وجود

... loading ...

وجود
وجود

اگلا میئر کراچی کون ہوگا؟

پیر 16 جنوری 2023 اگلا میئر کراچی کون ہوگا؟

بالآخر کراچی میں 15 جنوری کو ہونے والے دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو ہی گیا اورمتحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے پولنگ شروع ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود اہلیانِ کراچی نے بھرپور انداز میں نہ سہی بہرحال اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے گھروں سے نکلے تو سہی ۔مذکورہ بلدیاتی انتخابات انتہائی گومگو کیفیت کے عالم میں منعقد ہوئے اور کراچی اور حیدرآباد کی عوام کو پولنگ شروع ہونے کے بعد بھی ایک اَن جاناسا ،ڈر اور دھڑکا ہی لگا رہا کہ بلدیاتی انتخابات کہیں درمیان میں ملتوی نہ کردیے جائیں ۔ دراصل اہلیان ِ کراچی کے دل و دماغ میں ایم کیو ایم پاکستان کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے جاری ہونے والا یہ بیان گونج رہا تھا کہ ’’اگر ہم نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لیا تو پھر ہم یہ انتخابات ہونے ہی نہیں دیں گے‘‘۔ کراچی کی سیاست میں یہ دھمکی آمیز لہجہ طویل عرصہ کے بعد سننے میں آیا ،لیکن یہ دھمکی اِس لیے زیادہ موثر ثابت نہ ہوسکی کہ کراچی شہر مکمل طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی باریک بیں نگاہ میں تھااور پولنگ کے دوران لڑائی جھگڑوں کی چھوٹی موٹی شکایات ضرور موصول ہورہی ہیں ،لیکن تادمِ تحریر مجموعی طور پر پولنگ کا عمل پرُاَمن طور پر جاری ہے ۔
ایم کیوایم پاکستان کے بائیکاٹ کے اعلان کا اثر بلدیاتی انتخابات میں کاسٹ کیے گئے ووٹوں کی شرح پر کتنا پڑے گا؟ اس پر درست اور صائب رائے تو اُس وقت ہی دی جا سکے گی جب الیکشن کمیشن آف پاکستان، کراچی اور حیدرآباد میں پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد نتائج اور کاسٹ کیے گئے ووٹوں کی شرح کے حتمی اعداد وشمار جاری کرے گا۔ بہرحال ہماری دانست میں ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے بائیکاٹ کا اعلان جتنا منفی اثر مستقبل قریب میں اُس کی اپنی سیاست پر ڈالے گا، شاید اتنا اثر پولنگ کے عمل پر نہ ڈال سکے۔کیونکہ کراچی اَب نوے کی دہائی والا شہر نہیں رہا ہے اور یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی حریف سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک میں کافی ٹھیک ٹھاک اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ یہ بات بھی سمجھ سے بالکل بالاترہے کہ جب ایم کیوایم پاکستان نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لینا تو پھر انہوں ’’اتحاد‘‘ کا سیاسی ڈرامہ ہی کیوں رچایا تھا۔ایم کیوایم پاکستان کے ناراض دھڑوں کے اتحاد کا فارمولا طے ہوجانے کے بعد بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرنے کی صرف دو وجوہات ہو سکتی ہیں ۔اوّل،ایم کیوایم پاکستان کو صاف نظر آرہا ہوگاکہ اُن کا میئر بننا مشکل ہے ۔دوئم ،یہ کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی سے بائیکاٹ ختم نہ کرنے کے عوض کچھ بڑا مطالبہ منظور کروانا چاہتی ہوگی۔ جب گورنر سندھ مطالبہ کی بابت یقین دہانی کروانے سے قاصر رہے ہوں گے تو رات گئے ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔
بہرکیف ہماری دُعا ہے کہ اَن ہونی ،ہونی کو نہ ٹال سکے اور ،کراچی ،حیدرآباد میں جاری بلدیاتی انتخابات پراَمن طریقے سے اختتام پزیر ہوں اور عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے اپنے علاقوں کے بلدیاتی نمائندوں کو منتخب کریں ،جو اِن کے بلدیاتی مسائل کرسکیں ۔دوسری جانب سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، تحریک لبیک، عوامی نیشنل پارٹی سمیت ہرسیاسی جماعت دعویٰ کر رہی ہے کہ عروس البلاد کراچی کا اگلا میئر اُن کی جماعت سے ہوگا۔ مگر معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اگلے میئر کی دوڑ میں جماعت اسلامی اورپاکستان پیپلزپارٹی آگے دکھائی دیتی ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے بائیکاٹ کے بعد واضح امکانات پیدا ہوگئے ہیں کہ مذکورہ انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی ایک سیاسی جماعت کے لیے کلین سوئپ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ یعنی زیادہ امکان یہ ہی ہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ایک سے زائد سیاسی جماعتیں ،یا آزاد اُمیدور مل کر ہی میئر کراچی کا انتخاب کریںگے۔
سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ کراچی کی سیاست میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب پاکستان پیپلزپارٹی بھی بلدیاتی انتخابات میں ایک مضبوط سیاسی حیثیت اور مناسب عوامی مقبولیت کے ساتھ حصہ لے رہی ہے۔ یقینا کراچی شہر میں پیپلزبس سروس کے آغاز نے اِس منفی تاثر کی سختی سے ساتھ نفی کی ہے کہ پیپلزپارٹی کو شہر کی ترقی میں ذرہ برابر بھی دل چسپی نہیں ہے۔ نیز شہر کی اہم اور اکثر سڑکوں کی استر کاری ہونا بھی کراچی والوں کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے ایک بہت بڑا تحفہ ہے ۔جبکہ شہر سے کچرا اُٹھانے والے خاکروبوں کی فوج نظر آنے اور کچرے کے ڈھیر کی صفائی ہونے کے مناظر پر بھی اہلیان کراچی حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہیں ۔عوامی سہولیات کے یہ چھوٹے چھوٹے کام حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کو اچھے اور قابل قبول نتائج کا مژدہ جاں فزا سنا سکتے ہیں ۔
جہاں تک امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی بات ہے تو بلاشبہ وہ، رواں بلدیاتی انتخابات میں میئر کراچی کے عہدہ کے لیے اَب تک کے سب سے مضبوط اور فیورٹ اُمیدوار بن کر اُبھرے ہیں ۔اگر جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو پھر حافظ نعیم الرحمن کو کو کئی حوالوں سے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد دیگر حریف سیاسی جماعتوں کے اُمیدواروں کے مقابلے میں انتہائی ساز گار اور آئیڈیل سیاسی صورت حال کا سامنا ہوگا۔ یعنی اگر سیاسی تجزیہ کاروں کے اَب تک کے جائزہ اور اندازہ کے مطابق واضح اکثریت کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو حاصل نہیں ہوتی تو پھر حالات بالکل ویسے بھی ہوسکتے ہیں کہ جیسے 2001 کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہوگئے تھے اور کراچی کی میئر شپ، نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کی جھولی میں جاگری تھی۔
جبکہ یہ امکان بھی مکمل طور پر رَد نہیں کیا جاسکتا کہ اگلا میئر کراچی ،پاکستان تحریک انصاف سے بن سکتاہے مگر اس کے لیے ضروری ہوگا کہ پی ٹی آئی حالیہ بلدیاتی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرتے ہوئے کلین سوئپ کرے ۔جس کا امکان،متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کرنے کے بعد بھی بہت ہی کم دکھائی دے رہا ہے ۔یاد رہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں واضح اور غیر معمولی اکثریت حاصل کیے بغیر اِس لیے بھی تحریک انصاف کے نامزد اُمیدوار کا میئر کراچی بننا بہت مشکل ہوگا کہ یہ جماعت اپنے قائد عمران خان کی سولو فلائٹ کرنے کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے، سیاسی شراکت داری قائم کرنے کے جمہوری اُصول پر زیادہ یقین نہیں رکھتی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیئے ایک ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری کرنا بہت مشکل فیصلہ ہو گا، جسے حکومت سے زیادہ اپوزیشن کر کے مزا آتا ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر