتوں کے دوران امریکی فضائی حدود میں اُڑنے والے فقط تین غباروں نے وائٹ ہاؤس میں ایسا ماحول پیدا کردیا ہے ،گویا کسی دشمن ملک کی فوج نے واشنگٹن پر اچانک فضائی حملہ کردیاہے ۔ حالانکہ امریکی افواج اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ،تاحال اِس بات کی شناخت نہیں کرسکی ہیں کہ اُن کی فضائی حدود میں پرواز کرنے والی تینوں مشکوک چیزیں آخر حقیقت میں کیا تھیں ؟،کیسے ہوا میں معلق تھیں ؟،وہ کہاں سے اُڑتی ہوئی آرہی تھیں ؟، اور تباہی کا بعد اُن کا ملبہ کہاں غائب ہوگیا؟ ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کو اُن مشکوک اشیاء کے بارے میں یہ کہہ کر خاموش کروادیا گیا ہے کہ عین ممکن ہے کہ وہ ’’جاسوسی غبارے‘‘ یا پھر کسی دوسری دنیا میں موجود خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجی گئی ’’اُڑن طشتری ‘‘ یعنی یو ایف او ، ہوں۔
واضح رہے کہ امریکا فضائی حدود میں پہلا غبارہ پنٹاگون کے قریب گرا تھا ، جس کے بعد واشنگٹن نے محکمہ خارجہ کے سیکریٹری اینٹونی بلنکن کا دورہ چین منسوخ کر دیا تھا۔جبکہ رواں ماہ ،4 فروری کو امریکی فوج کے ایک لڑاکا طیارے نے جنوبی کیرولینا کے ساحل پر ایک دوسرے مشتبہ چینی جاسوس غبارے کو مار گرانے کا دعوی کیا تھااور بحرہ اوقیانوس میں مذکورہ غبارے کے گرنے والے ملبے کا سراغ لگانے کی ذمہ داری ایک امریکی بحری جہاز کو سونپی گئی ۔جو تادم تحریر، تباہ ہونے والے غبارے کا ملبہ ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہے۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے سفارتی معاملات کو لے کر یہ واقعہ کس قدر سنگین رنگ اختیار کرگیا تھا ،اس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ چین کے مبینہ’’ جاسوسی غبارہ‘‘ مارگرانے کے فوری بعد امریکی سیکریٹری دفاع نے اپنے چینی ہم منصب، وائی فینگے سے بات کرنا چاہی تھی مگر چینی وزیر دفاع نے اپنے ہم منصب کے ساتھ بات چیت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ دراصل بیجنگ کا موقف تھا کہ جب واشنگٹن نے بلاکسی تحقیق اور ثبوت کے اپنی فضائی حدود میں مارگرائے جانے والے غبارہ کا الزام چین کے سر تھوپ ہی دیا ہے توپھر دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی ایسی مخدوش صورت حال میں امریکی وزیردفاع سے گفتگو کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
جبکہ رواں ہفتے، تیسرا غبارہ نما ایک نامعلوم سی شئے امریکی فضائیہ کو امریکا اور کنیڈا کی فضائی حدود کے وسط میں دکھائی دی تھی ۔جسے امریکی صدر جوبائیڈن کے حکم پر امریکی فضائیہ کے جدید ترین ایف 16 طیارہ نے مقامی وقت کے مطابق دوپہر 2 بج کر 42 منٹ پر امریکا،کینیڈا کی سرحد پر واقع جھیل ہورون کے اوپر مار گرایا تھا۔ مذکورہ غبارہ کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس ترجمان کا کہنا تھا کہ’’ یہ غبارہ نما نامعلوم سی چیز جو ساخت میں آکٹونل (8 کونوں والی) دکھائی دیتی تھی اور جس میں تاریں بھی لٹکی ہوئی تھیں مگر ان سے بظاہر کچھ لٹکا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ غبارہ فضا میں 20 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا، جو امریکی فضائیہ کے لیے تو کسی قسم کے خطرے کا باعث تو نہیں بن سکتی تھی لیکن یہ کمرشل ائیر ٹریفک کے راستے میں مداخلت کر سکتی تھا۔ لہٰذا، اسے امریکی فضائیہ کی جانب سے فوری طور پر تباہ کردیا گیا‘‘۔
دوسری جانب چین نے بھی جواب آن غزل کی صورت میں امریکا پر الزام عائد کیا ہے امریکا نے جنوری 2022 سے لے کر اب تک چینی خلائی حدود میں کم ازکم 10 جاسوسی غبارے بھیجے ہیں۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق ’’دوسرے ممالک کی خلائی حدود میں غیرقانونی طور پر داخل ہونا امریکا کے لیے کبھی کوئی غیرمعمولی عمل نہیں رہا ہے‘‘۔وائٹ ہاؤس نے چین کے الزامات یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ چین کا کوئی بھی ایسا دعویٰ جھوٹا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت چینی فضائی حدود میں جاسوسی غبارے بھیج رہا ہے، تاہم وہ چین ہی تھا جس نے خفیہ انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے لیے اونچائی پر نگرانی کرنے والا ’’جاسوسی غبارہ‘‘ امریکی فضائی حدود میں بھیجا ‘‘۔
یہاں ایک عام سے آدمی کو جو بات سب سے زیادہ پریشانی اورفکرمندی میں مبتلا کررہی ہے وہ یہ ہے کہ جب امریکا اور چین کے پاس زمین کی پاتال سے لے کر خلا کی وسعت تک جاسوسی کرنے کے جدید ترین آلات موجود ہیں تو پھر آخر دونوں ممالک کو غباروں سے ایک دوسرے کی فضائی جاسوسی کرنے کی آخرکیا ضرورت ہے؟۔دراصل جدید جاسوسی آلات میں جہاں بے شمار خوبیاں ہیں ، وہیں اُن میں کئی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں ، جن میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ جدید جاسوسی آلات کو کسی دوسرے زیادہ بہتر جاسوسی آلہ کی مدد سے تلاش کرکے باآسانی ناکارہ بنایا جاسکتاہے۔ اس لیے امریکا اور اور چین ایک دوسرے کی جدید ٹیکنالوجی کو دھوکا دینے کے لیے فضائی جاسوسی کے صدیو ںپرانے قدیم طریقے اختیار کرنے پر مجبور ہیں ۔ یاد رہے کہ آج سے سو سال قبل تمام ممالک اپنے ملک کی جاسوسی کے لیے ’’جاسوسی غبارہ ‘‘ کا عام استعمال کرتے تھے اور جب ابھی غبارہ بھی ایجاد نہیںہوا تھا تو پتنگ کو حریف ریاست کی جاسوسی کے لیئے بروئے کار لایا جاتاہے ۔
جی ہاں ! دنیا میں پہلی پہلی بارپتنگ کی ایجاد محض تفریح طبع یا ’’بسنتی تہوار‘‘ منانے کے لیے نہیں بلکہ فوجی مقاصد اور دشمن کی جاسوسی کے لیے کی گئی تھی۔ جس کا قصہ کچھ یوں زبان زدِ عام ہے کہ سینکڑوں سال پہلے کوریا میں فوجی سپاہ نے عین دورانِ جنگ آسمان پر ایک تارا ٹوٹتے دیکھا اور اسے بُرا شگون سمجھتے ہوئے میدان جنگ سے فرار کا راستہ اختیار کر لیا ،سپہ سالار نے اپنی فوج کا وہم دور کرنے کے لیے اپنے سپاہیوں کو بہت سمجھایا بجھایا لیکن کوڑھ مغز وہمی سپاہی مان کر نہ دیئے ۔آخر سپہ سالار کے ذہنِ رسا نے ایک ترکیب سوچی ۔ اس نے ایک بڑی سی پتنگ تیار کی اور اس کی دُم سے ایک شعلہ باندھ کر رات کے اندھیرے میں اسے اُڑایا تو فوج کو یقین آگیا کہ آسمان سے جو تارا ،ٹوٹا تھا وہ واپس آسمان کی طرف لوٹ گیا ہے اور یوں شکست خوردہ کوریائی فوج ظفر موج دوبارہ سے جنگ لڑنے پر آمادہ ہوگئی ۔اس ایک واقعہ کے بعد پتنگ کو تو جیسے ایک جنگی ہتھیار سمجھ لیا گیا اور اسے فوجیں متواتر اپنے ’’جنگی استعمال‘‘ میں لینے لگیں، مثلاً دشمنوں کی جاسوسی کرنا ،اپنے ہی فوجیوں کو ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ تک پیغام رسانی کرنااور اپنے ساتھیوں کو اپنی پوزیشن بتانے کے لیئے پتنگ اُڑانا اور حد تو یہ ہے کہ جنگوں میں چھوٹے ہتھیار تک ایک جگہ سے دوسری جگہ پتنگ کے ذریعے ہی پہنچائے جاتے تھے ۔ چونکہ جدید دنیا جاسوسی کے آلات کی بے اعتباری سے تنگ آکر جاسوسی کے قدیم روایتی طریقوں کی جانب بڑی تیزی کے ساتھ راغب ہورہی ہے تو عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں بہت جلد آپ امریکا اور چین کی فضائی حدود میں ’’جاسوسی پتنگ‘‘ کے اُڑنے اور مارگرانے کی خبر بھی سنیں ۔ شاید دنیا ایٹمی جنگ کی ہولناکی سے گھبرا کر ’’بیلون وار ‘‘ اور ’’کائٹ وار ‘‘ کے قدیم دور میں واپس لوٹنا چاہتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر