وجود

... loading ...

وجود
وجود

تیسرے مارشل لاء کی کھائی

جمعه 09 دسمبر 2022 تیسرے مارشل لاء کی کھائی

4 جولائی 1977ء کی شام کابینہ کا اجلاس تھا وزیراعظم غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھے۔ جنرل ضیاء الحق بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔ اجلاس ختم ہوا توذوالفقارعلی بھٹو اپنے کمرے میں چلے گئے جنرل ضیا بھی ان کے ہمراہ تھے وہ تقریباً 10 منٹ تک مسٹر بھٹو کے ساتھ رہے۔ جنرل ضیاالحق کمرے سے باہر نکلے تو ان کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا اور وہ بے حد عجلت میں نظر آتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ ہاتھ ملاتے وقت ایک ہاتھ سے مخالف فریق کا ہاتھ کلائی سے پکڑ کر بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کرتے تھے اور کافی دیر تک ہاتھ تھامے رکھتے تھے۔ اس رات یوں لگا جیسے وہ۔۔۔ ہاتھ ملا نہ رہے ہوں، ہاتھ چھڑا رہے ہوں۔ قومی اتحاد کے وفد سے مذاکرات کرنے والی پیپلز پارٹی کی مذکراتی ٹیم کے رکن اوراس وقت کے وزیراطلاعات مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب “اور لائن کٹ گئی‘‘ میں مزید لکھاہے ’’ 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات کو جو کچھ ہوا وہ مارشل لاء کا نقطہ آغاز ہرگز نہیں تھا بلکہ خشت اول میں کجی تو بہت پہلے آچکی تھی‘‘ ۔۔اس کا صاف صاف مطلب یہ بھی ہے کہ مارشل لاء دبے پائوں دستک دے رہا تھا لیکن حکومت اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوںکو اس کا ادراک نہ ہوسکا یعنی آرمی چیف جنرل ضیاء الحق پہلے ہی دل ہی دل میں فیصلہ کرچکے تھے کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے جبکہ ان دنوںکچھ سیاسی مبصرین اس خدشے کااظہار بھی کررہے تھے کہ PNAکی تحریک کے دوران 20 اپریل 77 کو کراچی’ حیدر آباد اور لاہور میں محدود مارشل لاء لگا کر وزیرِ اعظم بھٹو نے اصلی مارشل لا ء کی راہ ہموار کر دی تھی اس جواز سے جنرل ضیاء الحق نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ 5 جولائی 1977 کو ہونے والی فوج کی اس کارروائی کو جسے “آپریشن فیئر پلے” کا نام دیا گیا تھا کوئی ایسا اچانک اور غیر متوقع اقدام بھی نہیں تھا۔ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد ایک عرصہ سے اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں اس کے لیے نہ جانے کب سے پس پردہ تیاریاں ہو رہی تھیں اور اور فضا کو ایسے سازگار بنایا جا رہا تھا کہ مارشل لاء لگنے کے بعد قوم اسے درپیش مسائل کا واحد حل سمجھ کر خوش دلی کے ساتھ قبول کرلے کیونکہ حالات نے بھٹو حکومت اور نوجماعتوںکے اتحادپر مشتمل قومی اتحاد کی اس سیاسی محاد آرائی کو حق اور باظل کی جنگ بناکررکھ دیا تھا جب پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو لوگوںنے مٹھائیاں بانٹیں،حلوے کی دیگیں تقسیم کیں اور سڑکوںپر نوافل پڑھ کر یوم ِ نجات منایا یہ سب تاریخ کا حصہ ہیں پیپلزپارٹی کی حکومت کیخلاف میڈیا نے بڑا پاورفل کردار اداکیااور بھٹو مخالف صحافیوں نے بڑا مال کمایابھٹو کے بارے میں اتنی کہانیاں تراشیں گئیں کہ توبہ ہی بھلی اب تو اس حوالے سے تاریخ کو از سرنو ِلکھنے کی کوششِ ناتمام کی جا رہی ہے تاریخی حقائق کو اپنی پسند کے مطابق مسخ نہیں یکسر تبدیل کیا جا سکتا ہے اوریہ سب کچھ نام نہاد روشن خیال عناصر کر رہے ہیں۔ کئی بزرگ دانشور اپنی ذہنی تسکین کیلئے بھٹومرحوم کو جمہوریت کا دیوتا سمان ثابت کرنے کے لیے ان کے نئے بت تراش رہے ہیں اور کچھ جنرل ضیاء الحق کو اب بھی مرد ِ مومن مرد ِ حق ثابت کرنے کے لیے زمین وآسمان کے قلابے ملا رہے ہیں ،پیپلزپارٹی کے اکثر مخالفین کاالزام ہے کہ 77ء کے عام انتخابات میں تاریخ کی بذترین دھاندلی کی گئی ،بھٹو مرحوم واقعی اپنے چاروں صوبوں کے (وزرائے اعلی) سمیت بلامقابلہ منتخب ہو گئے تھے۔ ایک سوال ہے کیا لاڑکانہ سے جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی مرحوم کو اغوا نہیں کیا گیا ؟جس کی انتخابی عذر داریاں بھٹو مرحوم اوران کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار بھگتتے رہے۔ بھٹو مرحوم نے مارچ 77 ء کے عام انتخابات میں پاکستان کی تاریخ کی بدترین دھاندلی کی، انتخابی عمل کو قدموں تلے روندا انتخابی ادارے کو اتنابے توقیر کیا کہ آج تک الیکشن کمیشن اورانتخابی عمل کو ہمیشہ مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے بھٹو مرحوم سمیت کم از کم اٹھائیس ارکان قومی اسمبلی بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔
الزامات اور حالات کے تناظر میں جو کچھ بھی کہا جائے عبث ہے کیونکہ آج پیپلزپارٹی کے اس وقت کے رہنمائوں میں سے زیادہ تر اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملے ہیںکسی الزام کی تائیدیا تردید کے لیے کوئی زندہ موجود نہیں ہے۔ بھٹوحکومت کا تختہ ۔۔دھڑن تختہ کیوں ہوا اس کے لیے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا ضروری ہے۔
پاکستانی قوم سقوط ڈھاکا کا زخم بھولنے کی کوشش کررہی تھی بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت ملک کو سنبھالا دیا جب قوم انتہائی مایوسی کا شکار تھی ملکی تاریخ پہلا متفقہ آئین نافذ العمل ہو چکا تھا،جمہوری دور حکومت کے پہلے انتخابات ہو چکے تھے، ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی ایک بار پھر اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی لیکن اس وقت وزیر اعظم کے مشیر انہیں لے ڈوبے حقیقت یہ بھی کہ اس وقت سیاست میں بھٹو کے پائے کا کوئی لیڈر نہیں تھا حتی کہ ان کا متبادل بھی دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دیتا تھا پاکستان قومی اتحاد میں مختلف نظریات اور مسالک کے لوگ موجود تھے ان میں کوئی قدر مشترک تو نہ تھی لیکن وہ سب کے سب بھٹو دشمنی میں متحدہوگئے تھے عام انتخابات کے نتیجہ میں اپوزیشن جماعتوںکے اتحاد پی این اے نے چند نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگایا اور انتخابی نتائج ماننے سے انکار کردیا جس پر ملک بھر مظاہرے شروع ہوگئے پھر یہ احتجاجی تحریک ۔۔تحریک ِ نظام ِ مصطفیٰ میں تبدیل ہوتی چلی گئی حالانکہ مسئلے کا واحد حل یہ تھا کہ عام انتخابات دوبارہ کروا دئیے جاتے تو بہتر تھا لیکن بھٹو نے اپنے مشیروں کے مشورہ سے اس احتجاجی تحریک کو ریاستی طاقت سے دبانے کی کوشش کی یہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ قومی اتحاد کے ایک رہنماپروفیسر غفور نے ا پنی ایک کتاب میں واضح لکھا ہے “تیسرا مارشل لاء ایسے دبے پاؤں ملک پر مسلط ہوا کہ اس کے قدموں کی چاپ بھی سنائی نہیں دی” لیکن کئی سیاسی مبصرین ان کی یہ بات تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہی لوگ حالات کو اس نہج پر لے آئے تھے کہ جو وہ چاہتے تھے جنرل ضیاء الحق نے وہی کیا بہرحال5 جولائی1977ء پاکستان کی جمہوری تاریخ کا سیاہ دن تھا جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا، ملکی تاریخ کے اس سیاہ دور کی تلخ یادیں بھلائے نہیں بھولتیں، قوم4دہائیوں بعد بھی اس کے منفی اثرات سے جان نہیں چھڑا سکی۔90 میں روز میں انتخابات کے وعدے کے ساتھ شروع ہونے والا یہ سیاہ دور گیارہ سال جاری رہا سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اس مارشل لاء نے قوم کو تقسیم کرکے رکھ دیاپاکستان کی جمہوریت اور جمہوری سسٹم کو جنرل ضیاء الحق نے جتنا نقصان پہنچایا اس کا خمیازہ آج بھی جمہوری حکومتیں بھگت رہی ہیں کیونکہ انتہاپسندی، کلاشنکوف کلچر ،ڈرگز ،دہشت گردی اور فرقہ واریت،برادری ازم اور لسانیت نے پاکستان کی شناخت کو خاصا نقصان پہچایا ضیاء الحق دور میں شخصی آزادیاں سلب کرلی گئیں ۔
اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو کوڑے مارے گئے ، جیلوں میں بند کیا گیا ،ملٹری کورٹس قائم کی گئیں ، ڈکٹیٹر کی سب سے بڑی غلطی پاکستان کو روس افغان جنگ میں دھکیلنا تھا۔ضیاء الحق کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں شدت پسندی کو فروغ ملا لیکن اسلامی نظریات کے فروغ، پاکستان کو دفاعی طور پر مضبوط بنانا،روزگار کے مواقع،اوورسیزپاکستانیوںکیلئے آسانیاں،مہنگائی کا خاتمہ،ملک بھرمیں بے انتہاترقیاتی کام ہونا ان کے دورکی نمایاں خصوصیات تھیں جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل پرویزمشرف نے ایک اور مارشل لاء لگاکر اس وقت کے وزیر ِ اعظم میاںنوازشریف کو گرفتارکرلیاپھر ایک معاہدے کے تحت انہیں10سال کے لئے سعودی عرب جلاوطن کردیا آج عسکری قیادت نے ماضی کی غلطیوںکا کفارہ ادا کرنے کے لیے اپنا رویہ بہت حد تک تبدیل کرلیا ہے بد قسمتی یہ ہے کہ اگر نہیں سیکھا تو ہمارے سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا وہ اپنی پرانی غلطیاں دہراتے چلے آرہے ہیں اس وقت تمام چوٹی کے سیاستدان کرپشن کے الزامات میں نیب کے نرغے میں ہیں ۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ اس بار فوج ملک کے اندر سیاسی استحکام اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے کمٹٹڈ ہے حالانکہ سیاستدانوں نے کوئی ایسی کسر نہیں چھوڑی جس میں فوج کو مداخلت کے لیے جواز فراہم نہ کیا گیا ہو اب فوج نے ہر محاذ پر جمہوریت کے فروغ کے لیے کردار ادا کی کرنے کا فیصلہ کررکھا ہے خداکرکے اب وطن ِ عزیز میں کبھی مارشل لاء لگانے کی نوبت نہ آئے کیونکہ کمزور سے کمزور اور بری سے بری جمہوریت مارشل لاء سے ہزار گنا بہترہوتی ہے اس لیے سیاستدانوں کو بھی سبق سیکھنا چاہیے اور ملک میں حقیقی جمہوریت او رآئین و قانون کی حکمرانی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے اس کے لیے وہ سب سے پہلے اینی سیاسی جماعتوںکو شخصی غلامی سے چھرانے کے لیے اقدامات کریں تو نہ صرف ملک و قوم بلکہ ان کے لیے بھی بہترہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر