وجود

... loading ...

وجود
وجود

موسمیاتی کانفرنس اور فیصلے

هفته 12 نومبر 2022 موسمیاتی کانفرنس اور فیصلے

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالہ سے عالمی سطح پر چند دہائیوں سے ہلچل ضرور ہے مگرجتنا زورتقاریر اور بیانات پر دیا جاتا ہے عملی طور میں کچھ خاص تحرک نظر نہیں آتا ہر اجلاس میں بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں اور پھر کچھ وعدے کرتے ہوئے فیصلے سنائے جاتے ہیں مگر وعدے ایفا ہی نہیں کیے جاتے دوم یہ کہ جو فیصلے کیے جاتے ہیں اُن پر عملدرآمد کی رفتارانتہائی سُست بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اسی وجہ سے ازہان میں یہ خیال تقویت پکڑ رہا ہے کہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کا ادراک محض کہنے کی حد تک ہے کیونکہ عملی طور پراخلاص کا اظہار نہیں ہورہا اگر ہوتا تو وعدوں کی پاسداری اور فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے موجودہ حالات نہ ہوتے بلکہ وعدوں کی پاسداری اور فیصلوں پر عملدرآمد کا بھی کوئی طریقہ کار طے کیاجاتا جس کی روشنی میں اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک کی حوصلہ افزائی یا اُن کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہابلکہ رویے سے بے نیازی جھلکتی ہے۔
FATF جیسی تنظیم نے ممبران ممالک کی طرف سے عہدوپیمان کے مطابق عملدرآمد کا جائزہ لینے کا ایسا طریقہ کار بنا رکھا ہے جس کے تحت جو ممبران تنظیم کے قواعد و ضوابط کی پاسداری نہیں کرتے اُن کا جائزہ لیکر ابتدا میں نام گرے لسٹ میں شامل کیاجاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اِس ملک پر نظر رکھی جائے گی عملدرآمد کے لیے چند نکات کی فہرست تھمائی جاتی ہے پھر بھی روش تبدیل نہ کرے تواِس پاداش میں بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اِس ملک کے آمدن کے زرائع میں شفافیت نہیں اِس بنا پر دیگر ملک تعاون یا شراکت داری سے احتیاط کرنے لگتے ہیں حالانکہ رقوم کی غیر قانونی منتقلی سے زیادہ دنیا کو خطرہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے کیونکہ موسمیاتی تبایلیوں سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں سات اور آٹھ نومبر کو منعقد ہونے والی دوروزہ سربراہی کانفرنس (کانفرنس آف دی پارٹیز )کوپ اختتام پذیر ہو چکی جس میں پاکستان کو بطور شریک صدر شامل ہونے کا موقع ملا اِس دوران وزیرِ اعظم شہباز شریف نے سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا مقدمہ پیش کیا مگر کیاموجودہ کانفرنس کے دوران ہونے والے معاہدوں اور وعدوں کی پاسداری ہو گی اقوامِ عالم کی غیر سنجیدگی کے تناظر میں اِس حوالے سے صدفی صد یقین سے ہاں میں جواب نہیں دیاجا سکتا ۔
اقوامِ متحدہ کی ستائیسویںموسمیاتی کانفرنس جسے کوپ 27کانام دیا گیا ہے میں کافی لچھے دار باتیں ہوئیں متاثرہ ممالک کی مدداور بحالی کے اعلانات بھی ہوئے یواین او کے سیکرٹری جنرل انتیونیوگوتریس نے بھی تمام ممالک کو تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا مگر اکثر امیر و ترقیافتہ ممالک کے کردارسے غیر سنجیدگی عیاں ہے اسی لیے کرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی حدت سے محفوظ رکھنے کے فیصلوں پرعمل بھی ہو گا کسی کو ایسا ہونے کا یقین نہیںکانفرنس میں ہونے والی باتیں گفتار تک محدود رہنے کا مکان زیادہ ہے حالانکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کُن اثرات اور مہلک وبائیں حقیقت کا روپ دھانے لگی ہیں جن کے توڑ کے لیے تمام اقوام کو کسی ٹھوس اور نتیجہ خیز یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوجانا چاہیے جو گفتار کے مطابق کردارکو یقینی بنائے وائے افسوس کہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔
حدت کی غیر معمولی لہر بارے اقوامِ متحدہ نے 5مئی 2018کو اپنی انتباہی رپورٹ میں پاکستان اور بھارت کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے امکان ظاہر کردیا تھا کہ مذکورہ ممالک میں نہ صرف ہزاروں اموات ہو سکتی ہیں بلکہ فضائی معیار گر نے کے علاوہ بجلی و پانی کے ساتھ زرعی پیداوار میں بھی کمی آ ئے گی جس سے بھوک و افلاس بڑھ سکتی ہے انتباہ کی روشنی میںضرورت اِس بات کی تھی کہ فوری طور پر احتیاطی تدابیر کی جاتیں اور زمہ دار ممالک اپنابھرپور کردار ادا کرتے مگر ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا اسی وجہ سے پاکستان کوتاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑاجے اسکاٹ لینڈ میں سی او پی 26کے تحت نومبر 2021 کے آغازمیں سو ممالک کے سربراہوں نے گلوبل وارمنگ 1.5 تک رکھنے اور جنگلات کے کٹائو کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم کیا مگر یہ عزم بھی صرف عزم تک ہی محدود رہا عملی طور پر بہت کم پیش رفت ہوئی حالانکہ بڑے پیمانے پر اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے لیکن ابھی تک مجرمانہ غفلت ترک نہیں کی گئی اور موسمیاتی سرمایہ کاری سے اجتناب کیا جارہا ہے امیر ممالک کی طرف سے ازالہ نقصان کے ضمن میں وعدے بھی بارباراپیلوں کے باجود پورے نہیں کیے جارہے ایسا طرزِ عمل ہی برقرار رہا توآئندہ تباہی کی لہرزیادہ شدید اور تباہ کُن ہو سکتی ہے جس کی لپیٹ میں صرف پاک بھارت ہی نہیں دیگر ممالک بھی آسکتے ہیں ۔
یہ جو زمینی درجہ حرارت میں اضافہ ہے اِس کے زمہ دار غریب ممالک نہیں بلکہ صنعتی طاقتیں ہیں جن کی غیر سنجیدگی سے زمین گرم ترین ہوتی جارہی ہے یو این اوکی رپورٹ کے مطابق 19ویں صدی کے اختتام سے لیکر اب تک درجہ حرارت میں اضافہ گیارہ ڈگری ریکارڈ کیا گیا اگرگزشتہ تیس برسوں کا جائزہ لیں تو اِس مختصر مدت میں اضافہ پچاس فیصد بنتا ہے جس میں کمی لانے کے لیے عالمی برادری کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے اور فضا سے آلودگی ختم کرنے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر درجہ حرارت میں اضافے کو کنٹرول کر لیا جائے تو گلیشئر کا پگھلائو بھی کم ہو جائے گا مگر صرف کہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا جب تک عملی طور پر اقدامات نہیں کیے جاتے ہو یہ رہا ہے کہ بہتری لانے کے اقدامات کی بجائے توانائی کے حصول اور صنعتی سرگرمیوں کے لیے کوئلے کا استعمال ایک بارپھر دوبارہ بڑھنے لگا ہے جو نہ صرف ہوا میں آلودگی کا باعث ہے بلکہ زمینی حدت میں بھی خطرناک حد تک اضافہ کی وجہ ہے اِس سے کمزور ممالک کا تو نقصان ہو ہی رہا ہے ترقیافتہ ممالک بھی متاثر ہو نے لگے ہیں عالمی اِدارہ صحت 2022 کے دوران یورپ میں گرم ترین موسم کی وجہ سے اب تک کم از کم پندرہ ہزار اموات ہو چکی ہیں اِس حوالے سے اسپین اور جرمنی کا شمارسرِ فہرست ممالک میں ہوتا ہے لہذایہ کہنا کہ نقصان صرف پاک بھارت کوہی ہوگا مکمل طور پر درست نہیں۔
یہ کہنا مبنی برحقیقت ہے کہ امیر ملکوں کی بے احتیاطیوں کی سزا غریب ممالک بھگت رہے ہیں حالانکہ غریب ملکوں کا کاربن کے اخراج میں حصہ بہت ہی کم ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام اقوام غیر سنجیدگی ترک کرتے ہوئے مل کر کام کریں اور موسمیاتی تبدیلیوں میں خطرناک حد تک تبدیلیوں کی رفتار کم کرنے میں حصہ لیںاِس کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف بروقت فیصلے کیے جائے بلکہ عمل درآمد پر توجہ بھی دی جائے اگر موجودہ صورتحال زیادہ دیر برقرار رہتی ہے تو کرہ ارض اِس حد تک گرم ہو جائے گا جو انسان سمیت ہر قسم کے جانداروں کی رہائش کے قابل نہیں رہے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر