وجود

... loading ...

وجود
وجود

alimrj

جمعه 18 نومبر 2022 alimrj

دوستو،زیادہ پرانی بات نہیں، رواں سال کا ہی ذکر ہے، اچانک مہنگائی ، مہنگائی کا شور کرکے اچانک ایک بڑی تبدیلی کی گئی اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد لاکر وزیراعظم عمران خان کو ہٹادیاگیا۔۔ یہ اپریل کا مہینہ تھا اور ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا۔۔ تب سے اب تک سات ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، لیکن مہنگائی کا شور کہیں بھی سننے میں نہیں آرہا۔۔ لفافی میڈیا منہ میں نوٹ دبائے خاموش بیٹھا ہے، بڑے بڑے طرم خان اینکرز اور صحافی جو روزانہ مہنگائی، مہنگائی کرکے دھمالیں ڈالتے تھے، اب ان کے گھنگرو ٹوٹ چکے ہیں۔۔ باباجی فرماتے ہیں،پاکستان میں ایک ایسی گندی نسل آباد ہے جسے 390 روپے کلو والا گھی مہنگا لگتا تھا 615 والا سستا لگتا ہے۔۔ 150روپے لیٹر والا پیٹرول مہنگا لگتا تھا 224 والا سستا لگتا ہے۔۔ 260 والا چکن مہنگا لگتا تھا لیکن 600 روپے والا سستا لگتا ہے ۔۔جسے 55 روپے کلو والا آٹا مہنگا لگتا تھا لیکن 85 روپے کلو والا سستا لگتا ہے 176 والا ڈالر مہنگا لگتا تھا لیکن 222 روپے کا سستا لگتا ہے 10 روپے والی بجلی مہنگی لگتی تھی لیکن 25 روپے والی سستی لگتی ہے 800 روپے سیمنٹ کی بوری مہنگی لگتی تھی لیکن 1100 کی سستی لگ رہی ہے 140 روپے کلو چاول مہنگا لگتا تھا لیکن 250 روپے کلو والا سستا لگ رہا ہے 180 روپے کلو دال مہنگی لگتی تھی 350 روپے کلو میں سستی لگ رہی ہے دوائیاں پہلے مہنگی لگ رہیں تھیں لیکن اب 50 فیصد اضافے کے بعد سستی لگ رہی ہیں 84 ہزار والی موٹر سائیکل مہنگی لگ رہی تھی 1 لاکھ دس ہزار والی سستی لگتی ہے پہلے IMF سے قرض لینا بھیک لگ رہا تھا اب قرض لینا بہن کا حق مہر لگ رہا ہے ۔اسٹاک مارکیٹ 48000 پوائنٹس معیشت کی تباہی لگتے تھے لیکن 42000 پوائنٹس ترقی لگتے ہیں ۔جی ڈی پی 6 فیصد معیشت کا اختتام لگتے تھے لیکن 4 فیصد جی ڈی پی ترقی لگتی ہے ۔خزانے میں پڑے ساڑھے 22 ارب ڈالرز خزانہ خالی لگتے تھے اور دس ارب ڈالرز رہ جانا دولت میں اضافہ لگ رہے ہیں ایکسپورٹس میں تاریخی اضافہ بربادی لگ رہا تھا لیکن ایکسپورٹس انڈسٹری کو تالے لگنا خوشحالی لگ رہا ہے۔۔
جب مہنگائی کا جن کسی طرح قابونہیں آیا تو حکومت نے اپنے ہی وزیرخزانہ کے خلاف عدم اعتماد کرکے لندن سے ڈار صاحب کو بلالیا تاکہ ڈالر کو کنٹرول کیا جاسکے، حکومت کے خیال میں ڈالر قابو آگیا تو مہنگائی کا جن بھی قابو آجائے گا، ڈار صاحب نے وطن واپسی سے قبل خوب بڑھکیں ماریں، وہ پاکستان آئے، وزارت خزانہ سنبھالی لیکن معاملات جوں کے توں ہیں بلکہ معاشی اشاریہ مزید سنگینی ظاہر کررہے ہیں۔۔کئی روز ہوگئے، ڈار صاحب بھی منظر سے غائب ہوگئے،شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ میڈیا پر مہنگائی کی جگہ دیگر معاملات چھائے ہوئے ہیں، باباجی کا کہنا ہے کہ اگر ڈار صاحب اگلے اڑتالیس گھنٹے میں میڈیا پر دکھائی نہ دیئے تو وہ کسی بڑے اخبار میں تلاش گمشدہ کا اشتہار دے ڈالیں گے۔۔کہتے ہیں کہ ۔۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں دیکھتے ہی منہ بن جاتا ہے، کچھ کی شکلیں دیکھ کر نجانے کیوں لگتا ہے کہ یہ انسان برسوں سے کسی پریشانی کا شکار ہے۔۔۔کچھ چہرے دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ موصوف نے کبھی کھل کر’’اجابتـ‘‘ نہیں کی۔۔بعض چہرے دیکھ کر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔آپ بھی اپنے آس پاس چہروں کا ـ’’مطالعہ‘‘ شروع کردیں تو یقینی طور پر آپ کے’’مشاہدے‘‘ میں بھی بیش قدر اضافہ ہوگا۔۔ہمارے کہنے پر ایک بار اسحاق ڈار کے چہرے کا مشاہدہ بھی ضرور کیجئے گا۔۔وزیر تو کسی سائیڈ سے لگتا ہی نہیں۔۔ لگتا ہے کسی چوہدری کا ’’ منشی‘‘ ہے۔۔ویسے شکلیں تو اللہ پاک کی دین ہیں، کبھی انہیں برا نہیں کہنا چاہیئے لیکن پھر بھی بدقسمتی سے چہروں کا ہماری زندگی میں کافی عمل دخل ہوتا ہے۔۔ بعض لوگ ہمیں اچھے نہیں لگتے، جو لگتے ہیں وہ کبھی قریب نہیں لگتے۔ اور کچھ کو تو دیکھ کر کنی کترانے کا دل کرتا ہے۔۔ڈار صاحب موجودہ کابینہ کے واحد وزیرہیں جو جب چاہیں پوری قوم کو ـ’’ تختہ ڈار‘‘ پر لٹکا سکتے ہیں۔۔ہمیں ڈار صاحب پنجاب کے ’’ شیخ‘‘ لگتے ہیں، یہی شیخ قوم جب کراچی میں ہوتی ہے تو انہیں اپنی عادات و اطوار کے حساب سے ’’ میمن ‘‘ کہاجاتا ہے۔شیخ اور میمنوں میں ایک خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے وہ ہے ان کی کنجوسی۔۔ان کی جیب سے پیسے نکلوانا کشمیر آزاد کرانے کے برابر ہوتا ہے۔ایک بار ایک میمن کو اس کی بیوی نے ایس ایم ایس کیا۔۔ جانو میں جس جہاز پر ہوں وہ لینڈ کرتے ہوئے گرنے والا ہے۔۔شوہر نے فوری جواب دیا۔۔ تم ایک کام کرو زلیخا ، جلدی سے اپنا بیلنس میرے نمبر پر بھیج دو۔۔ ہمارا ایک دوست ’’شیخ‘‘ ہے۔۔ایک دن ایک آنکھ پر ہاتھ رکھے جارہا تھا۔۔تشویش ہوئی ،پوچھا۔۔ خیرتو ہے،آنکھ میں درد ہے یا کوئی اور تکلیف۔۔ وہ کہنے لگا۔۔جب ایک آنکھ سے نظر آجاتا ہے تو پھر دوسری آنکھ استعمال کرنے کا کیا فائدہ؟؟
بات ہورہی تھی اسحاق ڈار صاحب کی۔۔بچپن سے بہت تیزدماغ پایا۔۔دروازے پر دستک ہوئی۔والد نے کہا ، دیکھو دروازے پر کون ہے؟ اسحاق ڈار نے دروازے پر جاکر ملاقاتی سے پوچھا، آپ کون ہیں، اس نے اپنا نام ریاض بتایا۔ ڈارصاحب نے نے واپس آکر کہا:’’ابا جان! باہر سعودی عرب کے دارالخلافہ کھڑے ہیں۔ایک بار ان کی بلی نے اون کا گولہ کھالیا۔۔تو اپنی امی کو کہنے لگے۔۔امی امی۔۔اب ہماری بلی کے بچے سوئیٹر پہن کے پیدا ہوں گے۔اپنے والد کے ساتھ بازار میں جارہے تھے کہ ٹھیلے والے آوازلگائی۔۔لنگڑا آم چالیس روپے کلو لے لو۔۔انہوں نے ٹھیلے والے سے معصومیت سے پوچھا ۔۔ اور دو ٹانگوں والے آم کتنے کے ہیں؟۔۔کلاس میں ٹیچر نے جب ڈار صاحب سے سیب کافائدہ پوچھاتو وہ کہنے لگے۔۔پھل والا اسے بیچ کر پیسہ کماتا ہے۔۔ٹیچر غصے سے کہا میں نے ’’ایپل‘‘ سے متعلق پوچھا ہے۔۔ ڈار نے اسی معصومیت سے جواب دیا۔۔ ’’ایپل‘‘ کے کیمرے اچھے نہیں ہوتے،سیلفی اچھی نہیں بنتی۔۔ ایک دن ڈار صاحب نے اپنی اہلیہ سے شدید شکوہ کیا۔۔ آخر کب تک تم میرے بلیڈ سے بچوں کی پنسلیں تراشتی رہوگی۔۔بیگم نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔ جب تک تم میری لپ اسٹک سے بچوں کی کاپیاں چیک کرتے رہوگے۔۔ڈار صاحب ایک دن اپنے نوکر پر برس پڑے ۔۔شرفو یہ تم نے کیسی چائے بنائی ہے؟۔۔نوکرنے جواب دیا۔۔جناب! آپ نے کہا تھا جب دودھ نہ ہو تو ملک پاؤڈر سے بنالیا کرو۔ آج ملک پاؤڈر بھی نہیں تھا، سو میں نے ٹالکم پاؤڈر سے بنالی۔۔ڈار صاحب نے دوست کو گھرمدعوکیا۔۔سوپ پیش کیا تو اس میں مکھی تیررہی تھی۔۔دوست نے کہا۔۔یارڈار تیرے سوپ میں مکھی تیررہی ہے۔۔جس پر وہ مسکرا کربولے۔۔ دل وڈا ہونا چاہیے مکھی نے کتنا سوپ پی لینا ہے ۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔انتقام یا بدلہ لینے پر اپنا وقت ضائع نہ کرو جو تم سے نفرت کرتے ہیں، اس نفرت کی آگ ہی اُن کی سب سے بڑی سزا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر