وجود

... loading ...

وجود
وجود

امین جالندھری اور جمہوریت ہی راستہ ہے

منگل 14 فروری 2023 امین جالندھری اور جمہوریت ہی راستہ ہے

پشاور میں دھماکے سے پہلے پاکستانی عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم پھٹا تھا، پیٹرول کی قیمت میں
ایک ہی دن میں 35 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا ، اس سے پہلے کہ عوام اس پر احتجاج کرتے،
ملک میں شور مچتا، سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر خبروں کا طوفان آتا، پشاور میں جمعہ کی
نماز میں بم دھماکہ ہوگیا، پھر کسی کو یہ یاد بھی نہ رہا کہ ملک کی عوام پر مہنگائی کا بم پھٹنے
سے لاکھوں لوگ موت آنے سے پہلے مر گئے ہیں، ان کے جسموں کے چیتھڑ ے فضا میں اڑ رہے
ہیں، ان کے جسم کے خون کے قطرے ہر چیز پر جمے ہوئے ہیں، اور ان کی لاشیں نوچنے والے
گدھ،آئی ایم ایف کے ہرکاروں کی صورت میں ملک کے کروڑو عوام کا گلا دبانے اور ان کا گوشت
نوچنے کے لیے موجود ہیں۔برسوں سے ملک کی سیاست اور میڈیا منیجمنٹ کے منیجروں نے ایک
نئی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے، جب حکومت کی جانب عوام کا غم و غصہ اور غیض و غضب
بے قابو ہو تو اس کا رخ کسی اور طرف موڑ دو، کوئی ایسا بڑا سانحہ، حادثہ، واقعہ ہوجائے، جو
اس اصل معاملے سے عوام کی توجہ ہٹا دے۔ یہ سانحہ، حادثے، اور دھماکے کرنے والے کبھی
بلیک واٹر، کبھی داعش، کبھی طالبان، کبھی را کے ایجنٹ، کبھی تحریک طالبان، بن کر اس کی ذمہ
داری قبول کرلیتے ہیں، تفتیشی ادارے ان دھماکے کے ملزمان تک نہ صرف پہنچ جاتے ہیں، بلکہ
جائے وقوع سے ملزمان کی سم، اور جسمانی اعضا بھی برآمد کرکے ان کی ڈی این اے کراکے
سارے گینگ کو پکڑ لیتے ہیں، پھر یہ بھی کمال ہوتا ہے کہ کسی برس کی تحقیق، تفتیش، مقدمے،
عدالتی کاروائی کے بعد یہ ملزمان بری بھی ہوجاتے ہیں۔یہ کھیل صرف پاکستان ہی میں ہوسکتا ہے۔
اور ہم بار بار اسی کھیل کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اس پر کوئی توجہ بھی نہیں دیتے، ہمارے
میڈیا پر ہونے والے شو اس کا ذکر بھی نہیں کرتے، اینکرز کی زبانیں ، ان موضوعات پر خاموش
ہوجاتی ہیں۔
مجھے یہ سب ناصرالدین محمود کے منتخب کالموں کے مجموعہ جموریت ہی راستہ ‘‘ پڑھ کر یاد
آیا۔ اپنی تخلیق کے بعد سے پاکستان سیاسی سماجی اور معاشی نظام کو فطری ارتقاء کے اصولوں
کے مطابق آگے بڑھنے سے روکا گیا ہے۔ اس راہ میں بڑے بڑے انقلاب آئے، ملک کے دو
منتخب ورزائ￿ اعظم قتل کردیئے گئے، تین بار ملک میں مارشل لاء لگا۔ منتخب وزراء اعظم کو
اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے روکا گیا۔ جموریت کے جسم پر جو زخم بار بار لگا ئے گئے، جبر
کے جو راستہ مسلط کیے گئے، بے رحمی کے جو ضابطے تشکیل دیے گئے، اس سے اس قوم کی
جان نکل گئی ہے، یہ ایک بے روح لاشہ ہے، جو ہر جور وستم کی عادی ہوچکی ہے۔ ناصر الدین
محمود ایک سیاسی کارکن ہیں، جو جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، ان کے مضامین ملک کے
بڑے اخبارات میں شائع ہوئے، اور انھوں نے تسلسل سے ان معاملات پر لکھا ہے، ان کے مضامین
میں ایک گہرائی ہے، اور سرسری تبصرے سے گریز کرتے ہوئے تفصیل اور مسائل کی جڑ تک
پہنچنے کی کوشش کی ہے، وہ معاشی بحران، سیاسی معاملات، اندرونی اور بیرونی سازشوں،
امریکہ کی چالاکیاں ، عالمی اداروں کی بے وفائی اور لوٹ مار کے تمام واقعات کو ان کے سیاہ
سباق کے ساتھ سامنے لاتے ہیں۔ ناصر الدین محمود کی یہ کتاب مجھے فضلی سنز کے طارق
رحمن کے توسط سے ملی، اور ہمارے دوست عبدالستار شیخ نے جو سیاست کے میدان میں تبدیلی
کا خواب دیکھتے رہتے ہیں، اور اب بھی ایک نئے سیاسی جماعت بنا کر عام آدمی سے ایک
انقلاب کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔انھوں نے بھی اس کا تذکرہ کیا۔ پاکستان میں ایسے سیاسی کارکن کم
ہیں، جو ملک کے اہم مسائل پر غور وخوص کرتے ہیں، بلکہ ان پر قلم بھی اٹھاتے ہیں۔ اور سیاسی
وابستگی سے بالاتر ہوکر اپنی رایے کا اظہار کرتے ہیں۔یہ کتاب سیاسی کارکنوں کے لیے ایک
ریفرنس کا درجہ رکھتی ہے۔جس سے انھیں فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
حیدرآباد نے شعر و ادب کی دنیا میں ، قابل اجمیری ، حمایت علی شاعر، پروفیسر عنایت علی خان،
جیسے نابعے پیدا کیے۔شعر و ادب کی محفلیں اس شہر کی جان ہیں، یہ محفلیں گاہے بگاہے آج بھی
منعقد ہوتی ہیں، رابطہ کے پلیٹ فارم سے ہمارے دوست امین جالندھری یہ تقریبات منعقد کرتے
ہیں۔ امین جالندھری ایک اچھے افسانہ نگا ر ہیں، ان کے افسانوں میں تخیل کی ندرت شامل ہے۔ میں
انھیں پیار و محبت میں ;باباکہتا ہوں۔ بابا امین جالندھری ہمارے سٹی کالج کے بابا ہیں۔ ہم نیان
کی سیاست دیکھی ہے۔ کتنے ہیرے تراشے حمید فاروقی منور ، عبدالجبار، اور اجرک اوڑھے ہوئے
بابا۔ بابا جادوگر ہے۔ اپنی چادر کے بکل سے نئے نئے شعبدے نکال لاتا ہے۔ اور حیران کرجاتا ہے۔
گزشتہ ایک سال سے بابا میرا پیچھا کررہا ہے۔ بابا امین جالندھری کی ایک ادبی انجمن ہے۔ رابطہ
حیدرآباد میں اس کے پروگراموں کی دھوم ہے۔ شاعر ادیب کوئی بھی ہو رابطہ کے ربط میں رہتا ہے۔
ان کی دو کتابیں ،حرف حرف روشنی‘‘t; مضامین کا مجموعہ اور’’حرف حرف کہانی‘‘ حال ہی میں
منظر عام پر آئی ہیں۔ حرف حرف روشنی میں انھوں نے اپنے دوستوں ساتھیوں کو جس طرح یاد کیا
ہے، وہ دل پر اثر کرتا ہے، صابر ذوقی، مضطر ہاشمی،کے قصے،شہر کے ادبی معرکے، اس کتاب
میں رقم ہیں۔ ان کی کتاب ‘‘; حرف حرف کہانی‘‘ میں 30 افسانے ہیں، بہت ہی کمال کے افسانے، جن
کی شہرت اب بھارت تک پہنچ گئی ہے۔ میں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو ایک کے بعد ایک
کہانی حیرت کے باب کھولتی گئی۔ ’’;حرف حرف کہانی‘‘; کی پہلی کہانی نے ہی دماغ کی بتی گھمادی۔
یہ بابا تو واقعی بابا ہے۔ کچھ انوکھی نگری کا مسافر اسے بابوں سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔
اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی کے بابے اسرار و رموز کے گورگھ دھندے ایک انجانی دنیا
کے مسافر۔ امین جالندھری کے افسانے’’; موڑ کا سجاد،چک گ ب ‘‘کا نور الدین، یا خمار
کی ماروی یا مسافر کے فضل خان سب ہمارے معاشرے کے عام سے کردار ہیں۔ لیکن امین جالندھری
نے اپنے قلم سے انھیں ایک ایسے قالب میں ڈھال دیا۔ جو ہمیں ایک اور دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ اس
کائنات کا۔نظام چلانے والے نے کس کس کو کہاں کہاں ڈیوٹی سونپی ہوئی ہے۔ یہ کس کس بھیس میں
ہمیں نظر آتے ہیں۔ جانے نظر آتے بھی ہیں یا نہیں۔ابھی میں ان افسانوں کے سحر میں ڈوبا ہوا ہوں۔
حرف حرف کہانی کے افسانے ان تما م لوگوں کو دعوت مطالعہ دے رہے ہیں جو ادب میں جمود یا
نئے خیال نہ ہونے کاشکوہ کرتے ہیں،افسانوں کی ملک گیرپیمانے پرپذیرائی ہونی چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر