وجود

... loading ...

وجود
وجود

پشاورخودکش دھماکہ

بدھ 01 فروری 2023 پشاورخودکش دھماکہ

ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے دوبارہ ملک میں دہشت گردانہ حملے شروع کردیے ہیںجسے وہ جہاد کانام دیتے ہیں لیکن عجیب جہاد ہے ؟ جو اسلامی ملک کے مساجد ومدارس کو نشانہ بنانے کا درس دیتاہے سیکورٹی اِداروں پر حملے بھی جائز ہیں حکومتی و نجی املاک کو نقصان پہنچانے پر بھی کوئی قدغن نہیں اِس سب کے باوجودخودکو مسلمان کہتے ہیں اسلام توکسی جاندار کو نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے یہ ایسا جہاد کررہے ہیں جس میں منشیات کے اڈوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں جرائم پیشہ عناصر پر ہاتھ اُٹھانابھی غلط ہے البتہ ملک دشمن عناصر کے ہمرکاب چلناعین اسلام ہے اسلام کی ایسی تعبیر دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں اب توسارے ملک میں امن و امان کی صورتحال مزیدخراب کرنے میں مصروف ہیں یہ مہنگائی سے تنگ عوام کی پشت پر ایک نیا تازیانہ ہے گزشہ روز پشاور پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ساٹھ نمازی شہیداور 156 نمازی زخمی ہوگئے اِس کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کر لی ہے اِ س سانحہ سے ایک بار پھر یہ خیال تقویت پکڑنے لگا ہے کہ ملک کا کوئی بھی حصہ دہشت گردوں کی دسترس سے باہر نہیں اور وہ جہاں چاہیں جب چاہیں حملہ کرسکتے ہیں کیونکہ پولیس لائن ایک انتہائی حساس حصہ ہے یہاں نہ صرف پولیس آفیسران اور سیکورٹی انتظامیہ کے دفاتر ہیںہیں بلکہ پولیس اہلکاروں کی رہائش گاہیں بھی ہیں ایک اور حوالے سے حساسیت یہ ہے کہ پولیس لائن سے ملحقہ ایک راستہ گورنر اور وزیرِ اعلٰی ہائوس جیسی اہم ترین رہائش گاہوں کی طرف جاتاہے دائیں طرف صوبائی سیکرٹریٹ ہے اور عقبی جانب سنٹرل جیل ہے اِتنے حساس علاقہ تک دہشت گردوں کی رسائی ثابت کرتی ہے کہ نہ صرف ہمارے حفاظتی نظام میں خامیاں ہیں بلکہ حفاظت پر ماموراہلکار بھی غافل ہیں اسی لیے جب متاثرین کی سوالیہ نظریں اِداروں یا ایجنسیوں کی طرف دیکھتی ہیں توکہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتااب بھی وزیرِ داخلہ کچھ اور کہتے ہیں آئی جی لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں جبکہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ خود کش حملہ آور ممکن ہے کئی روز سے پولیس لائن میں ہی رہ رہا ہو یہ اِس جانب اشارہ ہے کہ سیکورٹی اِداروں اور حکمرانوں میں تعاون کا فقدان اورالگ الگ ترجیحات ہیں جوصورتحال میں خرابی کی ایک اہم وجہ ہے جب دشمن کا تعین کرنے میںلاپرواہی اور غیر سنجیدگی ہوگی توعام آدمی میں عدمِ تحفظ کا احساس بڑھنا یقینی ہے۔
پشاورپولیس لائن جوکہ ہائی سیکورٹی علاقہ ہے یہاں آنے کے لیے ایک سے زائد ایسے ناکوں سے گزرنا پڑتا ہے جہاں باقاعدہ رکاوٹیں ہیں اورگزرنے والوں کی تلاشی لی جاتی ہے اِس کے باوجود نہ صرف دہشت گرد بغیر کسی کی نظروں میں آئے گزر جاتا ہے بلکہ حیران کُن طورپر دھماکہ خیز مواد بھی لے جانے میں کامیاب ہوجاتا ہے سے کئی سوال جنم لیتے ہیں اول یہ کہ دہشت گردوں کوکہیں نہ کہیں کسی نہ کسی سطح پر سہولت کاری حاصل ہے دوم حفاظت پر تعینات بدعنوان اہلکار سُستی اور مالی منفعت کے عوض فرائض کی بجاآوری میں کوتاہی کرتے ہیں سوم پولیس میںدہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں یا دیگر کاموں میں الجھا ناہو سکتا ہے جس کی وجہ سے امن و امان کے حوالہ سے فرائض ادا نہیں کررہی جو بھی ہے پولیس کے ساتھ سیکورٹی ایجنسیوں کو جائزہ لیکر خرابیاں دوراور دہشت گردعناصر کو کچلنے کے لیے پوری قوت سے کاروائی کرنی چاہیے اگر نقصانات کے باوجود رویہ اورطرزِ عمل تبدیل نہیں کیا جاتا تو آئندہ بھی نقصان کے لیے تیاررہیں۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دلیری سے ایک طویل جنگ کا سامنا کیا پاک فوج کے جوانوں کے علاوہ ہزاروں عام شہریوں نے بھی جانیں قربان کیں مگر کچھ عرصہ سکون کا احساس ہوتاہے لیکن وقفے وقفے سے ہونے والے حملے ثابت کرتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کا مکمل طورپر خاتمہ نہیں ہوابلکہ اب مزید قوت پکڑنے لگے ہیں تبھی گزشتہ چند ماہ سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے ہمارے حکمران اِس کازمہ دار افغان طالبان کو ٹھہراتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی کچھ لوگ طالبان کے سحر میں مبتلا اور اُن کی کامیابیوں پرفخر کرتے ہیں یہ زمہ دارانہ طرزِعمل نہیں اب تو واضح ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے جنگ بندی ختم کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کو ملک گیر حملے کرنے کا حکمنامہ جاری کیاہے لہذاوقت آگیا ہے کہ پاکستانی بھی یکطرفہ سحر سے نکلیں اور حکام بھی طالبان سے دوٹوک مطالبہ کریں کہ وعدوں کے مطابق افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں کیونکہ اگست 2021 جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے یہ اعداد شمار ظاہر کرتے ہیں پاکستان کے خدشات غلط نہیں کہ طالبان کے آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوانیز منظم وفعال ہو کر دہشت گردہماری طویل کامیابیاں ضائع کر نے کے درپے ہیں یہ ایسی صورتحال ہے اگر امن بحال نہیں ہوتاتونہ صرف شہری اِداروں سے بدظن ہوں گے بلکہ قومی یکجہتی بھی متاثرہوگی لہذا کوتاہی اور غفلت کی مزید کوئی گُنجائش نہیں لیکن اِس مصیبت کو اِدارے اور عوام مل کر ہی پسپا کر سکتے ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیکورٹی اِداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مزید مستعداور فعال کیاجائے اِس کے لیے ضروری ہے کہ غیر پیشہ وارانہ سرگرمیاں ترک کی جائیں۔
سرحد پر باڑ لگانے سے ماضی میں کچھ عرصہ امن و امان میں بہتری آئی جس سے یہ خیال پختہ ہواکہ باڑ لگنے اور طالبان کے اقتدار میں آنے سے دہشت گردعناصر کو آنے جانے کی سہولت نہ ملنے سے پُرتشددکاروائیوں کا خاتمہ ہو اہے لیکن یہ خیال اب غلط ثابت ہوتا جارہا ہے اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آج بھی افغانستان پراکسی میں مصروف غیر ملکی ایجنسیوں کا مرکز ہے دوم طویل عرصہ سے طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان قریبی اور دوستانہ روابط ہیں جو سیاسی کے ساتھ نسلی اور نظریاتی بھی ہیںاسی لے ٹی ٹی پی کوپاکستان کا اندرونی حصہ قرار دے کر افغان طالبان اِس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا حصہ نہیں بننے حالانکہ افغانوں کووروس سے آزادی دلانے کی جنگ میں پاکستان کی قربانیاں کسی طرح افغانوں سے کم نہیں نو گیارہ واقعات کے بعد بھی بات چیت سے مسئلہ حل کرنے اور جنگ ٹالنے کی سنجیدہ اور پُر خلوص کوششیں کیںپھر بھی طالبان کی بے نیازی باعثِ تعجب ہے ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں طالبان صرف سہولت کاری تک محدود رہنے کی بجائے اگر سنجیدہ دبائو ڈالیں اور ٹی ٹی پی کوملنے والی بیرونی کمک کا خاتمہ کردیں تو عسکریت پسندوں پر قابو پانا مشکل نہیں ماضی میں پاکستان نے مقامی شدت پسندوں سے چھ بار معاہدے کیے جو محدود مدت کے لیے ملک میں امن کا باعث بنے لیکن اِن معاہدوں کے بعد دہشت گردانہ حملوں میں تیزی آنے سے ایسا لگتاہے کہ اِن عسکریت پسندوں نے معاہدوں کی آڑ میں وقت لیکر اپنی حربی قوت بہتر بنائی اسی لیے فہمیدہ حلقے معاہدوں کو وقت کا ضیائع اور بات چیت کے عمل کو فضول سمجھتے ہیں اِس میں شائبہ نہیں کہ ٹی ٹی پی کو بھارت اپنی خفیہ ایجنسی راکے زریعے تربیت واسلحہ فراہم کرتا ہے اسی بناپرشہری اپنے اِداروں سے اب فیصلہ کُن کاروائی کی امید رکھتے ہیں۔
کچھ عرصہ سے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان بھی دوریاں بڑھیں اور بداعتمادی آئی ہے سرحد پار سے پاکستانی اہلکاروں کو باربار نشانہ بناکر محسن ملک کوجانی ومالی نقصان پہنچایا گیا ایسے واقعات سے تجارتی و آمدورفت پر بندشیں لگتی رہیں ممکن ہے طالبان کے سخت رویے کی وجہ یہ شک ہو کہ پاکستان دوبارہ غیر جانبدارنہ پالیسی بدل کراپنا وزن امریکی پلڑے میں ڈال رہا ہے اورکسی وقت بھی افغانستان میں دہشت گردوں کے بقایا خطرات کے خاتمے کی آڑ میں انھیں نقصان پہنچاسکتا ہے جس طرح ماضی میں زمینی اور فضائی راہ داری دینے کے ساتھ اڈے دیے گئے جن سے اُڑان بھرنے والے طیارے اُن پر بمباری کرتیاور ڈرون حملے سے ایمن اظواہری کو نشانہ بنایا گیا یہ شک درست نہیں بلکہ تصوراتی ہے جودوریوں کی خلیج کو وسیع کر سکتاہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ نہ صرف دوٹوک بات سے طالبان کے شکوک و خدشات دور کیے جائیں بلکہ نہ صرف ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے خلاف خود فیصلہ کُن کاروائی کی جائے بلکہ طالبان سے بھی ایسا مطالبہ کیا جائے وگرنہ پشاور خود کش حملے جیسے واقعات عوام میںبددلی اور مایوسی کا سبب بنیں گے جس سے اِداروں کی ساکھ اور قومی سلامتی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر