وجود

... loading ...

وجود
وجود

گورنر سندھ کی تبدیلی ؟

پیر 06 فروری 2023 گورنر سندھ کی تبدیلی ؟

 

جب سے ایم کیو ایم کے مختلف ناراض دھڑے ایک ہوئے ہیں، تب سے ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی فیصلہ سازی کی صلاحیت میں نمایاں بہتری اور تیزرفتاری دیکھنے میں آرہی ہے ۔قطع نظر اس کے کہ گزشتہ چند ہفتوںمیں جو بھی سیاسی فیصلے پارٹی قیادت کی طرف سے کیئے گئے ہیں، وہ سیاسی لحاظ سے درست تھے یا غلط ۔ بہرحال ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے بڑے فیصلے کیئے جارہے ہیں او رپے درپے کیئے جارہے ہیں۔باخبر ذرائع کے مطابق ایسا ہی ایک بڑا فیصلہ گورنر سندھ ،کی تبدیلی کے حوالے سے بھی ایم کیوایم پاکستان کی قیادت کے زیر غور ہے۔ بعض حلقوں کے نزدیک گورنر سندھ ،کامران ٹیسوری کی تبدیلی کا فیصلہ اِس لیئے بھی ایک بڑا غیر متوقع فیصلہ ہے کہ بظاہر کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ کے عہدہ سے ہٹانے کا کوئی جائز جواز یا وجہ موجود نہیں ہے ۔نیز اگر بادی النظر میں جائزہ لیا جائے تو کامران ٹیسوری نے ابھی تک گورنرشپ کی مختصر سی مدت میں سیاسی و انتظامی کارکردگی سے اپنے آپ کو پوری طرح سے گورنر سندھ کے عہدہ کا اہل ثابت کیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر آج ایم کیو ایم کے تمام ناراض دھڑے ایم کیو ایم پاکستان کے سیاسی پرچم تلے شیر و شکر ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں تو اِس میں بھی گورنر سندھ ،کامران ٹیسوری کی مخلصانہ کاوشوں کا بھرپور عمل دخل ہے۔
دوسری جانب کامران ٹیسوری ،ایم کیوا یم کی نامزد کردہ ،صوبہ سندھ کے شاید وہ واحد گورنر ہیں ،جن کے صرف سندھ حکومت کے ساتھ ہی مثالی تعلقات قائم نہیں ہیں ،بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی بھی اُن کے ساتھ ایک بہت اچھی اور کارآمد ،ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہے۔ یاد رہے کسی بھی صوبہ کے گورنر کے صوبائی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات کا ہونا ، جمہوری نظام ہائے حکومت میں خامی نہیں بلکہ ایک بہترین خوبی تصور کی جاتی ہے۔یعنی وزیراعلیٰ اور گورنر کے مابین ہر لمحہ سیاسی تناؤ اور محاذ آرائی کی صورت حال قائم رہنے سے صوبائی حکومت کی انتظامی کارکردگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔جس کا خمیازہ لامحالہ صوبے کی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ماضی قریب میں ہم وزیراعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس میں پنپنے والی ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشوں کے کئی منفی اثرات و عواقب بہت تفصیل کے ساتھ ملاحظہ کر چکے ہیں ۔اگر سندھ کی سیاست میں یہ طے کیا جاچکا ہے کہ وزیراعلیٰ اور گورنر ، بہر صورت دوالگ الگ سیاسی جماعتوں سے ہی ہوں گے تو مذکورہ دونوں عہدوں پر ایسی سیاسی شخصیات کا ہونا ایک دمِ غنیمت ہے ،جن کے درمیان بہت اچھی سیاسی و انتظامی ورکنگ ریلشن شپ پائی جاتی ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ وزیراعلی سندھ ،سید مراد علی شاہ اور گورنر سندھ ،کامران ٹیسوری جب مل جل کر کسی ترقیاتی منصوبہ کا افتتاح یا سنگِ بنیاد رکھتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے ۔جبکہ عوام میں یہ تاثر بھی جاتاہے صوبے کے حکمرانوں کی ساری توجہ سیاسی شعبدہ بازی کے بجائے حکومتی حسنِ انتظام کی جانب مبذول ہے۔
چلیں چند لمحات کے لیئے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ایم کیوایم پاکستان کی قیادت، ایم کیوایم رابطہ کمیٹی کی مشاورت و حمایت سے نیا گورنر سندھ لانے کا حتمی فیصلہ کرلیتی ہے اور موجودہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری بھی پارٹی پالیسی کا احترام کرتے ہوئے اِس فیصلہ کے آگے اپنا سرتسلیم خم کردیتے ہیں ۔اَب یہاں دو اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ اوّل، گورنرسندھ کی تبدیلی کا عمل وقوع پذیر کیسے ہوگا؟۔دوم، ایم کیوایم پاکستان کی طرف سے نیاگورنر سندھ کسے نامزد کیا جائے گا؟۔ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ گورنر سندھ لگانے کا اختیار وزیراعظم پاکستان ،شہباز شریف کا ہے اورہم بخوبی جانتے ہیں کہ وزیراعظم یہ فیصلہ سابق صدر پاکستان ، آصف علی زرداری کی مرضی ومنشا سے ہٹ کر بالکل بھی نہیں کریں گے۔ لہٰذا،یہاں سب سے پہلے تو ایم کیو ایم پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو آصف علی زرداری کو رام کرنا ہوگا ۔ ہماری دانست میں یہ ایک مشکل کام ہوگا ،کیونکہ آصف علی زرداری نے بہر حال سندھ حکومت کے مفاد کو سب سے مقدم رکھنا ہے ۔جہاں تک ایم کیوا یم کے ساتھ دستخط کردہ چارٹر آف رائٹس کی اِس شق کی بات ہے کہ گورنر سندھ ایم کیوایم پاکستان سے ہوگا تو وہ اپنا یہ عہدایک بار پورا کرچکے ہیں ۔ پیپلزپارٹی یا پی ڈی ایم کی قیادت سے بار بار گورنر سندھ لگانے یا ہٹانے کا مطالبہ کرنا یقینا ایم کیوایم پاکستان کا سیاسی حق توہے مگر اُس کے لیئے یہ مطالبہ تسلیم کروانے کے لیئے غیر ضروری سیاسی دباؤ بروئے کار لانے کا راستہ اختیار کرنا شاید زیادہ مفید اور موثر ثابت نہ ہوسکے۔
جبکہ نئے گورنر سندھ کے لیئے ایم کیوایم پاکستان کی طرف سے جو نام سامنے آرہے ہیں ۔اُن میں مصطفی کمال اور نسرین جلیل سرفہرست ہیں ۔ یاد رہے نسرین جلیل صاحبہ ،کامران ٹیسوری کا نام آنے سے پہلے بھی گورنر سندھ کے عہدے کی لیئے نامزد کی گئیں تھیں۔ مگر جن وجوہات کی بنا پر پہلے اِن کے نام کا نوٹی فکیشن جاری کرنا وزیراعظم پاکستان نے مناسب نہیں سمجھا تھا ۔غالب امکان یہ ہی ہے کہ وہی وجوہات اِس بار بھی ضرور نسرین جلیل کے گورنر سندھ بننے کی راہ میں ضرور حائل ہوں گی۔ جہاں تک مصطفی کمال کی بات ہے تو ہماری دانست میں اُن کے نام پر اتفاق کرنا پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کے لیئے کم و بیش نا ممکن ہی ہوگا۔ کیونکہ جس طرح کی جارحانہ سیاست اور حکومت کرنے کے لیئے مصطفی کمال شہر ت عام رکھتے ہیں ۔اُن کا وہ طرزِ سیاست مستقبل میں سندھ حکومت کے لیئے بہت سے سیاسی مسائل کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
نیز گورنرسندھ کامران ٹیسوری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کے درمیان پائی جانے والی مثالی ورکنگ ریلیشن شپ کی موجودگی میں پیپلزپاٹی کی اعلیٰ قیادت صوبہ میں گورنر کی تبدیلی کے کسی بھی سیاسی فیصلے کی حمایت سے حتی المقدور اجتناب ہی برتے گی۔ اگر مذکورہ تمام ناقابل تردید سیاسی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی ایم کیو ایم پاکستان نے گورنر سندھ کی تبدیلی کے معاملہ کو لے کر بہت زیادہ سیاسی و احتجاجی دباؤ پیپلزپارٹی پر ڈالنے کی غلطی کی تو عین ممکن ہے کہ گورنر سندھ کا عہدہ پر بھی کوئی جیالا ہی متمکن نہ کردیا جائے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے کی جانے والی بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کی غلطی نے بلدیہ عظمی کراچی میں ایک جیالا میئر تعینات ہونے کی راہ ہموار کردی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر