وجود

... loading ...

وجود
وجود

نامکمل ایجنڈے کی تکمیل

جمعه 03 فروری 2023 نامکمل ایجنڈے کی تکمیل

گذشتہ سے پیوستہ سال ا س لحاظ سے تاریخی تھا کہ حکومت ِ پاکستان نے وطن ِ عزیز پاکستان کا جو پہلا سیاسی و آفیشل نقشہ جاری کیا جس میں پورا جموں وکشمیر،سیاہ چن،گلگت بلتستان،لداخ ،ریاست جونا گڑھ اور مناوادر کو بھی پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اوپر کی لکیر سبز اور اس کے نیچے اورنج، سرخ، گلابی اور نیلے رنگ میں لکیر کو بین الا قوامی سرحد ظاہر کر کے پاکستان کا حصہ ظاہر کیا گیا۔ سبز رنگ کی لکیر جس میں ہلکے معمولی کالے رنگ کے نشانات ہیں صوبائی تقسیم کو ظاہر کرتی ہے۔ گلابی رنگ کی لکیر بائنڈری ورکنگ ظاہر کرتی ہے اس میں بھی گہرے کالے رنگ کے نشان ہیں۔ سرخ رنگ کے ڈاٹ پر مشتمل لائن آف کنٹرول ہے جب کہ نیلے رنگ کی لکیر دریائوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ نقشے میں بھارت کے غیر قانونی قبضے والے جموں و کشمیر کے ساتھ سرحد کو واضح نہیں کیا گیا اسے کھلا رکھا گیا ہے۔ اس علاقے کے ساتھ سرحد نہیں دکھائی گئی۔ یہ نقشہ دراصل تکمیل ِ پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے ،حقیقت حال بھی یہی ہے کہ قیام ِ پاکستان سے قبل ہونے والے عام انتخابات میں یہ اصولی فیصلہ کیا گیا تھاکہ مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے لیکن جب حضرت قائد ِ اعظم ؒ نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو پاکستان کا گورنرجنرل بنانے سے انکارکردیا تواس نے غصے میں آکر گورداسپور کو پاکستان میں شامل نہ کیاجس کے نتیجہ میں کشمیرکی پوری وادی ہندوستان کے تسلط میں آگئی۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 1947ء کے انتخابات کے نتیجہ میں میں چھوٹی بڑی کئی ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیں اس کے تحت 15 اگست کو نواب مہابت خان جی سوم کو خط لکھا گیا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں تو اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس اعلان پر بھارت کی حکومت نے شدید احتجاج کیا۔ ہندو راجہ نے بڑا احتجاج کیا 17 ستمبر کو اس وقت کے سیکرٹری آف سٹیٹس وی پی میمن نے جونا گڑھ کا دورہ کیا تاکہ نواب مہابت خان جی کو بھارتی حکومت کا پیغام دیا جا سکے۔ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ واپس لے لے مگر ملاقات نہ ہو سکی اور بہت غصے میں واپس آ گیا۔ صدر ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جونا گڑھ کی عبوری حکومت قائم کرنیکا اعلان کر دیا۔ 25 ستمبر 1947ء کو باقاعدہ قیام کا اعلان کر دیا اور اردگرد کی ریاستوں کی فوج کو جونا گڑھ کا محاصرہ کیے رکھنے کی ہدایت کی 9 نومبر 1947ء کو باقاعدہ جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا اور 2 سال بعد فروری 1949ء میں رائے شماری کرائی جس میں 2 لاکھ 1457 میں سے ایک لاکھ 90 ہزار 870 افراد نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ سنا دیا۔جونا گڑھ شہر میں 18 ویں صدی میں نوابوں کی جانب سے چٹا خانے چوک میں مقبرہ مہابت خان تعمیر کروایا گیا۔یہ مقبرہ فن تعمیر کے حوالے سے انڈواسلامک گوتھک اور یورپی ا سٹائل کا مجموعہ ہے۔ اس کے مینار اور گنبد نوعیت کے اعتار سے خالصتاً اسلامی تشخص رکھتے ہیں جبکہ یہاں تراشے ہوئے بت وغیرہ اور ستون ا سٹائل میں گوتھک ہیں۔ مقبرہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سیڑھیاں میناروں کے باہر سے اوپر کو جاتی ہیں۔ تقسیم کے وقت یعنی 1947ء میں نواب مہابت علی خان سوم نے جونا گڑھ میں پاکستان کی کوئی مشترکہ سرحد نہ ہونے کے باوجود پاکستان کیساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ بھارتی حکومت کے دباؤ میں پاکستان چلے آئے اورآخر جونا گڑھ اپنی آزادی کے صرف 3 ماہ بعد بھارت کے ساتھ مل گیا حالانکہ پورا جموں وکشمیر،سیاہ چن،گلگت بلتستان،لداخ ،ریاست جونا گڑھ اور مناوادر مسلم اکثریت آبادی والے علاقے تھے جن کاالحاق پاکستان کے ساتھ یقینی تھالیکن مسلمانوںکے ساتھ ازلی دشمنی کے باعث ہندو،عیسائی گٹھ جوڑ نے پاکستان کی تکمیل کے نامکمل ایجنڈے نے برصغیرکومسائل میں دھکیل دیا ۔
آج بھارت میں درجنوں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیںتامل ،سکھ اورمسلمان اس میں پیش پیش ہیںایک اور بات دنیا میں ریاستی جبر،دھونس ،دھاندلی اور ظلم سے کسی کو زیادہ دیر تک محکوم نہیں رکھا جا سکتا حالانکہ بھارت اپنی تاریخ کے داخلی اور خارجی مسائل میں اس قدر الجھاہواہے کہ حالات بے قابو ہو رہے ہیں جس کو دبانے کے لئے بلادریغ ریاستی جبر سے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ فطری بات ہے جس چیز کو جتنا دبایا جائے وہ اتنی ہی تیزی سے ابھر تی ہے ۔اس وقت بھارت میں درجنوں حریت پسند اپنے آزاد وطن کی جدوجہد کررہے ہیں جن میں تامل اور سکھ پیش پیش ہیں خالصتان کے قیام کیلئے سکھ کمیونٹی نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں اندراگاندھی کا قتل بھی اسی تناظرمیں ہوا جبکہ ان کے صاحبزادے سنجے گاندھی کو تامل ناڈو میں علیحدگی پسندوںنے ایک بم دھماکے میں موت کے گھاٹ اتاردیا مسلمانوںکو دبانے اور خوف وہراس پھیلانے کیلئے دہلی، بھارتی گجرات،ممبئی میں آئے روز مسلم کش فسادات اسی لئے کروائے جاتے ہیں اس وقت بھارت میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیںجونا گڑھ اور مناوادر ،میسور،گجرات سمیت درجنوں ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاںکے لوگ آزادی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر بھارتی حکمران کیا کریں گے ۔ ابھی تو مقبوضہ کشمیر میں رائے حق دہی کی بات ہورہی ہے مودی سرکارنے لاکھوںکشمیریوںکو ان کے حق سے محروم کرکے بر ِصغیرپاک و ہندکے ایک ارب انسانوں کا مستقبل دائوپر لگا دیاہے حالانکہ بر ِصغیرکے لوگ امن چاہتے ہیں کیونکہ امن میں ہی ہم سب کی بقائ، عافیت اور سلامتی ہے کاش!بھارتی حکمران دل کی آنکھیں کھول کرغور کریں تو محسوس ہوگا امن سب سے بڑی نعمت ہے یہ بات وہجتنی جلدی سمجھ لیں ان کے حق میں اتنا ہی بہترہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر