وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان کا سیاسی،معاشی بحران۔۔وجوہات اور حل

منگل 15 نومبر 2022 پاکستان کا سیاسی،معاشی بحران۔۔وجوہات اور حل

پاکستان2018کے انتخابات کے بعد سے پاکستانی سیاست اور معیشت مسلسل بے یقینی اور بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ عام آدمی کی زندگی جہاں مہنگائی، بیروزگاری اور اقتصادی حالات نے مشکل تر بنا دی ہے، وہیں عوامی سطح پر مخالفت برائے مخالفت سے بھرپور سیاسی دھڑے بندیوں نے بھی قوم میں معاشرتی بگاڑ پیدا کیا ہے۔ 2022ء کے آغاز سے ہی پاکستان شدید نوعیت کے اقتصادی ومعاشی بحران کا شکار ہے جبکہ نام نہادپاپولر سیاسی جماعتوں کی اقتدار کے لیے جنگ اور رسہ کشی دن بہ دن گھمبیر شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ سویلین بالادستی کی خواہش رکھنے والی جماعتیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مدد کے لیے سرگرداں ہیں اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہیں جبکہ عوام دن بہ دن غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے باعث مسائل کے دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے۔ اس سیاسی خلفشار، محاذ آرائی اور بیہودہ بیانیوں کے نتیجے میں پاکستان ایک ایسے کثیر الجہتی بحران کی لپیٹ میں ہے، جس سے نکلنے کی کوئی راہ حکمران طبقوں کو نہیں سوجھ رہی۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو موردِ الزام ٹھہراکر ملک کو ایک نئے بحران کے حوالے کرکے رخصت ہوجاتی ہے۔ ایسے میں غریب عوام جائیں تو کہاں جائیں،مہنگائی، افراط زر اور معاشی بحران کا زیادہ تر بوجھ مختلف ٹیکسز اور یوٹیلٹی بلز کی صورت میں آئے روز ہوشربا اضافوں کے ذریعے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔گزشتہ چار برس کے دوران روپے کی قدرنصف رہ گئی ہے۔ ایسے میں اجرت اورتنخواہوں میں اضافہ کم از کم 50 فیصد توہونا چاہیئے تھا جس کی طرف کسی کی کم ہی توجہ ہے۔ لمحہ موجود میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی بحران ہے یا معاشی عدم استحکام؟ ملک کے کرتا دھرتاؤں سے عوام کی کیا توقعات ہیں؟ فوری توجہ اقتصادی بحالی پر ہویا سیاسی استحکام پر؟ اس حوالے سے عام پاکستانی مشکل کیفیت میں ہے، ایک طرف کنواں ہے اوردوسری طرف کھائی ہے۔کرے تو کیا نہ کرے تو کیا۔ پاکستانی عوام کاسب سے بڑا مسئلہ معیشت کے بحران کا ہے۔ عوام کو نہ تو روزگار میسر ہے اور نہ ہی ریاست کی طرف سے کوئی مدد۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قدر، مہنگائی اورپٹرولیم کی قیمتوں میں مسلسل اضافے، بجلی کے نرخوں اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے عوام کا جینا مشکل بنادیا ہے۔لوگوں کے منہ میں کوئی لقمہ جائے تب ہی کوئی سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں سوچے۔عام شہری کے لیے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اورملکی معیشت بدقسمتی سے بحران در بحران کا شکار ہے، عام شہریوں کی گذر بسرمشکل ہوتی ہے۔ مقتدر حلقے اور سیاست دان اس کا ادراک رکھنے کے باوجودعملاً چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ سیاسی استحکام ہی بہتر معیشت کا ضامن ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد کی رہائشی ایک عمر رسیدہ خاتون کہتی ہیں “اب تو غریب شہری کو جینے کا کوئی حق ہی نہیں’’۔ خاتون کے بقول ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔شوہر کی وفات کو دس سال ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے گھر کی دال روٹی پوری کریں یا یہ سوچیں کہ سیاست پہلے ہے یا معیشت۔ ان کے مطابق سول حکمران ہوں یا فوجی حکمران، ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے سب ذمہ دار ہیں، اس ملک میں غریب آدمی کے لیے نہ روٹی ہے، نہ کپڑا اور نہ ہی روزگار۔ خاتون نے اپنا زخمی ہاتھ دکھایااور کہا، ’’میری عمر تو لوگوں کے برتن مانجھتے مانجھتے گزر گئی لیکن آج تک اپنا کچھ نہیں بنا سکی۔ بس ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ ملک تو صرف غریبوں کا خون چوسنے کے لیے بنایا گیا ہو‘‘۔
پاکستان میں مہنگائی کی شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ فوجی حکمران ہوں یاسول حکومتیں (ن لیگ، پی پی پی، پی ٹی آئی کی سابق حکومتیں) یا پھر موجودہ اتحادی حکومت، ملکی معیشت کوورلڈ بنک اورآئی ایم ایف کے ہاتھوںگروی رکھ کر تباہ کرنے اور عوام پرظلم و جبرکے یہ سب ذمہ دار ہیں۔ ایجنڈے کے تحت ملک و قوم کو ملکی و غیرملکی مافیاز کے حوالے کردیا گیا ہے۔استعماری طاقتیں پاکستان میں عدم استحکام کی ذمہ دار ہیں۔حکمران قوم میں تقسیم درتقسیم کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ بیرونِ ملک بنکوں،آف شورکمپنیوں میں لوٹی ہوئی ملکی دولت اور اثاثے رکھنااور عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت کی دلدل میں دھکیلنا اور عوامی خیرخواہی کی بات کرنا ملک و قوم سے سنگین مذاق اور غداری ہے۔ قومی ادارہ شماریات کے مطابق جولائی میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 14 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 24 اعشاریہ 9 فیصد پر پہنچ گئی۔اگست میں یہ شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 42 اعشاریہ 31 فیصد ہوگئی۔ملکی معیشت مسلسل گڑھے میں گرتی جا رہی ہے اور نام نہاد پاپولر سیاسی جماعتیں باہمی سیاسی اختلافات کو عدلیہ کی دہلیز پرحل کرانے اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔عوام کی فکر کسی کو نہیں۔ایسے میں سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کیسے حاصل ہوئی؟ جدید دور کی ریاست میں سیاست اور معیشت آپس میں جڑی ہوتی ہیں اور اسے پولیٹیکل اکانومی یعنی سیاسی معیشت کہا جاتا ہے۔ان میں سے ایک مضبوط اور دوسری کمزور ہو، یہ بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔ سیاسی عدم استحکام کی کچھ وجوہات میں سے ایک ملک کا سکیورٹی اسٹیٹ ہونا بھی ہے۔ پاکستان ایک جوہری طاقت ہونے کے باعث عسکری طور پر تو مضبوط ہے مگر سیاسی معیشت عسکری پالیسیوں کی تابع بھی ہے۔اسی لیے انسانی وسائل کی ترقی عدم توجہ کا شکار ہے۔جب تک فوج، عدلیہ اور نوکرشاہی سیاسی معیشت کا استحکام یقینی بنانے پر مجبور نہیں ہوں گی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال جاری رہیں گے۔
سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی غیرضروری اور بے جا مداخلت ملک میں معاشی عدم استحکام اور عام آدمی کی مشکلات کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔معیشت اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جب تک جمہوریت اور سیاست میں استحکام نہیں آتا، معیشت کی حالت نازک ہی رہے گی۔ فوجی آمر پرویز مشرف کے دور کا اقتصادی بلبلہ جب پھٹا تو دو جمہوری حکومتوں نے اسے سنبھالا دیا، مگر خود ان حکومتوں کوسنبھلنے نہیں دیا گیا۔ ’’ہائبرڈ رجیم‘‘ نے معیشت کا جو حشر کیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ معیشت کوٹیکنوکریٹس نے ٹھیک کرنا ہے یاعدلیہ نے یا اسٹیبلشمنٹ نے یا کسی اور نے؟ دنیا بھر میں تو یہ معاملات عوامی مینڈیٹ رکھنے والے سیاست دان ہی دیکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اْلٹی گنگا بہتی ہے۔ سی پیک منصوبے کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔ سوشل میڈیا کی نئی جہتوں نے بھی قومی سیاسی بحران کو بڑھایا ہے اور جو کچھ سوشل میڈیا پرکہا یا دکھایا جارہا ہے وہ بغیر کسی سنسر کے سامنے آتا ہے۔ جھوٹ کا غلبہ ہے۔جہاں سچائی کے پہلو ہونے چاہئیں وہاں بھی پروپیگنڈاجاری ہوتاہے۔
داخلی اور خارجی سطح پر ایسے کئی انفرادی یا اجتماعی افراد یا گروہ ہیں جو پاکستان میں سیاست اور اداروں کے درمیان موجود لڑائی کومزید گہرا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ٹکرائوکی سیاست کو اور زیادہ نمایاں کیا جاسکے۔ ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار کے تناظر میں ہمیں اپنے سیاسی اور معاشی بحران کو بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں،کس سمت محوِ سفر ہیں اور اس کی وجوہات یا عوامل کیا ہیں؟ اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ ہم محض داخلی بحران کا شکار نہیں بلکہ ہمیں علاقائی اور عالمی سطح پر بہت سے ایسے چیلنجز کاسامنا ہے جو ہم سے زیادہ سنجیدگی کا تقاضہ کرتے ہیں۔داخلی استحکام کی موجودگی اورٹکرائو کی سیاست کے خاتمے کو بنیاد بنا کر ہی ہم علاقائی اور عالمی سیاست سے جڑے معاملات سے نمٹنے کے لیے اپنا روڈ میپ ترتیب دے سکتے ہیں۔
داخلی محاذ پر ٹکرائوکی سیاست کی جو مہم عرصہ دراز سے جاری ہے اس میں ہم خود کتنے ذمے دار ہیں اورہماری کونسی ایسی پالیسیاں ہیں جو ان مسائل میں شدت کاسبب ہیں۔محض جذباتیت یا ردعمل کی سیاست کو بنیاد بنا کر قومی مسائل سے نمٹنا ممکن نہیں۔اسی طرح اگر طاقت کے بل بوتے پر سیاسی مخالفین کو ختم کیا جاسکتا ہے تو یہ محض خوش فہمی ہی ہوسکتی ہے۔داخلی مسائل کی الجھنوں نے ہمیں جہاں ایک بڑے سیاسی گرداب میں پھنسا دیا ہے، وہیں علاقائی یا عالمی سیاست سے جڑے مسائل پر ہماری توجہ کا ہٹنا خود ہمارے لیے اس سطح پر بھی مسائل کو پیدا کررہا ہے۔ معاشی مسائل کاحل ملک میں سیاسی استحکام اور سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔کوئی روایتی اور وقتی پالیسی ملک و قوم کو موجودہ سیاسی، معاشی بحرانوں سے نہیں نکال پائے گی۔سیاسی مسائل کو نظر انداز کرکے معاشی ترقی کا حل ڈھونڈنا دیوانے بڑ تو ہوسکتی ہے، درست تجزیہ نہیں۔مضبوط اور مربوط سیاسی صف بندی اور اہم قومی سیاسی اور معاشی معاملات پرقومی قیادت اتفاق رائے سیہی ہم بحیثیت قوم موجودہ سیاسی، معاشی بحرانوں پر پائیدارانداز میں قابو پا سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک قومی سیاسی قیادت، فوجی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سول بیوروکریسی سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے ملکی نظام کوبہتر بنانے سے متعلق کسی سنجیدہ فیصلہ پرمتفق نہیں ہوتے، تب تک ملک میں سیاسی، معاشی استحکام کی توقع دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔عوام اِن نام نہاد سیاسی جماعتوں کو ووٹ دے دے کر بے زارہوچکے ہیں، عام آدمی کے حالات بدلنے کا دور دور تک کوئی امکان نظرنہیں آتا،کوئی انقلاب ہی عوامی جذبات واحساسات کی ترجمانی کا سبب بنے تو بنیاور حالات سدھریں تو سدھریں، تاریخ کا سبق یہی ہے کہ حالات تب تک بدلتے ہیں اور نہ سدھرتے ہیں جب تک عوام خود حالات بدلنے اور سدھارنے کیلئے تیار نہ ہوں۔
بقول مولانا ظفرعلی خان
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
جماعتِ اسلامی کا اِس حوالے سے موقف بالکل واضح ہے کہ ملک میں سیاسی، اقتصادی استحکام لانا ہے تو بلاامتیاز ملک سے کرپشن، ناانصافی، غربت،بے روزگاری کا خاتمہ ہو، بداخلاقی، بدتہذیبی پر مبنی سیاسی کلچر کی حوصلہ شکنی ہو اورسیاسی معاملات میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی غیرضروری مداخلت کو بندکیا جائے۔ ضد، ہٹ دھرمی، انانیت اورنفرت پر مبنی رویہ ترک کرکے قومی معاملات پر قومی سیاسی قیادت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز متحدہوکرقومی بیانیہ اورمتفقہ قومی پالیسی تشکیل دیں۔آزادانہ، غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے اقتدار کی حقیقی عوامی نمائندوں کو منتقلی ہی مسائل کا واحد اور پائیدارحل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر