وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان کی سیاست کا الگ روپ !

بدھ 09 نومبر 2022 بلوچستان کی سیاست کا الگ روپ !

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) بلوچستان کے اندر نری تضاد پر مبنی سیاست کررہی ہے، صوبے میں ناشائستہ سیاسی ماحول اورغیر موزوں حکومتی در و بست پی ڈی ایم ہی کا کارنامہ ہے، جام کمال عالیانی حکومت گرانے میں پی ڈی ایم اور تحریک انصاف ایک صفحے پر تھے، جہاں پی ڈی ایم، تحریک انصاف کے مقتدر حامی کی ہدایت اور اشاروں پر چل رہی تھی۔سردار اختر مینگل کی نفرت کی اور بھی وجوہات تھیں، جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی شعوری طور پر اس معیوب کھیل کا حصہ بنیں۔ صوبے میں 2018ء کو مسلم لیگ نواز، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کی حکومت کیخلاف بھی ان ہی کی رہنمائی میں عدم اعتماد کا حصہ بنیں۔ عوامی نیشنل پارٹی تب اس قبیل کی ہمکار تھی۔حیرت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر ہے کہ جن حلقوں نے ان کی حکومت کیخلاف سیاہ سیاست کا مظاہرہ کیا، ان ہی کا اکتوبر 2021ء میں جام کمال کے خلاف ساتھ دیا، جو الفاظ تحریک انصاف کے حامی لوگ دیتے ان کا رکن اسمبلی نصراللہ زیری بھی جے یو آئی، بی این پی اور عبدالقدوس بزنجو حلقہ کے اراکین اسمبلی کی دیکھا دیکھی ادا کرتا۔پشتونخوا میپ کا رکن اسمبلی بھی ہفتہ ڈیڑھ کلی الماس کے فارم ہائوس میں داخل رہا، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ساری بازی گری وہی لوگ کررہے تھے جنہوں نے صوبے میں مسلم لیگ ن، پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت گرائی تھی۔محمود خان اچکزئی نے ذرا بھی سوچ بچار نہ کی کہ ان کا رکن اسمبلی عبدالقدوس بزنجو غیرہ کی حکومت لانے کے گناہ میں کیوں شامل ہو، جے یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے پچھلی حکومت کی طرح اس بار بھی حزب اختلاف کے دکھاوے کا جامہ پہن رکھا ہے، تب کی طرح آج بھی پوری طرح حکومت کا حصہ ہیں، بڑے بڑے فنڈز لے چکے ہیں، افسر شاہی کے تقرر و تبادلے ان کی مرضی کے تحت ہورہے ہیں۔
گوادر میں حق دو تحریک نے پھر سے دھرنا دے دیا ہے تو متبادل بیانیہ اور ترقیاتی کاموں کا ڈنکا بی این پی کے حمل کلمتی بجا رہے ہیں، بیانات محکمہ تعلقات عامہ سے جاری ہوتے ہیں، اب بی این پی صوبے کے اندر گورنر کے منصب پر اپنی جماعت کا بندہ بٹھانے کی خواہاں ہے۔محمود خان اچکزئی نے پارٹی کے اندر تطہیر کا آغاز کر رکھا ہے، اچھا ہو گا کہ عبدالقدوس بزنجو حکومت کے قیام میں ساتھ دینے پر ندامت کا اظہار بھی کریں۔ نرالی جے یو آئی کی سیاست ہے کہ 2018ئ￿ میں صوبے کے اندر ن لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کی حکومت گرائی، عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنانے میں ساتھ دیا، جب جولائی 2018ء کو عام انتخابات ہوئے تو ان کے حافظ حمد اللہ نے ہاکی گرائونڈ جلسہ میں جس کی صدارت مولانا فضل الرحمان کررہے تھے کہا کہ یہ الیکشن کسی پریذائیڈنگ آفیسر اور آر او نے نہیں بلکہ بریگیڈیئر خالد فرید نے کرائے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان ’’نکے‘‘ کے ابا وغیرہ کے استہزائی لطیفے سنایا کرتے تھے، آج یہ حضرات اپنی تقاریر، بیانات، جلسوں اور طنزیہ لطیفوں سے مکر رہے ہیں۔سردار اختر مینگل موجودہ حکومت کا ساتھ بھی حصہ داری کی بنیاد پر دے رہے ہیں، حکومت میں حصہ لے رکھا ہے، گاہے بگاہے حکومت کو تڑیاں بھی دیتے رہتے ہیں، عمران حکومت کے قیام میں ساتھ دیا، موقع و محل دیکھ کر اس حکومت سے علیحدہ گئے۔ محمود خان اچکزئی کا البتہ ن لیگ کے ساتھ اتحاد میں نکتہ نظر واضح ہے، اچکزئی اپنی جماعت کے بعض سر کش افراد پر بھی واضح کرچکے ہیں کہ وہ پارٹی کے اس فیصلے سے انحراف کی کوشش نہ کریں۔
2013ء کی حکومت میں پشتونخوا میپ نے مرکزی حکومت میں وزارت نہیں لی تھی، تب عثمان کاکڑ مرحوم، محمود خان اچکزئی کے برعکس وفاقی حکومت اور پنجاب مخالف مؤقف متواتر دہراتے، جس سے پارٹی کے اندر غالب طور متوازی سوچ اور مؤقف کا تاثر اْبھرتا تھا۔چنانچہ اب محمود خان اچکزئی پارٹی کے اندر گروہ بندی کے سدباب اور تطہیر کے عمل پر گامزن ہیں اور پارٹی پالیسی میں تغیر لانا دکھائی د یتے ہیں، گویا جے یو آئی اور بی این پی کی برکت ہے کہ 2018ء کی مانند دوسری بار عبدالقدوس بزنجو صوبے اور عوام پر حکمران بنا دیئے گئے ہیں، پچھلی بار اس عمل میں عوامی نیشنل پارٹی شریک تھی اس بار پشتونخوا میپ نے اکلوتے رکن اسمبلی کے ساتھ حصہ ڈالا ہے۔گوادر میں حق دو تحریک نے 27 اکتوبر سے پھر دھرنا دے رکھا ہے، ’حق دو تحریک‘ کہتی ہے کہ ان سے کئے گئے معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے۔ حال یہ ہے کہ حکومت اسمبلی اجلاسوں میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی، اکتوبر 22 سے 27 تک منعقد ہونیوالے 5 اجلاسوں میں 4 اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی بناء پر ملتوی کرنے پڑے ہیں، یعنی حکومتی ارکان اسمبلی اجلاس کے حوالے سے قطعی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے 5 کو آرڈینیٹرز کی تقرری بھی عوامی حلقوں میں اچھا اقدام نہیں سمجھا جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر