وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا ’’حادثہ ‘‘کب ہوگا؟

جمعرات 27 اکتوبر 2022 کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا ’’حادثہ ‘‘کب ہوگا؟

 

اگر گزشتہ ہفتہ، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کراچی میں23 اکتوبر کو منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کیئے جانے کا غیر متوقع اعلان نہیں ہوتا تو اَب تک نہ صرف کراچی کے منتخب عوامی بلدیاتی اُمیدواروں کی کامیابی کا سرکاری نوٹیفیکیشن جاری ہوچکاہوتا بلکہ اگلے ایک ،دو ہفتوں میں میئر کراچی بھی بلدیہ عظمی کراچی میں اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے پَر تول رہے ہوتے ۔ مگر! !خاطر جمع رکھیئے کہ اَب ایسا کچھ نہیں ہونے والا کیونکہ الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی درخواست پر کراچی کے بلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیئے ہیں اور اِس اعلان کے ساتھ ہی اہلیانِ کراچی کا اپنی من پسند شہری حکومت بنانے کا خواب ایک بار پھر سے ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں تھوڑے سے عرصہ میں بلدیاتی انتخابات تین بار ملتوی ہونے تک شہر کے مختلف اضلاع کی یونین کمیٹیز کے 12 امیدوار بلدیاتی انتخاب لڑنے کی حسرت لیے دنیا سے ہی رخصت ہوگئے۔یعنی المیہ ملاحظہ ہو کہ کراچی میں ہر تھوڑے عرصہ کے بعد بلدیاتی انتخابات کروانے کی تاریخ پر تاریخ آتی رہی اور پھر بلدیاتی انتخابات ملتوی ہوتے رہے۔بدقسمتی سے اس دوران کراچی کے مختلف اضلاع کی یونین کمیٹیز کے لیے چیئرمین، وائس چیئرمین اور جنرل کونسلر کی نشستوں پر حصہ لینے والے 12 امیدوار انتقال کرگئے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی بدلتی ہوئی تاریخوں کے درمیان ضلع کورنگی کی یونین کمیٹیز سے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے دو ،امیدوار انتقال کرگئے، ضلع غربی میں یوسی چیئرمین کے ایک امیدوار بھی اس دوران چل بسے ۔ ضلع وسطی کی بھی یونین کمیٹیز کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے دو امیدوار جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ضلع کیماڑی، ملیر، کورنگی اور شرقی سے جنرل کونسلر کے 7 امیدوار بھی بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کے درمیان زندگی کی بازی ہارگئے۔
یہاں ہم یہ نہیں کہنا چاہ رہے کہ مذکورہ نامزد بلدیاتی اُمیدواروں کا انتقال کراچی بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے کا صدمہ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے ۔مگر ذرا لمحہ بھر کے لیے سوچئے کہ اگر کراچی کے بلدیاتی انتخابات اپنے وقت ِ مقررہ پر ہوجاتے تو یہ مرحومین بھی کم ازکم ،چیئرمین ،وائس چیئر مین یا کونسلر بننے کی ’’سیاسی مسرت‘‘ اپنے دل میں لیے تو جہانِ فانی سے جہانِ باقی کی جانب کوچ کرتے۔مگر مصیبت یہ ہے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کراچی کی’’سیاسی قسمت ‘‘ ہی بہت خراب ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پچھلے 45 سال میں صرف چھ بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں جن میں 2015 کے صرف ایک بلدیاتی انتخاب چھوڑ کر باقی سارے بلدیاتی انتخابات آمرانہ ادوارِ حکومت میں ہوئے ہیں ۔ اَب چاہے وہ بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے ہوں یا جماعتی بنیادوں پر۔ حالانکہ بلدیاتی انتخابات کروانے کی تمام تر ذمہ داری جمہوری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے ۔لیکن تلخ حقیقت یہ ہے ہمارے وطن عزیز میں جمہوری سیاسی جماعتیں اور جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات کروانے میں ایک بہت بڑی سیاسی و انتظامی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتی رہی ہیں ۔
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی ایسا ہی ہوا اور سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ بالکل قریب آجانے کے بعد کراچی میں بلدیاتی انتخابات3 ماہ تک ملتوی کرنے کی اَن گنت وجوہات کے ساتھ ایک باضابطہ درخواست الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ارسال کردی۔ جس پر چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میںالیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کے مؤقف اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کردیا۔حیران کن بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی ملتوی سے اپنے آپ کو مکمل طور پر بری ذمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’الیکشن کمیشن نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی ہر ممکن کوشش کی، بلدیاتی انتخابات کے لیے گزشتہ روز سیکرٹری وزارت داخلہ سے میٹنگ کی گئی، وزارت داخلہ سے انتخابات کے پر امن انعقاد کے لیے فوج اور رینجرز کی فراہمی یقینی بنانے کا کہا تھا،مگر سندھ حکومت کے اِس انکار کے بعد کہ اُن کے پاس سندھ پولیس کی نفری کم ہے اور سندھ حکومت پولنگ اسٹیشنز پر انتظامات کی ذمہ داری نہیں لے سکتی ۔لہٰذا، الیکشن کمیشن کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ فی الحال بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے جائیں‘‘۔
واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات کے خلاف پاکستان کی ہربڑی سیاسی جماعت کا گٹھ جوڑ ہوا ہے یعنی اگر صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات پاکستان پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت کو بالکل اچھے نہیں لگتے تو دوسری جانب صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی’’ انصاف پسند‘‘ صوبائی حکومت کو بھی بلدیاتی انتخابات کروانے کا سُن کر اچانک غشی کے دورے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کا یہ کہنا تو بالکل بجا ہے کہ ’’کوئی صوبائی حکومت بھی اپنے صوبہ میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروانا چاہتی ‘‘۔ لطیفہ ملاحظہ ہوکہ پاکستان تحریک انصاف صوبہ سندھ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے معزز سربراہ کوبلدیاتی انتخابات نہ کروانے کے جرم پر تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے تو صوبہ پنجاب میں اُن کی ذات کو صرف، اس لیے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ پنجاب میں فوری بلدیاتی انتخابات کیوں کروانا چاہتے ہیں ۔دراصل پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے نزدیک اپنا سیاسی مفاد زیادہ اہم ہے ۔جبکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو عوامی یا ملکی مفاد کی ذرہ برابر بھی پروا ہ نہیں ہے۔
خاص طور پر بلدیاتی انتخابات تو پاکستان کی کسی بھی بڑ ی سیاسی جماعت کے مفاد میں نہیں ہیں کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجہ میں تمام تر انتظامی اختیارات صوبائی حکومت سے نچلی سطحوں پر منتقل ہوجاتے ہیں ۔لہٰذا ، سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کو اپنی سیاسی کمزوری سے تعبیر کرتی ہیں اور اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اوّل تو بلدیاتی انتخابات منعقد ہی نہ ہونے دیئے جائیں اور اگر بالفرض محال عوامی دباؤ یا پھر عدالتی احکامات کی روشنی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروانا ازحد ضروری ہوجائے تو پھر اُس کی راہ میں مختلف قانونی ، انتظامی اور آئینی رکاؤٹیں کھڑی کردی جائیں تاکہ بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے میں جس قدر تاخیر کی جاسکتی ہے ،کم ازکم وہ تو کرہی دی جائے اور لوگ بلدیاتی انتخابات کے سارے تماشہ سے ہی متنفر ہوجائیں ۔
یعنی جتنی بار کراچی میں اَب تک بلدیاتی انتخابات ملتوی ہو چکے ہیں، اُس کے بعد اگر بالفرض اگلے ہفتہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے یہ اعلان بھی ہوجائے کہ فلاں تاریخ کو شہر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بہر صورت کیاجائے گا، تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کتنے فیصد لوگوں کو یہ خدشہ نہیں ہوگا یہ انتخابات ایک بار پھر سے اچانک ملتوی نہیں کیے جائیں گے؟۔ ہماری دانست میں تو کوئی ایک شخص بھی پختہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتاکہ اَب کی بار واقعی کراچی میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوجائیں گے۔بے یقینی کی اِس دل خراش کیفیت میں بلدیاتی انتخابات سے کراچی شہر کی سیاست میں کوئی بڑی جوہری تبدیلی لانے کی توقع رکھنا ہی عبث ہے ۔کیونکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بلدیاتی انتخابات ’’سیاسی سرگرمی ‘‘نہیں بلکہ ایک ’’سیاسی حادثہ ‘‘ ہے اور اہلیانِ کراچی کے ساتھ یہ حادثہ کب رونما ہوتاہے ؟۔آپ بھی انتظار کریں ، ہم بھی منتظر ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر