وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت: کانگریس اور گاندھی خاندان کے لیے فیصلہ کن گھڑی

جمعه 14 اکتوبر 2022 بھارت: کانگریس اور گاندھی خاندان کے لیے فیصلہ کن گھڑی

 

پارٹی کی نائب صدارت کی کمان سنبھالنے کے بعد نئی دہلی میں راہول گاندھی نے اپنی رہائش گاہ پر چھوٹے بیچز میں پارٹی کو کور کرنے والے صحافیوں اور ایڈیٹروں سے ملنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ گفتگو اس حد تک آف ریکارڈ ہوتی تھی، کہ اندر قلم اور کاغذ لیجانے پر بھی باپندی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ساتھی نے جب ان سے شملہ سنکلپ (عزم) کے بار ے میں اور خصوصاً ا?ر ایس ایس کے نظریہ سے مقابلہ کرنے کے بارے میں پوچھا، تو ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کسی ا?ئیڈیالوجی سے ٹکرانے میں یقین نہیں رکھتی ہے اور ایک سنٹرسٹ پارٹی کے بطور سبھی کو ساتھ لیکر چلنے میں یقین رکھتی ہے۔ مگر اگلے 2014کے انتخاب میں 545رکنی ایوان میں اسکی تعداد 206 سے گھٹ کر بس 44رہ گئی اور پھر 2019میں یہ تعداد صرف 52تک ہی پہنچ پائی۔ پچھلے تیرہ سالوں میں 211منتخب نمائندے ، جن میں اراکین اسمبلی و پارلیمان شامل ہیں، پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ وہ سبھی نوجوان چہرے، آر پی این سنگھ، جیوتی رادتیہ سندھیا، جیتن پرسادا اور دیگر جن کیلئے 2013کے سیشن میں نظریہ کو دفن کر دیا گیا تھا، اس وقت بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر راہول گاندھی کا منہ چڑا رہے ہیں۔ ان کا اخراج راہول کیلئے ذاتی نقصان تھا، کیونکہ یہ ان کے دوون بورڈنگ اسکول کے ساتھی تھے اور ان پر انہوں نے خاصا تکیہ کیا تھا۔ 2019کے انتخابات میں شکست کے بعد راہول گاندھی نے ذمہ داری قبل کرکے استعفیٰ دیا اور پارٹی نے ان کی والدہ سونیا گاندھی کو کارگذار صدر بنایا۔ چوتھا برین اسٹارمنگ سیشن اسی سال مارچ میں راجستھان کے اودے پور شہر میں منعقد کیا گیا، جس میں پارٹی کے اندر جمہوری اقدار کے احیاء کا ذکر کیا گیا اورراہول گاندھی نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ صدراتی انتخاب نہیں لڑیں گیااور قیادت کسی غیر گاندھی لیڈر کے سپرد کرینگے۔
وزیر اعظم مودی کی طرف سے خاندانی راج پر چوٹ کرنے اور ان کے اس ہتھیار کو کند کرنے کے لیے ایک فیملی ایک پوسٹ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ یعنی ایک فیملی سے ایک ہی فرد کو پارٹی عہدہ یا ٹکٹ دیا جائیگا۔ اسی طرح ایک آدمی ایک پوسٹ یعنی ایک لیڈر کو ایک ہی عہدہ ملے گا۔ اگراقتدارمیں آنے کی صورت میں کوئی وزیر بنتا ہے تو اسکو پارٹی پوسٹ چھوڑنا پڑیگا۔ذرائع کے مطابق یہ نکتہ زیر بحث آگیا کہ مڈل کلاس جس کی تعدار اب کل آبادی کا 50فیصد ہے، خاندانی سیاست کو ناپسند کرتا ہے۔ اس اجلاس میں شملہ سنکلپ کا اعادہ کرکے ایک بار پھر آر ایس ایس سے دو ہاتھ کرنے کے لیے سیکولرازم اور آئیڈیالوجی کو موضوع بنانے کا عزم کیا گیا۔ علاقائی پارٹیوں پر چوٹ کرکے بتایا گیا کہ ان کے لیے نظریہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ موقع کی مناسبت کے حساب سے کبھی بی جے پی کا ساتھ دیتی ہیں ، تو کبھی سیکولرازم کا لبادہ اوڑھتی ہیں۔ عوامی رابطہ مہم اور غیر گاندھی خاندان کے فرد کو اندرونی انتخابات کے ذریعے کمان دینا اپنی جگہ، مگر جب تک کانگریس گراونڈ یعنی بلاک لیول تک انتخابات کو یقینی نہیں بناتی ہے، تب تک اس مشق کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مرکزیت کو ختم کرکے ضلعی صدور کو بااختیار بنایا پڑے گا۔ بجائے دہلی سے پارلیمنٹ یا اسمبلی کے لیے کسی کو منڈیٹ دینے کے یہ اختیار ضلعی صدور اور کمیٹی کو دینا چاہئے اور اسی کے ساتھ ان کی باز پرس بھی ہونی چاہئے اگر ان کا چناہوا امیدوار الیکشن میںکارکردگی نہیں دکھاتا ہے۔
اسی طرح اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے بھی انتخابات عمل میں آنے چاہئے۔ اس کا حال تو یہ ہے کہ اس کے سبھی 22اراکین پارٹی صدر کے چنے ہوئے ہیں۔ اس کی فیصلہ سازی کی قوت کو مزید کم کرنے کیلئے 50مزید افراد کو بطور’’مدعو اراکین‘‘ بلایا جاتا ہے۔ سبھی اہم فیصلے کانگریس صدر کی صوابدید پر چھوڑدیے جاتے ہیں۔ ایک بار تو خود راہول گاندھی ہی پھٹ پڑے تھے کہ اگر کانگریس صدر کو ہی فیصلہ کرنا ہے تو اس مجلس کی کیا ضرورت ہے؟ 2014میں بد ترین شکست کے بعد راہول گاندھی کو ایک سنہرا موقع ملا تھا کہ پوری طرح فلٹریشن اور تطہیر کرکے کانگریس کو غیر ضروری اور چاپلوس عناصر سے پاک و صاف کرکے اسکو ایک حقیقی جمہوری اور لبرل پارٹی کے بطور پیش کریں۔ وہ یورپ کی سیاسی پارٹیوں کی طرح حقیقی اندرونی جمہوریت کوبحال کرنے پر توجہ مرکوز کرکے پارٹی سے چاپلوسی اور طرفداری کا کلچر ختم کرسکتے تھے۔ یہ کام کسی حد تک انہوں نے یوتھ کانگریس میں کیا تھا۔ مگر نہ معلوم اس طرح کی کوئی اصلاح وہ کانگریس میں کیوں نہیں لا سکے۔ خیر اس وقت یہ پارٹی ایک بڑے امتحان سے گذر رہی ہے۔ اگلے سال تک اسکی اورگاندھی خاندان کی قسمت کا فیصلہ ہونے کا امکا ن ہے۔ کانگریس کی قسمت اور اسکے فیصلے خاصے دورس ثابت ہوسکتے ہیں اور انکا اثر نہ صرف بھارت، بلکہ پاکستان،بنگلہ دیش کی خاندانی سیاسی جماعتوں پر بھی پڑ سکتا ہے ، کیونکہ ان ملکوں میں بھی اب مڈل کلاس تیزی سے ابھر رہا ہے اوروہ سیاست میں دلچسپی لے کر ایسے لیڈروں کی تلاش میں ہے جو اس کے آس پاس نظر آسکیں اور جن کے ساتھ اسکی اپنی شناخت ہوسکے۔ یہ طبقہ محلوں میں رہنے والے راجے مہاراجوں جیسے سیاستدانوں سے بدکتا ہے، جو انکے ساتھ رعایا جیسا برتاوکرکے دور سے ہی درشن دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر