وجود

... loading ...

وجود
وجود

عالمی ماحولیاتی کانفرنس : بھارت اور پاکستان کی سفارت کاری

جمعرات 01 دسمبر 2022 عالمی ماحولیاتی کانفرنس : بھارت اور پاکستان کی سفارت کاری

 

حالیہ عرصے میں کسی بین الاقوامی فورم پر اگر پاکستانی سفارت کاری کو کوئی بہت بڑی کامیابی ملی ہے، تو وہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کی کانفرنس یعنی ’ کاپ 27 ‘میںگروپ 77یعنی ترقی پذیر ممالک کی قیادت کرتے ہوئے،ایک تاریخی معاہدے پر اتفاق رائے کراونا ہے۔ جس کے تحت ماحولیاتی تبدیلی سے’’ نقصان اور تباہی‘‘ کی تلافی کے لیے ایک فنڈ قائم کیا گیا، تاکہ ان ممالک کی مدد کی جائے جنہیں ماحولیات کی تبدیلی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ ا ہو۔اس فنڈ کو قائم کرنے کے لیے چھوٹے جزیروں اور دیگر کمزور ممالک کی حکومتیں کئی دہائیوں سے مطالبہ کرتی آرہی تھیں۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے کئی مندوبین، جس میں بھارت کے نمائندے بھی شامل ہیں ،نے راقم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پاکستانی وفد پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا اور ان کی وجہ سے ہی مغربی ممالک ترغیب و لالچ دینے کے باوجود گروپ77ممالک کی صفوں میں دراڑیں پیدا نہیں کرسکے۔ پاکستان نے آخر وقت تک ترقی پذیر ممالک کے اس گروپ کو لیڈ کیا اور اس فنڈ کے قیام کیلئے اتفاق رائے پیدا کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس گروپ میں گو کہ اب 134ممالک ہیں، مگر ابھی بھی اسکو گروپ77کے نام سے جاتا ہے کیونکہ 1964 میں اس کی بنیاد کے وقت اس میں 77ممالک شامل ہوگئے تھے۔ مغربی ممالک اس فنڈکو تو ایجنڈامیں ہی شامل کرنے کے روادار نہیں تھے۔
جب 6نومبر کو شرم الشیخ میں اس کانفرنس کا آغاز ہوا تو پہلے دو دن تو ایجنڈہ کو ہی طے کرنے میںلگ گئے۔ 48گھنٹوں تک چلنے والی بات چیت جو دن رات صبح پانچ بجے تک بغیر کسی بریک کے جاری رہی کی وجہ سے بالآخر ’’نقصان اور تباہی ‘‘ کی تلافی کے فنڈ کو ایجنڈامیں شامل کیا گیا۔ بعد میں 18 نومبر کو جب اعلامیہ ترتیب دیا جا رہا تھا تو اس کو شامل کرنے پر خاصی لے دے ہوگئی۔ امریکی صدر کے مشیر جان کیری نے تو یہاں تک کہا کہ اکثر ممالک تو اسوقت کساد بازاری کا شکار ہیں۔ ان کہنا تھا کہ فی الحال یہ فنڈ ایجنڈا میں آگیا ہے، اس لیے آئندہ کسی دوسری کانفرنس میں مناسب وقت پر اسکو اعلامیہ میں شامل کیا جائے۔ ہرجیت سنگھ، جو گلوبل پولیٹیکل اسٹریٹجی، کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں، نے ان کو کانفرنس کی میز پر ہی بتایا کہ جس طرح بینکوں کو بیل آئوٹ کرنے، کوویڈ وبا کا مقابلہ کرنے اور اب حال ہی میں روس یوکرین جنگ لڑنے کے لیے مغربی ممالک نے جس طرح خزانے کھول دیے ہیں، اسکا مطلب یہی ہے کہ پیسہ ان ممالک کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ترجیحات ایشو ہیں۔ ان کے مطابق امریکا نے ہمیشہ غریب ممالک جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے دوچار ہیں کی طرف جانے والے پیسے کو روک دیا ہے۔ ماضی میں ان مغربی ممالک نے بائیو ایندھن، یعنی کوئلہ کے استعمال کو کم کرنے کے وعدے کیے تھے، مگر اب یوکرین جنگ کے نام پر اور انرجی اسکیورٹی کے نام پر دوبارہ کوئلہ کی کانکنی کے لیے سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں امید تھی کہ کوئلہ کے علاوہ اب گیس کے استعمال پر بھی قدغن لگانے پر کوئی اتفا ق رائے پیدا کیا جائیگا۔ مگر مغربی ممالک نے اسکو ناکام بنادیا۔ ہرجیت کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم اضافے کو محدود کرنے کے لیے بھی کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔مگر ان کا کہنا ہے کہ فنڈ کے قیام کے لیے ترقی پذیر ممالک کے اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے پاکستانی سفارت کاری نے خاصی مدد کی۔ اس سے پہلے کی کانفرنسوں میں مغربی ممالک اس طرح کے اتحاد کو لالچ و ترغیب دیکراعلامیہ سے قبل ہی توڑ دیتے تھے۔ اسکے علاوہ یورپی یونین کا اصرارتھا کہ چھوٹے جزیرے والے ممالک اور 46انتہائی کم ترقی والے یعنی ایل ڈی سی ممالک کو ہی ماحولیاتی تبدیلی سے غیر محفوظ مان کر یہ فنڈ ان کے لیے ہی مختص کیا جائے۔
مگر مذاکرات کے دوران بھارت اور پاکستان نے مل کر اس فنڈ کو ملک کی جی ڈی پی کے ساتھ منسلک کرنے کی سختی کے ساتھ مخالفت کی۔ خیر یہ فنڈ تو قائم ہو گیا ہے، مگر اس کے لیے رقوم کون ادا کریگا اور کس کو اسکو حصہ دیا جائیگا اور یہ فنڈ کہا ں رکھا جائیگا، ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ مغربی ممالک اس فنڈ کو گرین کلائمیٹ فنڈ کے تحت رکھنے پر بھی زور دے رہے تھے۔ مگر اس کی مزاحمت کی گئی،کیونکہ یہ فنڈ کئی شرائط کے تحت ہی ممالک کو فراہم کیا جاتا ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے بھارت کی ایک مو?خر تھنک ٹینک سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ (CSE) کی ڈائریکٹر جنرل سنیتا نارائن کے مطابق چونکہ اس فنڈ کی تفصیلات طے نہیں کی گئی، اس لئے اس کو کل دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک قدم اٹھانا عالمی ماحولیات کے لیے تباہ کن ثابت ہورہا ہے اس لیے اس کانفرنس کو دیگر امور کو بھی نپٹانا چاہئے تھا۔ ایک اور مذاکرات کار رچا شرما، جو بھارت کی وزارت ماحولیات میں ایڈیشنل سکریٹری بھی ہیں ، کا کہنا ہے کہ ہاں ذمہ داری اور معاوضے کے الفاظ حتمی دستاویز میں موجود نہیں تو ہیں، مگر یہ بالکل واضح ہے کہ جو لوگ غیر متناسب کاربن بجٹ کا استعمال کرتے ہیں، ان کو ہی اس فنڈکے لیے رقوم فراہم کرنی پڑے گی۔ ان کے وفد نے اس بات پر زور دیا کہ توانائی کے عالمی بحرانوں کو صرف موجودہ روس یوکرین جنگ سے پیدا شدہ جغرافیائی سیاسی تناظر میں نہیں رکھا جانا چاہیے بلکہ اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے بڑے حصے مسلسل توانائی کے بحران کی حالت میں رہتے ہیں۔ جس درد کو ا?جکل یورپ محسوس کرتا ہے، انرجی کے حوالے سے افریقہ ، ایشیا اور معتدد دیگر ممالک کے عوام تو یہ کئی صدیوں سے اسکے ساتھ جی رہے ہیں۔ بھارت کے سابق خارجہ سکریٹری اور وزیر اعظم کے خصوصی ایلچی برائے جوہری امور اور موسمیاتی تبدیلی شیام سرن کا کہنا ہے کہ 2030 تک قابل تجدید توانائی میں سالانہ تقریباً 4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ 2050 تک خالص صفر تک اخراج پہنچ سکے۔مزید برا?ں، کم کاربن معیشت کی عالمی تبدیلی کے لیے کم از کم 4-6 ٹریلین سالانہ کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ ترقی پذیر ممالک کو قومی سطح پر طے شدہ وعدوں کو پورا کرنے کے قابل بنانے کے لیے 2030 سے پہلے 5.8 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی کی کانفرنسوں میں طے پایا گیا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک 2005سے 2015تک بائیو ایندھن سے توانائی کی منتقلی میں مدد دینے کے لیے سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کریں گے۔ مگر یہ بس خواب ہی رہا۔ اب اگر یہ ممالک اس قدر قلیل رقم نہیں دے پائے، تو ٹریلین ڈالر کی رقم ہر سال کون دیگا۔
خیر پاکستانی سفارت کاری کی وجہ سے عالمی طور پر تلافی کے فنڈنگ کا ایک مسئلہ فی الحال تو حل ہوگیا، مگر ان کو اسی شدو مد کے ساتھ اپنے ہی خطے میںبھارت کے ساتھ دریائے سندھ اور اسکی معاون ندیوں کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر اور لداخ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیرزکے تیزی کے ساتھ پگل کر ختم ہونے کے ایشوز پر بھی اسی طرح کا کوئی قدم اٹھانا ہوگا۔ پاکستان کا مرکزی دریا سندھ، تبت سے نکل کر لداخ اور پھر گلگت کے راستے پاکستان میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک شاخ کرگل کے پاس الگ ہوکر سونہ مرگ کے راستے وادی کشمیر کے ایک حصے کو سیراب کرکے گاندربل میں دریائے جہلم میں ضم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی تین چوتھائی ا?بادی سندھ تاس میں ا?باد ہے اور اسکی 80فیصد خوراک کی ضروریات سندھ اور اسکی معاون ندیوں خاص طور پر جہلم اور چناب پر منحصر ہے۔ ان دریاوں کو فیڈ کرنے والے گلیشیروں کو سب سے زیادہ خطرہ پہاڑی علاقوں میں بلا روک و ٹوک آمد و رفت اور مذہبی یاتراوئں کو سیاست اور معیشت سے جوڑنے سے ہے۔ بھارتی حکومت نے حالانکہ ملک کے بیشتردریائوں اورندیوں کے منبع یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ اس طرح کے اقدامات کرتے ہوئے نہیںنظر آتی ہے۔ بھارت میں گلیشیرز کا ڈیٹا حاصل کرنا بھی خاصا مشکل ہے، کیونکہ یہ سرحدی علاقوں میں آتے ہیں اور وزارت دفاع و فوج ان علاقوں کے سروے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات ، قومی سلامتی کیلئے خطرات تو ہیں، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے اس سے بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ خطرہ کسی ایٹمی جنگ سے کم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر