وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکی صدر کا بیان حیران کن نہیں

هفته 22 اکتوبر 2022 امریکی صدر کا بیان حیران کن نہیں

امریکی صدر جو بائیڈن نے ایٹمی اثاثوں کو بے ڈھب کہتے ہوئے پاکستان کو خطرناک جوہری ملک قرار دیا ہے ایسی الزام تراشی پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ وقفے وقفے سے ایسا کہنا معمول ہے مگر حکمران اتحادپی ڈی ایم جس نے گزشتہ چھ ماہ کے اقتدارکے دوران کئی بارنہ صرف امریکی حمایت میں بیانات جاری کیے بلکہ ایک سے زائد بار دعویٰ کیا کہ عمران خان کی بے جا تنقید سے ناراض ہونے والا امریکہ اب تعاون پر آمادہ ہوگیاہے جس سے دونوں ممالک کی شراکت داری میں اضافہ ہوگا لڑاکا طیاروں کی مرمت اور فاضل پُرزوں کی فراہمی شروع کرنے کو پابندیاں ہٹنے جیسا کارنامہ جتایا گیایہ بھی کہا گیا کہ مزکورہ پابندیوں کے خاتمے سے صرف دفاعی نوعیت کے تعاون میں ہی اضافہ نہیں ہو گا بلکہ ناہموارمعیشت کو بھی سنبھالا دینے کی راہ تلاش کی جا سکے گی مگر جو بائیڈن نے پاکستان کے پُرامن جوہری پروگرام کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے ثابت کر دیا ہے کہ صدرڈیموکریٹک ہو یا ریپبلکن،بدلے حالات کے تناظر میںپاکستان بارے سبھی کا رویہ معاندانہ ہوتا ہے یہ جو مختصر عرصے کے لیے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری دیکھی جاتی ہے اُس کی وجہ بھی خلوص نہیں حالات کا جبر ہوتا ہے سچ یہ ہے کہ ماضی ،حال یا مستقبل میں اُس کی ترجیح بھارت ہے پاکستان نہیں۔
صدر ٹرمپ منہ پھٹ تھے وہ سعودیہ ،ترکی ،پاکستان اور ایران بارے اکثرتضحیک آمیز خیالات کا اظہار کرتے رہتے تھے مگراُنھیں منہ پھٹ سمجھ کر کوئی بھی سنجیدہ نہیں لیتا تھا توقع تھی کہ بائیڈن سوچ سمجھ کر اظہارِ خیال کیا کریں گے لیکن اقتدار میں آکر کئی چھوٹے اور غیر اہم ممالک کی قیادت سے رابطہ کیا اور مشاورت بھی کی لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی رہنے والے ملک پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سے مشاورت کرنا تو درکنا ر ٹیلی فون پر رابطہ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا جس سے اتنی وضاحت تو ہو گئی کہ امریکا کے لیے پاکستان کی حیثیت ثانوی ہو چکی ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی چھٹی ایسی جوہری طاقت ہے جو حساس ترین خطے میں واقع ہے جس نے نہ صرف روس کی راہ روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ افغان جنگ میں ہزیمت سے دوچار کیا توامریکا دنیا کی واحد سُپر طاقت بنا مگر افغانستان سے روسی انخلا کے بعد امریکانے تمام ترخدمات کے باوجود پاکستان کو یکسر نظرانداز کر تے ہوئے بھارت کو ایشیا کی بالادست قوت بنانے کی کوشش کی نائن الیون واقعات کے بعد پاکستان نے امن مخالف قوتوں کی سرکوبی میں تعاون کیا مگر بھارت نے تعاون کرنے کی بجائے افغان سرزمین کے زریعے پاکستان کونقصان پہنچانے کی مزموم سازشیں کیں اسلحہ فروخت سے حاصل ہونے والے مالی فوائد اور چین کے گھیرائو کی مُہم میں تعاون کا وعدہ کرنے پر امریکا نے بھارت کو کو سینے سے لگارکھاہے ایک اور وجہ یہ ہے کہ ایک تو پاکستان اسلامی ملک ہے تیسری خامی یہ ہے کہ پاکستان کے چین سے گرمجوشی پر مبنی قریبی تعلقات ہیں ٹرمپ اوربائیڈن صدارتی الیکشن مہم کے دوران عوام کے زہنوں میں بٹھاتے رہے کہ امریکا کا دشمن نمبرون چین ہے علاوہ ازیں حال ہی میں سامنے آنے والی نیشنل سیکورٹی پالیسی میں بھی کہا گیا ہے کہ چین کی معاشی اور عسکری طاقت کو بڑھنے سے روکناہی اُس کی اولیں ترجیح ہے مگر پاکستان کسی صورت چین کے خلاف ہونے والی کسی سازش میں بطور آلہ کار استعمال ہونے پر آمادہ نہیں نیز سستی توانائی کے حصول کے لیے روس سے رجوع کرنامزیدناگواری کا باعث ہے اسی لیے جوبائیڈن جیسے شخص نے پاکستان پربلاجواز اور سفارتی آداب کے منافی تنقید کی ہے ۔
پاکستان کے خلاف جو بائیڈن کا بیان غلط فہمی یا زبان کی لغزش ہرگز نہیں یہ سوچا سمجھا اور امریکی پالیسی کا عکاس ہے جسے محض چَول کہہ کر نظر انداز کرنا مناسب نہیں کیونکہ ڈیمو کریٹک کانگرس کے اجلاس سے خطاب کے دوران انھوں نے بدلتی ہوئی عالمی سیاسی اور جغرفیائی صورتحال پراپنے نقطہ نظر کا اظہار کیاہے جسے بدگمانی کہہ کر نظر انداز کر نا یا سرے سے اہمیت نہ دینافہم و دانش کے خلاف ہے بلکہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو مستقبل کے حوالے سے متبادل کے انتخاب پر کام شروع کردینا چاہیے فی الحال پاکستان نے ہر معاملے میں امریکا پر انحصار کی پالیسی اپنا رکھی ہے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لیے بھی امریکی تعاون سے سینٹر آف ایکسی لینس فارنیو کلیئر سیکیورٹی کا اِدارہ اِس کا ثبوت ہے پھر بھی بداعتمادی ہے بلاشبہ اِدارے میں دیگر ملکوں کے کئی ماہرین کی تجاویزکا بھی عمل دخل ہے پھربھی غیرمطمئن ہونے کا ایک ہی مطلب ہے کہ امریکاپاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف ہے اور حیلے بہانوں سے یہ صلاحیت ختم کر نے کے درپے ہے لہذا زمہ داران کو محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔
اگر بھارت کے جوہری پروگرام پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ واضح طورپربے ڈھب اور غیر محفوظ ہے کئی ایک حادثات کے دوران انسانی اموات ہو چکی ہیں نیزکئی برسوں سے جوہری مواد چوری ہونے اورپھر فر وخت کرنے کے لیے مارکیٹ میں پیش کرنے جیسے واقعات تسلسل سے جاری ہیں رواں برس ہی مارچ میں جوہری ہتھیارلے جانے والابراہموس میزائل کسی تکنیکی خرابی کی بنا پر پاکستان کے علاقے میاں چنوں گرچکاہے جسے سسٹم کی خرابی قرار دیکر چھپانے کی کوشش کی گئی لیکن اتنی فاش غلطیوں پر بھی امریکا کو کوئی اعتراض نہیں اگر اعتراض ہے تو پاکستان کے خالصتاََ پُرامن جوہری پروگرام پر ہے حالانکہ پاکستان کے جوہری اثاثے عالمی قوانین کے مطابق اِتنے محفوظ ہیں کہ کسی قسم کا جوہری مواد چوری کرنا اور کہیں لے جانا قطعی طور پر ناممکن ہے جبکہ بھارتی جوہری پروگرام کے بارے اِس طرح کا دعویٰ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں پھربھی امریکی صدر پاکستان کے جوہری پروگرام کو غیر محفوظ اور غیر منظم قراردیں تو ایک ہی مطلب ہے کہ اسے ہمارے جوہری پروگرام اور پالیسیوں سے ا ختلاف ہے ۔
ریاستوں کے مابین تعلقات برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں مگر جب سے پاکستان نے چین کے بعد روس سے بھی قریبی تعاون بڑھایاہے امریکہ ناراض ہے کیونکہ اُسے اہداف حاصل کرنے میں ناکامیوں کاخطرہ ہے افغانستان سے انخلا کے ایام میں اُس نے سویلین سے زیادہ عسکری قیادت پر اعتماد کیا محفوظ انخلا میں پاکستان نے ایک بااعتماد سہولت کار کاکردار ادا کیالیکن امریکی بداعتمادی ختم نہیں ہوسکی ممکن ہے امریکی خطے کوانتشار و افراتفری اور لڑائی کا مرکز بنانے کے آرزو مند ہوں اسی لیے کسی سیاسی تصفیے کی راہ ہموار کرنے سے گریز کیا جس سے اِس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ وہ طالبان مخالف دھڑوں اور بھارت کے ہمنواجنگجوئوں کو ساتھ ملا کر خطے میں حلقہ اثر قائم رکھنا چاہتا تھالیکن حسبِ توقع کامیابی نہیں ہوئی اور امریکیوں کی طرح بھارتی انٹیلی جنس کے کارندوں کوبھی راہ فرار اختیار کرنا پڑی ایسا کیونکر ہوا نہ صرف امریکی بلکہ بھارتی ایجنسیاں حیران و پریشان ہیں اور اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میںپاکستانی اِداروں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہیں اور غصے میںجوہری پروگرام کے خلاف عالمی رائے عامہ بنانے کی تگ و دو میں ہیں دونوں ملک اِس ہدف کو مدِ نظر رکھ کر کام کررہے ہیں حالانکہ کئی ایسے نکات ہیں جن پر پاک امریکہ نقطہ نظر ایک ہے جیساکہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بننے سے روکناوغیرہ مگر بھارت کی حمایت میں امریکہ اتنا آگے چلا گیا ہے کہ اُسے پاکستان کا کوئی ایک بھی احسان یاد نہیں رہا یہ کہنا کہ عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے بائیڈن جسمانی طورپر سست ہونے کے ساتھ زہنی طورپر بھی چاک وچوبند نہیں رہے اِس میں صداقت نہیںبلکہ روس اور چین سے بڑھتا تعاون اور ایساجوہری پاکستان جو ہرصورت بھارتی بالادستی کو چیلنج کرے اُسے ناپسند ہے مگر بطور ایک آزاد اور خود مختار ملک پاکستان کو نہ صرف اپنی خارجہ پالیسی طے کرنے کا حق ہے بلکہ اپنی قو می سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی بھی آزادی ہے کسی کو مداخلت کرنے یا کسی نوعیت کی ہدایات دینے کا کوئی حق نہیں ۔
پاکستان نی قیادت نے باہمی سیاسی اختلافات کے باوجود نواز شریف ،عمران خان سمیت سب نے امریکی صدر کے بیان کوسخت ناپسند کیا حکومت نے بھی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو دفترِ خارجہ بلا کر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ احتجاجی مراسلہ تھماکر بیان پر وضاحت طلب کی سخت ردِ عمل آنے پر وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے پاکستانی عزم و صلاحیتوں پر اعتماد کا یقین دلاکر بیان کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کی مگربیان واپس نہیں لیا گیا کچھ وزرا نے بیان کو غیر سرکاری اور غیر رسمی تقریب میں ہونے والی بات چیت قرار دیکرسخت ردِ عمل دینے سے اجتناب کیا حالانکہ سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ کس ملک نے شہریوں پر ایٹم بم برسائے ؟ یہ سوال ہم نے تو نہیں کیا البتہ کیوباکے سفیرزینرکارو نے پوچھ لیاامریکہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان میں اُس کے خلاف رائے بہت توانا ہے جس کا سیاسی کامیابیوں میں کردار بڑھتاجارہا ہے یہ رائے عامہ پاک بھارت جنگ کے دوران نہ پہنچنے والے امریکی بحری بیڑے کا قصہ اچھالتی رہتی ہے نوے کی دہائی میں جوہری پروگرام منجمد کرنے یا ختم کرنے کے عوض بھاری مالی مدد کی آفر ز بھی کسی سے پوشیدہ نہیں اسی لیے صدر کا بیان کچھ زیادہ حیران کن نہیں چاہے علاوہ ازیں سفارتی آداب کے تحت بیان میں موجود خفگی کی چاہیں جتنی پردہ پوشی کرلیں اِس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے کہ دونوں ملکوں کی ترجحات و اہداف میں نمایاں فرق آچکا ہے اسی لیے جلد بدیر دوری بعید از قیاس نہیں امریکا کومضبوط،خوشحال اور محفوظ پاکستان کی بجائے عدمِ استحکام سے دوچار ایسا ملک پسند ہے جہاں غربت اور بھوک و افلاس کے ڈیرے ہوں ایور بھارت کا مقابلہ کرنے یا کشمیر کا مقدمہ جسے پیش کرنے کی کبھی جرات تک نہ ہوتاکہ جب اور جو چاہیں منوا سکیں اب یہ سوچنا زمہ داران کا کام ہے کہ انھوں نے قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے یاآغیارکی سازشوں کو کامیاب ہونے دینا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر