وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان اور افغانستان کے خلاف تخریبی عزائم

جمعرات 22 دسمبر 2022 پاکستان اور افغانستان کے خلاف تخریبی عزائم

حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات میں تعطل ہے۔ بات چیت اور مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے مواقع پیدا کرنے کی تک و دو بہر حال آئندہ بھی ہونی چاہیے۔یہ گروہ فائر بندی کے معاہد ے پر بھی قائم نہیں ر ہاہے۔ خیبر پشتونخوا کے مختلف مقامات اور سرحدی علاقوں میں فورسز پر متواتر حملے کرتے ہیں۔ ایسا بلوچستان کے اندر بھی ہوتا رہا ہے۔ 29نومبر2022ئ￿ کو اس کالعدم گروہ نے سیز فائر معاہدہ ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا اور اپنے کارندوں کو پاکستان کے اندر حملوں کا کہہ ڈالا۔30نومبر کو کوئٹہ کے نواحی علاقے بلیلی کے مقام پر انسداد پولیو ٹیموں کی سیکورٹی ڈیوٹی پر جانے والے پولیس اہلکاروں کے ٹرک پر بارود سے بھرا رکشہ ٹکرا کر دھماکا کردیا۔ 2پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے ایک بڑی تعداد زخمی ہوگئی۔دھماکا کھلے مقام پر ہو ا، یہی وجہ ہے کہ نقصان کم ہوا ہے۔ یعنی حملوں کے اعلان کے بعد پہلی کارروائی کوئٹہ میں کی گئی۔ حکومت بلوچستان3دسمبر کو ایک مراسلے کے ذریعے مزید دہشتگرد عملیات کا امکان بھی ظاہر کرچکی ہے۔ افغانستان کے دار الخلافہ کابل کے اندرتین بڑے نا خوشگوار واقعات رونما ہوئے۔3دسمبر کو کابل میں پاکستانی سفاتخانے میںمتعین پاکستانی ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی پر ایک عمارت سے نشانہ باز نے گولیاں چلائیں۔ ناظم الامور محفوظ رہے البتہ ان کے محافظ اسرار احمد سینے میں گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوئے۔ اسی روز کابل ہی میں حزب اسلامی کے مرکز میں جمعہ کی نماز کے وقت خودکش حملہ آوروں نے حملہ کردیا۔ محافظین نے حملہ آوروں کو روکا دو کو ہلاک کردیا ایک فرار ہوا۔ یہ بارود سے بھری گاڑی لے کر گئے تھے۔ ہدف بلا شبہ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار اور حزب کی دیگر اعلیٰ قیادت اور نمازی تھے۔
12دسمبر کو کابل کے علاقے شہرنو میں ایک ہوٹل پر حملہ کیا جہاں چینی باشندے مقیم تھے ، تین دہشت گرد ہلاک کردیے گئے۔اس دوران چینی شہریوں سمیت بیس سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ پاکستان نے سفارتخانے پر حملہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ا فغان حکومت نے مرتکب ملزمان کو دھرنے اور سفارتی عملہ کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ افغان قائمقام وزیرخزانہ امیر خان متقی نے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو فون کیا۔ یاد رہے کہ اس حملے سے قبل29نومبر کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے کابل کا دورہ کیا جہاں افغان حکومتی نمائندوں سے امن وامان سمیت دیگر امور پر بات چیت کی۔ داعش نے حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ نیز کابل حکومت نے ملوث داعشی کارندے کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔ افغان حکومت داعش سے غافل ہے نہ اس گروہ سے رعایت برتی ہے۔ یہی گروہ مختلف عوامی مقامات کو بھی نشانہ بنا تاہے۔ حزب اسلامی کے مرکز میں گھسنے اور خودکش حملوں کی کوشش بھی اس گروہ نے کیا ہے۔تحقیقات کے مطابق پاکستانی سفارتخانہ ، شہر نو کے ہوٹل اور حزب اسلامی کے مرکز پر حملے میں ایک ہی گروہ ملوث ہے۔ حملہ آوروں کا تعلق وسطی اشیائی ملک تاجکستان سے بتایا گیا،تاجک باشندے تھے۔ اس گروہ کے اہم منصوبہ ساز تاجکستان کے دار الحکومت دوشنبہ کو نکل چکے ہیں۔حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار نے بتایا ہے کہ ’’حملہ آور چار ماہ قبل آذربائیجان، ترکی اور ایران کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔ اور جس شخص نے منصوبہ ندی کی تھی وہ تاجکستان کا بھی شہری ہے جو امریکی قبضہ کے دوران افغانستان میں مقیم تھا۔ اس شخص کے گزشتہ کابل حکومت کے سکیورٹی اداروں کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ یہاں تک کہ سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے گیسٹ ہاو¿سز میں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے‘‘۔ افغان حکومت مخالف نیشنل ریزیسٹنس فرنٹ (این آر ایف )کے نیدرلینڈ اور ترکیہ کے دفاتر کا داعش گروہ سے روابط ہیں۔ اس گروہ کے پشت پناہ امن کے عالمی ٹھیکیدار ہیں۔ جن کے اوائل مکروہ عزائم افغانستان میں خانہ جنگی بپا کرنے کی تھی۔ ناکامی کے بعد اب اس گروہ کے ذریعے مقاصد پانے کی کوشش میں ہیں۔
ایران کے اندر حالیہ حکومت مخالف پرتشدد تحریک میں امریکا اور یورپ نے حتی الوسع مظاہرین کے ذریعے نظام گرانے کی کوشش کی ہے۔ تہران بارہا اس جانب دنیا کو توجہ دلا جاچکا ہے۔ چناں چہ ادراک اور سمجھنے کی بات ہے کہ اگر داعش گروہ افغانستان میں رکھوالی کی جائے گی تو یہ ایران کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ رواں سال اپریل میں ایران کے شہر مشہد میں امام رضا کے زیارت میں حملہ آوروں نے گھس کر زائرین کوقتل کردیا، جہاں متعدد افراد زخمی ہوئے۔ ایران افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی عالمی سازش کے بر خلاف کابل حکومت کی مدد سے پیچے نہیں ہٹنا چاہیے۔ پاکستان اگرچہ چوکنا ہے ،چناں چہ مربوط حکمت عملی کے ساتھ اس پہلو پر آگے بڑھنا ہوگا۔ احمد ضیائ￿ مسعود،ا مر اللہ صالح جیسے لوگ داعش سے مراسم رکھتے ہیں۔گویا خاص کر افغانستان اورپاکستان کے خلاف تخر یبی عزائم پر کام ہورہا ہے۔۔ پاکستان کے و یزاعظم میاں شہباز شریف نے بین الاقوامی برادری کی افغانستان کی صورتحال میں بہتری کیلئے کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ نومبر2022 ئ￿ کو ہونے والاماسکو کانفرنس افغان صورتحال کے زمینی حقائق کے برعکس واقع ہوا ہے۔ جہاں افغان حکومت کے نمائندے کو مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا۔ اس قبل ماسکو ہی کے طلب کردہ کانفرنسز میں افغان طالبان کو نمائندگی دی جارہی ہے۔ اس کانفرنس میںروس، چین، بھارت، پاکستان، ایران،ترکیہ ، قطر، سعودی عرب، قازقستان، تاجکستان، کرغزستان ، ازبکستان اور ترکمانستان کے نمائندوں کی شرکت کی تھی۔ ایک روزہ کا نفرنس میں داعش اور القاعدہ کی موجودگی پر تشویش تو ظاہر کی گئی مگر ان کی سرکوبی کی خاطر افغان حکومت سے تعاون کا عزم گوارانہ کیا۔ گویا ماسکو، چین، بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک نے اپنی اپنی ڈفلیاںنبجائیں۔ خاص کر ماسکو، بھارت اور وسط اشیائی ممالک اپنا گریبان میں جھانکنا چاہیے جو افغانوں پر طویل جنگ مسلط کرنے میں کردار رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر