وجود

... loading ...

وجود
وجود

کب سدھرے گا پاکستان اور اسکے سیاستدان

هفته 19 نومبر 2022 کب سدھرے گا پاکستان اور اسکے سیاستدان

پاکستانی سیاست یا اسکی سوسائٹی کے بارے میں میری معلومات بس میڈیا ، دوستوں یا نئی دہلی کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفود کے ساتھ ملاقاتوں تک ہی محدود ہیں ،لہذا اس محدود علم کے ساتھ اس ملک کے حالات و واقعات پر تبصرہ اور تجزیہ کرنا شاید ٹھیک نہیں ہوگا۔ مگر جس طرح کے حالات اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں، وہ پورے خطے کے لیے باعث تشویش ہیں۔ اگر یہ معاملات صرف پاکستان پر ہی اثرانداز ہوتے تو ان سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا، مگر کیا کریں اس ملک کے اندرونی حالات کا اثر پورے خطے پر پڑتا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں کئی ممالک نیپال سے لیکر سری لنکا و مالدیپ حتی ٰ کہ بھوٹان تک خطے میں توازن کے لیے پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ جس کا ادراک مجھے کئی بار سارک سربراہ یا وزراء خارجہ کی کانفرنس کو کور کرتے ہوئے ہوا ہے۔ مگر یا تو اس ملک کے اداروں، جن میں سیاستدان، فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ شامل ہیں، کو اپنی اس اہمیت کا اندازہ نہیں ہے یا اس ملک کی مٹی ہی ایسی ہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجود یہ ملک عدم استحکام سے دوچار ہے اور ابھی تک ادارے اپنے دائرہ اختیار کو متعین کرنے اور ریڈ لائنز کھنچنے سے قاصر ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ سازشی تھیوریز کو گھڑنا اور ان پر یقین کرنا اس ملک میں ایک قومی جنون بن چکا ہے۔ جب ایک سیاسی لیڈر پرکیمروں کے سامنے قاتلانہ حملہ کیا جاتاہے تو وہ بھی واقعہ سازشی تھیوریز کی نذر ہوجاتا ہے، جیسا کہ اس سے قبل لیاقت علی خان سے لیکر ضیاء الحق اوربے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوا ہے۔ تحقیق کرنے یا سچ کی کھوج لگانے کی کسی کو توفیق نہیں ہوتی ہے۔پاکستانی عوام و میڈیا بھی اس قدر مستقل عدم استحکام کے عادی ہوچکے ہیں کہ ان کو ہر وقت سنسنی خیز اطلاعات سننے اور بسا اوقات انتہائی غیر مصدقہ خبریں نشر کرنے میں لطف آتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مملکت خداداد کو چلانے کا کام واقعی خدا کے ہی حوالے کردیاگیا ہے۔
ایک دہائی قبل یروشلم شہر کے باب دمشق کے پاس چند بھارتی صحافیوں کی معیت میں ، میں بھی ایک دکان میں شاپنگ کر رہا تھا۔ جب معلوم ہوا کہ دکاندار فلسطینی عرب ہے، میرے ساتھیوں نے قیمتوں میں رعایت حاصل کروانے کے لیے کاونٹر پر بیٹھے سیلزمین سے میرا تعارف بطور کشمیری صحافی کے کروایا۔ اس کی آنکھوں میں واقعی ایک چمک سی آگئی اور اس نے چند اور دوستوں کو مجھ سے ملنے کے لیے بلایا۔ خیر علیک سلیک وغیرہ کے بعد ان میں سے ایک شخص کہنے لگا۔’’کہ آپ کشمیری تو ہماری نسبت خوش قسمت ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا ایسا کیونکر ہے۔ کیونکہ فلسطین کا مسئلہ چاہے حل ہو یا نہ ہو، دنیا کے تصور و تخیل میں کلیدی درجہ تو رکھتا ہے اور اس سے بھی زیادہ کہ اسرائیل خود اس کو ایک مسئلہ کے طور پر تسلیم تو کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا :’’آپ کی پشت پر ایک جوہری طاقت (پاکستان) ہے۔ ہمارے آس پاس کوئی ایسا ملک نہیں ہے، جو اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔‘‘ اس فلسطینی نوجوان کی باتوں نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، جس کا مجھے اس سے قبل ادراک کبھی نہیں تھا۔ ایک اور نوجوان ، جو کسی یونیورسٹی کا طالب علم تھا، کہنے لگا کہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن نہیں ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل کو من مانی کرنے کی شہ ملتی ہے۔ دسمبر 1996کو مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ کے نواح میں باراسات ضلع میں پاکستان انڈیا فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی کا ایک کنونشن منعقد ہوا تو اس میں شرکت کے لیے تقریباً 200کے قریب پاکستانی مندوبین آئے ہوئے تھے۔ پاکستانی صحافیوں، انسانی حقوق اور امن کے کارکنوںکا اس پیمانے پر بھارت میں اجتماع اس کے بعد شاید کبھی منعقد نہیں ہو سکا۔
اس کنونشن میں معروف کالم نویس مرحوم عطاء الرحمان بھی آئے ہوئے تھے۔ایک دن کانفرنس کیمپ کے باہر پاس کے ایک گاوں میں ان کے ساتھ گھومتے ہوئے ایک مسجد پر نظر پڑی۔ چونکہ نماز کا وقت بھی ہورہا تھا، اندر جاکر اور فراغت کے بعد عطا ء الرحمان صاحب نے امام صاحب کے پاس جاکر اپنا تعار ف کرایا اور ان سے پوچھا کہ کیسے حالات ہیں؟ امام صاحب نے چھوٹتے ہی کہا کہ بس آپ سے(پاکستان سے) بہتر ہیں۔ آپ کی طرح مسجدوں یا امام بارگاہوں میں ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتے ہیں۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد امام صاحب نے سر اٹھایا تو ان کا چہرہ آنسووں سے تر تھا۔ انہوں نے کہا’’افغانستان ، ترکی یا عرب ممالک اگر عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں ، وہ ان کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے، مگر پاکستان کا عدم استحکام اس کا اندرونی معاملہ نہیں رہتا ہے، ہم سب اسکی لپیٹ میں آتے ہیں۔ اپنے حکمرانوں سے جاکر کہو، کہ ایک پر امن، مستحکم اور مضبوط پاکستان ، اس خطے کی اشد ضرورت ہے۔بھارت میں مسلمانوں کو پاکستان کے ساتھ ہزاروں شکا ئتیںہیں۔ انکو اس ملک کی حالت کے لیے طعنے سہنے پڑتے ہیں۔ انکی لوکیلیٹیز کو اکثر پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اس لوکیلٹی میں شہری سہولیات کا فقدان اور پسماندگی ہوگی۔ ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں جب بھی کسی کو یعنی سویلین حکومت، صدر، عدلیہ، ملٹری و میڈیا کو طاقت ملتی ہے، تو وہ اپنے آپ سے باہر ہو جاتا ہے؟وزیر اعظم کے پاس جب بھاری منڈیٹ ہوگا تو وہ بیک جنبش قلم آرمی چیف کو برطرف کریگا۔ پھر اپنی مرضی کے دوسرے آرمی چیف سے بھی ناراض ہوکر اس کو ایسے وقت برطرف کریگا جب وہ ایک غیر ملکی دورے سے واپس آرہا ہوتا ہے اور مسافروں سے بھری فلائٹ کو اترنے کی اجازت ہی نہیں دی جائیگی۔ جب عدالت کا فیصلہ اس وزیراعظم کے خلاف آئیگا تو اسکے حامی عدالت پر ہی چڑھ دوڑ کر چیف جسٹس کی جان کے درپے ہوجائیں گے
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر