وجود

... loading ...

وجود
وجود

چین و امریکا تعلقات کی بہتری کا اندازہ

هفته 19 نومبر 2022 چین و امریکا تعلقات کی بہتری کا اندازہ

انڈونیشیاکے جزیرے بالی میں جی 20سربراہی اجلاس ختم ہو چکا ہے اِ س دفعہ تنظیم کے شرکا نے دنیا کے اصل مسائل ایٹمی عدم پھیلائو،ماحولیاتی تبدیلیوںاور دہشت گردی جیسے مسائل پر دھیان دینے کی بجائے روس اور یوکرین جھڑپوں پر زیادہ توجہ دی مگر کیونکہ روس بھی اِس تنظیم کا ممبر ہے اسی لیے کوشش کے باوجودمتفقہ مذمتی قرارداد پاس ہونے کی نوبت نہ آسکی ساری دنیا کی نظریں اجلاس میں شامل امریکی صدربائیڈن کی چینی ہم منصب شی جن پنگ کی ہونے والی ملاقات اور نتائج پر نظریں مرکوز رہیں آغازمیں ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید دونوں صدور کے درمیان مختصر سے ملاقات ہو مگر توقعات سے بڑھ کر دونوں مہمانوں نے گرمجوشی سے نہ صرف معانقہ کیا بلکہ ملاقات میں تمام امورپر کھلے دل سے تبادلہ خیال بھی کیااب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیاایک ملاقات سے امریکہ وچین تعلقات بہتر ہوجائیں گے اور جنوبی چینی سمندر میں آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ ملکر امریکا اب روس اور چین کے خلاف اتحاد بنانے جیسی سرگرمیوں سے بازآجائے گا؟سفارتی ذرائع بظاہرسوالات کے حوالے سے بہتری کی کچھ زیادہ توقع نہیں رکھتے ہاں یہ ممکن ہے کہ تجارتی حوالے سے کسی حد تک بہتری آجائے کیونکہ مذاکرات سے تفصیہ طلب مسائل کا حل نکلتا ہے اور ناہموار تعلقات بھی ہموار ہوجاتے ہیں ۔
جوبائیڈن اور صدر شی کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے جولفظی سوال وجواب شروع تھے بالی ملاقات کے بعد کسی حدتک دونوں طرف نرمی محسوس کی جارہی ہے مگر یہ تصور کر لینا کہ سرد جنگ کا ماحول دوبارہ بننے کاخطرہ ٹل گیا ہے ایسا اندازہ لگانایا توقع رکھنا ابھی قبل ازوقت ہے کیونکہ براہ راست ٹکرائو کی بجائے دنیا میں پراکسی سے کام لینے کارجحان فروغ پذیر ہے اسی بنا پر امریکا کی طرف سے سامنے آئے بغیر چین کا گھیرائو کرنے کی پالیسی پر عمل کرنے کا مکان بڑھ گیا ہے اپنے مہروں کو آگے بڑھا کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنازیادہ سود مند ہوگا کیونکہ وہ براہ راست نقصان اُٹھانے سے محفوظ رہے گا ۔
ملاقات سے قبل جوبائیڈن نے کہا کہ امریکہ کو چین کے ساتھ تنازع میں نہیں گھسیٹا جائے گا جواب میں صدر شی نے بھی توقع ظاہر کی کہ ملاقات کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے اور دونوں ممالک کے تعلقات واپس معمول پر آجائیں گے مگر یہ کہنا جتنا آسان ہے عملی طور پر اُس سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ جب صدر شی کہتے ہیں کہ چین و امریکا روابط اور سفارتی تعلقات قیام سے لیکر آج تک پچاس برسوں میں فوائد ،نقصانات اور تجربات کے ساتھ کئی نشیب وفراز سے گزرے ہیں اِس لیے ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی طرف نظر رکھنی چاہیے دراصل یہ سبق سیکھنے اور مستقبل پر نظر رکھنے کی بات دوسرے فریق کو سنائی گئی ہے اسی طرح جوبائیڈن نے صدر شی سے اگلی براہ راست ملاقات میں بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے جارحانہ انداز کو سنبھالنے سے متعلق معلومات لینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے انھیں پریشانی یہ ہے کہ ویتنام،تائیوان،فلپائن،ملائیشیااور برونائی کے آبی علاقوں میں نہ صرف چین نے مصنوعی جزائر تعمیر کرنے کے بعداُن پر فوجی اڈے بھی بنا لیے ہیں اِس حوالے سے انھوں نے اپنے قریبی حامی ممالک جاپانی وزیرِ اعظم فومیوکشید اور جنوبی کوریاکے صدر یون سیوک یول سے الگ الگ ملاقاتوں میں تحفظات سے آگاہی لے لی ہے مگر جزائر اور اڈے بنانے کے حوالے سے چین کا دوٹوک موقف ہے کہ اُس نے کوئی تجاوز نہیں کیا بلکہ اپنے علاقوں پر فوجی موجودگی یقینی بنائی ہے اسی لیے چین و امریکا تعلقات کی بہتری کا اندازہ غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ ایک سے زائد ایسے مسائل ہیں جن پر دونوں ممالک کے مفادات ایک دوسرے کی ضد ہیں مثلاََ چین تائیوان کو پہلی سرخ لکیر قرار دیتے ہوئے اِسے پار نہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے مگر امریکہ ایسا کرنے کی بجائے تائیوان سے ایک آزاد و خود مختار ملک جیسے تعلقات قائم کرنے پر بضد ہے بحرالکاہل میں دونوں ملکوں کے دفاعی اہداف میں دیگربھی تضادات ہیں علاوہ ازیں چین کا مقابلہ کرنے کا امریکی عزم بھی چین و امریکہ تعلقات کی بہتری کے اندازوں کو جھٹلاتاہے نیز چین کے گھیرائو کے لیے امریکہ کی طرف سے بھارت کوتھپکی بھی دونوں ممالک کے بہتر ہوتے تعلقات کی تائید نہیں کرتی ۔
چین و امریکا تعلقات کی بہتری کے اندازے کو بھارت کی دفاعی تیاریاں جھٹلانے کے لیے کافی ہے حالانکہ یہ عیاں حقیقت ہے کہ بھارت و چین کا دفاعی موازنہ درست نہیں کیونکہ چین کو ہر حوالے سے بھارت پر واضح طور پر برتری حاصل ہے مگر روس اور یوکرین کی طرح بھارت و چین ٹکرائو بھی امریکی تشنہ آرزو ہے اِس حوالے سے نئے علاقائی اتحاد تشکیل دینے کے ساتھ بھارت کو اقتصادی ،تجارتی ،معاشی اوردفاعی حوالے سے مضبوط تر کیا جارہا ہے اگر جوبائیڈن اور شی جن پنگ کی خوشگوار ماحول میں ملاقات اور گفتگو ہوئی ہے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جی ٹونٹی اجلاس میں شرکت کے باوجود نریندر مودی اور شی جن پنگ ملاقات طے نہ پا سکی اور دونوں نے کھڑے کھڑے چندلمحے ایک دوسرے کو دیے شنگھائی کانفرنس میں بھی دونوں کی ملاقات کرانے کی کوششیں ناکامی سے دوچارہوئیں اسی بنا پر ایسے قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ امریکانے خود سامنے آنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے بطور مہرہ بھارت کو آگے رکھنے کاحتمی فیصلہ کر لیا ہے بھارت بھی اِس پالیسی کو قبول کرچکااور بطور مہرہ کام کرنے پر راضی ہے اور وہ درپردہ اِس کی تیاریوں میں بھی مصروف ہے تاکہ ٹکرائو کی نوبت آئے تو ماضی کی طرح نقصان اور سُبکی کا سامناکرنے سے بچ جائے۔
چین و بھارت میں بظاہر تجارتی تعلقات فروغ پزیر ہیں اِس کے باوجودمشرقی لداخ میں کشیدگی کے پیشِ نظر خاموشی سے بھارت نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی)کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کے کئی منصوبے مکمل کر لیے ہیں وزارتِ دفاع کے حکم پر بارڈر روڈز آرگنائزیشن (بی آر او)نے ساٹھ کلو میٹر سے زائد سٹرکیں ،693مستقل پُل (جن کی لمبائی 53000میٹرہے)بن چکے 19کلومیٹر کے فاصلے کے ساتھ چار سرنگیں بھی بنائی گئی ہیں نئے مکمل ہونے والے منصوبوں میں ایک اہم منصوبہ دس ہزار فٹ بلند9.02 کلومیٹر پر محیط اٹل ٹنل ہے جو ہماچل پردیش کے علاقے منالی کو مغربی لداخ اور زنسکار وادی کو جوڑنے کا متبادل راستہ ہے اِس کے ساتھ 298 کلومیٹر لمبی ایک اور سڑک بنانے کے منصوبے پربھی کام ہورہا ہے یہ سٹرک2026تک مکمل ہوجائے گی اِس حوالے سے بتانے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اِس سڑک کی افادیت بڑھانے کے لیے 4.1 کی جڑواں ٹیوب سرنگ بنانے پر بھی کام جاری ہے جن کی تکمیل سے یہ سڑک ہر موسم میں رابطہ فراہم کرنے کے قابل ہو جائے گی سرنگوں ،غاروں کے علاوہ زیرِ زمین گولہ بارود رکھنے کے لیے حفاظت گاہیں بنانے کاکام بھی ہنگامی بنیادوں پر جاری ہے یہ سرگرمیاں امن پسندانہ ہر گزنہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں اور پراکسی کے تاثر کو تقویت دیتی ہیں۔
بھارت آمدہ برس جی ٹونٹی کی صدارت کا منصب بھی سنبھالنے والا ہے حالیہ بالی اجلاس کے دوران انڈونیشیا نے علامتی صدارت اُس کے سپرد کر دی ہے اِس تنظیم کے رُکن ممالک کی آبادی دنیا کا ساٹھ فیصد اور جی ڈی پی میں حصہ 80فیصد ہے اِس کے ممبران میں روس اور چین بھی شامل ہیں اِس لیے بھلے کوئی رُکن ملک اِس تنظیم کی وساطت سے چین کی مذمت تو نہ کر سکے مگر بھارت کسی حد تک فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آجائے گااسی بناپر کہہ سکتے ہیں کہ چین و امریکا مخاصمت میں عملی طورپر کمی آنے کا امکان کم ہے اور اب امریکا خود سامنے آئے بغیر بھارت کے کندھے پر رکھ کر محاذ آرائی کی بندوق چلاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر