وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا اور چین کی ’’چِپ وار‘‘

جمعرات 02 فروری 2023 امریکا اور چین کی ’’چِپ وار‘‘

 

اقوام و ملل کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف معرکہ آراء ہونے کی وجوہات اور اسباب تو، رفتارِ زمانہ کے حساب سے تبدیل ہوتے رہے ہیں ، لیکن جنگ کے مقاصد کبھی نہیں بدلے۔ماضی میں بھی جنگیں عالمی بالادستی قائم کرنے کے لیے لڑی جاتی تھیں اور آج کی جدید دنیا میں بھی ایک قوم یا ملک کا اپنے حریف ممالک کے خلاف جنگیں چھیڑنے کا بنیادی مقصد وحید ناقابلِ تسخیر عالمی طاقت بننے کا دیرینہ خواب ہی ہے۔جس کہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ چین ایک اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے تو دوسری طرف امریکا بھی ہماری دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کے منصبِ جلیلہ پر فائزہے۔ جہاں چین کی نگاہیں مستقبل کی عالمی طاقت بننے کے ہدف پر مرکوز ہیں تو وہیں امریکی قیادت ورلڈ سپر پاور کی حیثیت چھن جانے کے خوف کے سبب چین کو ہر شعبہ میں کمزور کرنے میں مصروف عمل ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ چین جس میدان میں بھی امریکا کے سامنے اُبھرنے کی کوشش کرتاہے تو امریکا فوری طور پر پوری قوت کے ساتھ چین کا راستہ کھوٹا کرنے کی سازشیں اور کاروائیاں کرنا شروع کردیتاہے۔
مثال کے طور پر چند برس قبل جیسے ہی بین الاقوامی ماہرین عسکریات نے یہ انوکھا خیال پیش کیا کہ مستقبل میں سیمی کنڈکٹر یعنی ننھی سی’’ چِپ‘‘ کوعالمی بالادستی قائم کرنے میں کلیدی اہمیت حاصل ہوگی اور جو ملک بھی ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ کی صنعت میں خود کفیل ہوگا ۔وہی ملک حقیقی معنوں میں عالمی سپر پاور کہلائے گا۔ تب سے ہی امریکا نے چین کو ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ بنانے کی ٹیکنالوجی سے محروم کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان’’ سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ کی ٹیکنالوجی پر برتری کے حصول کی جنگ کو عسکری ماہرین کی جانب سے ’’چِپ وار ‘‘ کا نام دیا جارہاہے۔ یاد رہے کہ ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ کو اس وقت ڈیجیٹل معیشت اور قومی سلامتی کے امور میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپ، کاریں ہی نہیں بلکہ جدید ڈرون، جنگی جہاز یا ایٹمی میزائل سیمت تمام اقسام کے عسکری ہتھیار بنانے کے لئے بھی ’’سیمی کنڈکٹرچِپ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔فی الحال امریکا اور اس کے اتحادی ممالک، کوریا اور تائیوان کی صنعتوں کو اس جدیدشعبے پر پوری طرح سے غلبہ حاصل ہے۔ جب کہ چین’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘ تیاری کے لئے کافی حد تک دوسرے ممالک پر انحصار کرتاہے۔جس کی وجہ سے ’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘ اور اِسے بنانے کے درکار جدید مشینری درآمد کرنے کے اخراجات خام تیل کی درآمدی خرچ سے کئی گنا زیادہ ہیں ۔حالانکہ چین دنیا بھر میں سب سے زیادہ جدید آلات تیار کرتاہے ،مگر اس کے باوجود بھی ’’سیمی کنڈکٹرچِپ‘‘ بنانے والی اور فروخت کرنے والے دنیا کی دس سرفہرست کمپنیوں میں ایک بھی چینی کمپنی شامل نہیں ہے۔
دوسری جانب امریکا ’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘بنانے میں مکمل طور خود کفیل ہے اور وہ اپنی ضرورت کی ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ دنیا بھر کو درآمد بھی کرتاہے اور مستقبل میں امریکا کو ’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘ کی ملکی اور عالمی ضروریات پوری کرنے کسی سنگین بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔اُس بابت بھی امریکی قیادت ایک طویل عرصہ سے وسیع البنیادمنصوبے بنانے میں مصروف ہے۔خاص طور پر جب2014 میں امریکا کو یہ معلوم ہوا کہ چین ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ کی صنعت کو اپنے ملک میں فروغ دینے کے لیے 1501 ارب ڈالر ز کا انوسٹمنٹ فنڈ قائم کرچکا ہے اور بیجنگ کی جانب سے2015 میں جاری ہونے والی ’’میڈ اِن چائنا2025 ‘‘ منصوبہ کا بنیادی مرکز محور بھی ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ ٹیکنالوجی کو ہی بنایا گیا تو پھر 2015 میںہی اُس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما نے فوری طور پر ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ بنانے والی امریکا کی مایہ ناز کمپنی ’’انٹیل‘‘ کو ’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘ فروخت بیجنگ کو کرنے سے روک دیا تھا۔ نیز 2016 میں جب ایک چینی کمپنی نے ایک چِپ بنانے والی جرمنی کی کمپنی کو خریدنے کی کوشش کر رہی تھی تو امریکا نے اس سودے کو بھی رکوا دیا تھا۔بارک اوباما کے عہدہ صدرات چھوڑنے سے پہلے وائٹ ہاؤس سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی ،جس میں ایسی چینی کمپنیوں کے خلاف اقدام کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں جو ’’ٹیکنالوجی ٹرانسفر‘‘ پر بضد تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ امریکا نے’’سیمی کنڈکٹرچِپ‘‘ تیار کرنے والے دیگر ممالک مثلاً تائیوان اور جنوبی کوریا کو بھی چینی کمپنیوں کو ’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘ فروخت کرنے پر پابندی لگادی تھی۔
جبکہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت میں چین کے خلاف جاری ’’چِپ وار ‘‘میں مزیدتیزی اور شدت پیدا کر تے ہوئے۔ امریکی کمپنیوں کو اپنی’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘اور ’’سافٹ وئیر‘‘چینی ٹیلی کام کمپنی ZTE کو فروخت کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔جس کی وجہ سے یہ چینی کمپنی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی۔مذکورہ امریکی پابندیوں کے باعث چینی کمپنی’’Fujian Jinhua‘‘بھی متاثر ہوئی،جس پر الزام تھا کہ اس نے خفیہ طور پر امریکی ٹیکنالوجی ، چین میں منتقل کرنے کی کوشش کی تھی۔لیکن دوسری طرف چین نے ابھی ہمت نہیں ہاری ہے اور بیجنگ امریکا کی جانب سے چھیڑی جانے والی ’’چِپ وار‘‘ کابھرپور انداز میں مقابلہ کررہا ہے ۔ چین’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘کی صنعت میں خودمختاری کے حصول کے لیے مسلسل کوششیں کر رہا ہے اور اس معاملے میں چینی کمپنیوںکی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اُنہیں بے پناہ مالی مراعات بھی دے رہا ہے۔دراصل امریکا کو خدشہ کہ وہ اگر ’’سیمی کنڈکٹرچِپ‘‘ کے شعبے میں چین پر انحصار کرے گا تو اس کی ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اسی طرح چین کا سپر پاور بننے کا خواب بھی اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ’’سیمی کنڈکٹرچِپ ‘‘ کے شعبہ میں مکمل طور پر خود کفیل نہیں ہوجاتا۔
واضح رہے کہ ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ بنانے والی مشین کو لیتھو گرامی مشین کہتے ہیں ۔ تقریباً20 کروڑ ڈالر مالیت کی اِس مشین کا وزن 180 ٹن تک ہوتاہے۔اس مشین کو چھوٹے حصوں میں کھول کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتاہے۔ جب اِن پرزوں کو جوڑ کر مشین کی شکل دی جاتی ہے تو یہ ایک بڑی دیو ہیکل بس جتنی جگہ گھیرتی ہے۔ انتہائی جدید اور طاقت ور لیزر، لینز اور روبوٹوں پر مشتمل اس خودکار مشین پر اسمارٹ فونز اور گاڑیوں سے لے کر جیٹ طیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والی’’ سیمی کنڈکٹر چپس ‘‘تیارکی جاتی ہیں۔یاد رہے کہ ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ کا شعبہ ایک اقتصادی اور خودمختار لائف لائن ہے۔ یہ اپنے پانی سے خواراک اگانے جیسا معاملہ ہے۔مثال کے طور پر’’ سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘وہ چیز ہے جسے آپ ڈیٹا استعمال کرنے اور سسٹم کو منتقل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہالینڈ کی معروف کمپنی ASML پوری دنیا میں یہ مشین بیچنے کے لیئے مشہور ہے ،مگر اَب امریکا ہالینڈ پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ چین کو ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ بنانے والی نئے اور پرانے ماڈلز کی تمام مشینیں فروخت کرنے سے گریز کرے ۔ بصورت دیگر اُس کے خلاف امریکا کی جانب سے بڑی اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں ۔ دراصل امریکا چین کی ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ تیار کرنے کی صلاحیت اتنا محدود کرنا چاہتا ہے کہ چینی قیادت اِس ضمن میں مکمل طور پر امریکا اور اِس کے اتحادی ممالک کی دستِ نگر بن کر رہ جائے ۔
مگر بعض بین الاقومی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک بیجنگ کے خلاف جاری ’’چِپ وار ‘‘ کی بدولت اپنے روایتی حریف چین کی اقتصادی ، سیاسی اور عسکری ترقی کی رفتار کو کسی نہ کسی حد تک سست تو ضرور کرسکتاہے ،لیکن چین کی ترقی کی راہیں مکمل طور پر مسددود کرنا شاید امریکی قیادت کے لیئے ممکن نہ ہوسکے۔ کیونکہ چین بھی’’سیمی کندکٹرچِپ‘‘ کی صنعت میں عالمی برتری حاصل کرنے کے لیے حکومتی اور کاروباری وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین میں پانچ کاروباری اداروں سمیت دنیا بھر میں چپ سے متعلق 18 ذیلی کمپنیاں قائم کرنے کے بعد چین کو’’سیمی کنڈکٹر چپ‘‘ ڈیزائنرز اور تربیت یافتہ کارکنوں کی اشد ضرورت ہے۔ ایک محتاط اندازے کے چین کو پانچ لاکھ ہنرمند افراد کی ضرور ت ہے اور چین کے پاس’’سیمی کنڈکٹرچِپ‘‘ کے حامل ہنرمند افراد نہیں ہیں۔ہماری دانست میں پاکستان ایک لاکھ ہنرمند افراد اِس شعبہ کے لیئے بیجنگ کو فراہم کر سکتا ہے ۔ہمارے یہ ہنر مند افراد چین بھی جا سکتے ہیں یا وہ پاکستان میں رہ کر بھی کام کر سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر