وجود

... loading ...

وجود
وجود

جھوٹی حکومت کا کون اعتبار کرے گا

منگل 31 جنوری 2023 جھوٹی حکومت کا کون اعتبار کرے گا

 

ایسی جھوٹی حکومت کا کون اعتبار کرے گا۔جو چند گھنٹوں پہلے تک اس بات کا اعلان کرتی رہے کہ ملک میں پیٹرول کی کوئی قلت نہیں ہے، اور پیٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی جارہی ہیں، اور چند گھنٹوں کے بعد پٹرول کی قیمت میں ایک دو روپے نہیں یکمشت 35 روپے کا اضافہ کردے۔ ایک بے اعتبار وزیر خزانہ ، جو ڈھٹائی سے اپنی نا اہلی ، اور غلطیوں کا بوجھ عوام پر لاد رہا ہے، جو حکومت میں صرف اپنے مقدمات ختم کرانے، اور اپنی دولت کو بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے، اور عوام کو اللہ سے دعا کرنے کی تبلیغ کرتا ہے۔مہنگائی کا یہ بم عوام پر کیا قیامت ڈھائے گا، اس کا اندازہ تو ان غربت کے ماروں کو ہورہا ہے، جو ایک روٹی خریدنے کی سکت سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔بسوں اور عام ٹرانسپورٹ میں لوگ کس طرح کرایہ کا بوجھ برداشت کرتے ہیں، اس کا اندازہ ان پھٹی ہوئی جیبوں سے لگاسکتے ہیں، جن کے ہاتھوں میں مڑے تڑے چند نوٹ ہوتے ہیں، اور وہ کرائے کے پیسے نہ ہونے پر کنڈیکٹر کی منتیں کر رہے ہوتے ہیں، مہنگائی نے لوگوں کو عزت نفس سے بھی محروم کردیا ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں۔ رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن ، اب یہ دن سب کے سامنے ہے، لیکن قرض کی مے پینے والوں کے منہ ، جو حرام لگا ہوا ہے، وہ اسے چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہیں، اقتصادی حوالے سے پاکستان سنگین ترین بحران میں مبتلا ہونے کے باوجود ہماری اشرافیہ اپنے رنگ ڈھنگ بدلنے پر تیار نہیں، سب سے زیادہ لوٹ مار تو سیاست دانوں نے مچائی ہوئی ہے، ایک فوج ، ظفر موج ہے، جو عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہے، کوئی پوچھنے والا ہے کہ یہ 76 وزراء ، مشیروں، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی پر مشتمل فوج کس کام کی ہے، یہ ملک کے کونسے مسائل حل کر رہے ہیں، کونسی عوامی خدمت کر رہے ہیں، کون کس کے کوٹے پر ہے، اور کیوں ہے؟ یہ سیاست دان جو حکومت کرنا ، وزارت میں رہنا، مشیروں کے اختیارات اور پرٹوکول لینا اپنا حق سمجھتے ہیں، ہر ماہ 380 ملین روپے ان کا خرچہ یہ غریب قوم برداشت کر رہی ہے۔ اگر ملک کی معیشت تباہ حال ہے،قرض بڑھ گیا ہے، تو ان مسٹنڈوں کو کیوں پالا پوسا جا رہا ہے، کیوں اتنی بڑی کابینہ اور مشیروں کو رکھا ہوا ہے، کیوں ان کا وظیفہ باندھا ہوا ہے۔
1988 میں ہمارے ماہر اقتصادیات اس وقت کے وزیر خزانہ نے بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے ایک حل یہ نکالا کہ پاکستان کے بینکوں میں فارن اکائونٹ میں رکھے ڈالروں پر ڈاکہ ڈالا ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک سرمایہ داروں کا اعتماد بحال نہیں ہوا، اور اب وہ اپنے ڈالر بنکوں میں نہیں رکھتے، ڈالر کی تجارت ،ایک نفع بخش کاروبار بن گیا، اور سب اس کاروبار سے دولت سمٹنے میں رات دن مصروف ہیں۔عجب سے بات ہے ہمارے پاس اب کوئی ماہر اقتصادیات ہی نہیں ہے، سرتاج عزیز،اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل،حفیظ پاشا، ڈاکٹرحفیظ شیخ، اسد عمر، ان ہی کو آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں، ان میں سے چند ایسے ہیں،جو ورلڈ بنک، آئی ایم ایف ، اور امریکہ کے پسندیدہ ہیں، جو ان کے مفاد کی پالیسیاں بناتے ہیں، حکومتیں، ان ہی کو وزارت خزانہ سونپنے پر مجبور ہوتی ہیں، یہ عوام کا تیل نچوڑ، ٹیکس لگانے، قیمت بڑھانے، گیس اور تیل کے نرخ بڑھانے، عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کے منصوبہ ساز ہوتے ہیں، عمران خان سے عوام نے بہت امیدیں وابستہ کیں تھیں، اگست 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کہا کرتے تھے کہ وہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کریں گے۔ بلکہ اس کے بجائے وہ ’’خودکشی‘‘ کو ترجیح دیں گے۔لیکن انھوں نے خودکشی نہیں کی، لیکن عوام کو خودکشی پر مجبور کر دیا۔ اسد عمر کووزارت خزانہ کے منصب سے ہٹاکر آئی ایم ایف کے لاڈلے ٹیکنوکریٹ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو لانا پڑا، ڈاکٹر حفیظ شیخ نے منصب سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے معاہدہ پر دستخط کردئے۔ تمام کڑی شرائط منظور کرلی گئی۔ عمران نے ایک ظلم یہ کیا کہ ملک کی معیشت ایک بنکر کے ہاتھ سونپ دی۔ شوکت ترین اپنے وقت کے ناکام وزیر خزانہ جو آئی ایم ایف کو سمجھ ہی نہ پائے، ہمارے سیاست دانوں کے پاس کوئی ڈھنگ کا ماہر معیشت بھی نہیں ہے۔لیکن ہماری معیشت کی تباہی میں ان غیر ملکی قرضوں کا ہاتھ ہے، جو مختلف ادوار میں حکومتیں اپنے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے لیتی رہی ہیں۔ عالمی اداروں سے ملنے والی امداد میں حتمی فیصلہ سازی امریکا ہی کی ہوتی ہے۔ خارجہ امور کی بابت اس کی ترجیحات آئی ایم ایف کے رویے میں نرمی یا سختی کا حقیقی سبب ہوتی ہیں۔ انھیں جمہوری حکومتیں راس نہیں آتی۔ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کی فیصلہ سازی کو دیکھنا ہو تو جنرل مشرف کے دور کو دیکھ لیں، ایک منتخب حکومت کا تختہ اْلٹ کر اکتوبر 1999ء میں اقتدار سنبھالا اور امریکا کو وہ کچھ دیا جس کا وہ عرصہ سے متمنی رہا تھا۔
ہماری اقتصادی مشکلات کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہماری اشرافیہ اس ڈوبتی کشتی سے بھی اپنا حصہ کشید کر رہی ہے، ہم نے اپنے تمام خرابیوں کو کرپشن سے جوڑ دیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ایک قوم کی طرح کفایت شعاری کو اختیار ہی نہیں کیا ہے۔ اگر ایک گھر مشکلات کو شکار ہو تو سب گھر کا سب کی کے افراد کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ پاکستان ڈوب رہا ہے، تو ہماری اشرافیہ کو بھی اپنی عیاشی ختم کرنی چاہیئے۔ سول، فوجی یا عدالتی، حکومتی اہلکاروں کو سہولت یا استحقاق نہیں ہونا چاہیئے۔ اخراجات کو کم کرنے کی کوشش ایک قوم کی طرح کرنی چاہیئے۔ سول اور فوجی اخراجات میں کمی لانے کا فیصلہ کرنا چاہیئے۔ یہ نہ سوچنا چاہیئے کہ ہم کب ڈیفالٹ ہوتے ہیں، ہم اندونی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں، بس اب اس کا اعلان ہونا باقی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر