وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایران میں ہنگامے اور حکومتی طرزِ عمل

بدھ 05 اکتوبر 2022 ایران میں ہنگامے اور حکومتی طرزِ عمل

پولیس کی حراست میں بائیس سالہ لڑکی مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ حکومتی کوششوں اور سختیوں کے باوجودابھی تک ختم نہیں ہو سکا مظاہرین روز سڑکوں پر آتے اورحکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں پولیس کریک ڈائون کرتی اور لاشیں گراتی ہے غلط اور جابرانہ حکمتِ عملی کی وجہ سے اِن پُرتشدد مظاہروں میں اب تک محتاط اندازے کے مطابق 150 سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں مگرحکومتی حلقوں کی طرف سے بات چیت سے ماحول ٹھنڈاکرنے کی کوشش ہوتی نظر نہیں آتی اسی بناپراب احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ دوسرے ممالک تک پھیل گیا ہے ہر عورت کو بالوں کے نت نئے سٹائل دینا پسند ہے لیکن ترکی میں ہونے والے مظاہرے میں شرکا خواتین اِس حد تک غصے میں تھیں کہ نہ صرف احتجاجاََ بال کٹوا دیے بلکہ کئی افرادنے بطور احتجاج ایرانی پاسپورٹ تک پھاڑکر پھینک دیے احتجاج کایہ سلسلہ عراق اور فرانس سمیت کئی اور ملکوں تک دراز ہونے لگاہے یہ پیغام ہے کہ حکمران سخت گیر پالیسیاں ترک کردیں مگروہ حقائق کا سامنا کرنے یا مظاہرین کے غصے کی شدت کو دلیل سے کم کرنے کی بجائے طاقت سے کچلنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے نے بھی مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت پر جاری احتجاجی مظاہرین کوکچلنے کے لیے سیکورٹی فورسزکی طرف سے طاقت کے استعمال کی نہ صرف حمایت کردی ہے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی ہے یہ کوئی اچھا طریقہ کار نہیں ایسا رویہ یا طرزِ عمل احتجاج کو تقویت دینے کا باعث بنتاہے۔
مہسا امینی کوئی جرائم پیشہ یا کسی منشیات فروش گروہ کی رُکن نہیں تھی بلکہ وہ حجاب طریقے سے نہ کرنے کی مرتکب ہوئی تھی اسلامی طریقہ کار تو یہ ہے کہ ابتدا میں منع کیا جاتا اگرپھربھی بضد رہتی تو ہلکی سی سرزنش کے بعدلڑکی ہونے کے ناطے درگزرکرتے ہوئے چھوڑ دیا جاتامگرپولیس نے صرف گرفتار کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اُس کی موت واقع ہو گئی حجاب درست طریقے سے نہ کرنے کی پاداش میں ماری جاری جانے والی لڑکی پرتشددمیں مرد اہلکاروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اب یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر درست طریقے سے حجاب نہ کرنا جُرم ہے تو ایک نہتی عورت پر مردوں کا ہاتھ اُٹھاناکیسے اسلامی ہو گیا ؟راقم باوجود کوشش کے نامحرم مردوںکی طرف سے ایک عورت پر تشدد کا جواز قرآن و حدیث سے تلاش نہیں کر سکا ایسی سفاکیت اور طاقت کے اندھے استعمال کاسبق نہ جانے ایرانی پولیس نے کہا ں سے پڑھاہے کچھ بتانے یا اندازہ لگانے سے قاصر ہوں البتہ اِس بات میں شائبہ نہیں کہ ایران ہر معاملے کو بیرونی قوتوں سے نتھی کردیتا ہے ہر احتجاج کو امریکی اور اسرائیلی سازش کہہ کر کچل دیا جاتا ہے حالیہ مظاہروں کو بھی مزکورہ ممالک کی سازش اور سرپرستی کہا جا رہا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ایران میں قدامت پسندوں اور لبرلزمیں کھینچا تانی اب عروج پرپہنچ چکی ہے کیونکہ اِس وقت ایران پر قدامت پسندوں کا راج ہے ان کا لبرلز سے عدم برداشت کا رویہ ہے جو حیلے بہانوں سے قدامت پسندی کے خلاف ہر حرکت یا کوشش کو بزور طاقت کچلنے پر یقین رکھتے ہیںیہی وجہ ہی دراصل مہسا امینی کی ہلاکت کا باعث بنی ہے لبرلز کے ہاتھ بھی بہانہ آگیاہے وہ بھی اِس آڑ میں سڑکوں ہیں اورحجاب بارے فیصلہ کُن نرمی چاہتے ہیں ایک نہتی لڑکی سے سفاکانہ سلوک پر ملک کا ہر طبقہ غم و غصے سے بھرابیٹھا ہے مگر حکومت نے آنکھیں بندکررکھی ہیں ہر شخصی آزادی پر قدغن کا جوازطلب کر رہا ہے مگر جواب دینے کی بجائے حکومت غیرملکی سازش کہہ کر مظاہرین کو کچلنے میں مصروف ہے اِس میں ہنوزاُسے کوئی کامیابی نہیں ملی غیر ملکی سازش کے الزام میں بھی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ کسی ملک نے اگر زیرِ حراست لڑکی کو مارنے کے لیے پولیس کو استعمال کیا یا اُکسایا ہے تو ایرانی قیادت فرض ہے پولیس سے پاچھ تاچھ کرے جو غیر ملکی سازش میں آلہ کار بنی کیونکہ بیرونی قوتیں اگر پولیس کو اپنے اشاروں پر چلا نے پر قادر ہیں تو محاسبہ پولیس کا ہونا چاہیے اپنی عوام کو مارنے کا کوئی جواز سمجھ نہیں آتا ۔
ایرانی حکومت بے جاسختیوں سے اپنے خلاف ہی بنی فضا کو مزید ہوادے رہی ہے ایک طرف ملک میں نہتی لڑکی کو تشدد سے ہلاک کرنے کے خلاف مظاہرے عروج پر ہیں اِ ن ایام میں بھی حکومت نے اپنے طرزِ عمل سے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ امن و سکون کی فضا قائم کرنے میں سنجیدہ ہے کیونکہ دارالحکومت تہران میں ریسٹورنٹ کے اندر بیٹھ کر کھانا کھاتی ایک خاتون کو اِس بناپر گرفتار کر لیا گیا کہ وہ بغیر حجاب کھانا کھارہی تھی ایسے ہی بڑھتے واقعات پرقانون دان نسرین ستودہ کہتی ہیں کہ مظاہرین دراصل ایران میں رجیم کی تبدیلی چاہتے ہیں مظاہروں میں شریک بغیر اسکارف بال باندھتی بیس سالہ ہادیس نجفی کو اِس پاداش میں گولیاں مارکر قتل کردیا گیالڑکی کو گردن،پیٹ ،دل اور ہاتھوں پر گولیاں ماریں گئیں اِس قتل کا زمہ دار بھی مظاہرین پاسدارانِ انقلاب کوٹھہراتے ہیں اِس میں سخت پیغام ہے بے حجاب پھرنے والی خواتین کے لیے، کیونکہ ہادیس نجفی نے نہ صرف بے خوف ہوکر مظاہرے میں شرکت کی بلکہ بغیر اسکارف بال باندھتے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردی اِسی بناپر عبرت کا نشان بنا دیا گئی دراصل جب لوگوں کو آزادی اظہار سے محروم کیا جاتا نیز پہناوے پر پابندیاں لگتی ہیں تو لوگ بے جا پابندیوں کے خلاف بولتے ہیں مگر حکومت جان بوجھ کراِس کا ادراک نہیں کر رہی ایسا جان بوجھ کر کیا جارہا ہے تبھی بددستور اپنے خیالات کی مقید ہے حکومت کاغیر ملکی طاقتوں پر مظاہرین کی پُشت پناہی کا الزام لگا نا دراصل سختیوں کو چھپانا ہے اب تو مظاہروں کی میڈیا میں کوریج روکنے کے لیے صحافیوں کو آزادانہ کام کرنے پر بھی سختیاں شروع کر دی گئی ہیں لگ بھگ بائیس کے قریب خواتین صحافیوں کو گرفتارکرنے کے بعد پابندِ سلاسل کیا جا چکا ہے مگرحالات چھپانے کی حکومتی خواہش پوری نہیں سکی نہ صرف مظاہرے جاری ہیں بلکہ دنیا بھر کا میڈیا بھرپورکوریج بھی کررہا ہے سوشل میڈیا کے نیٹ ورکس واٹس ایپ اور انسٹاگرام کو بندکرنے کے ساتھ حکومت نے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس اور موبائل سروس معطل کردی جس سے آبادی کا بڑا حصہ رابطوں سے محروم ہے مگر تمام تر نامساعد حالات کے باوجود سوشل میڈیاپر مظاہروں کی تفصیلات موجود ہیں لیکن لگتا ہے حکمران دیکھنے،سُننے اورسمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
ایران میں ہونے والا کسی سے کچھ پوشیدہ نہیں رہا بلکہ ایرانی لوگوں کی طرح ساری دنیاشناساہوچکی ہے اور کئی ممالک سے اب تو ردِ عمل بھی آنے لگاہے امریکی محکمہ خزانہ نے مہسا امینی کی ہلاکت کا زمہ دار اخلاقی پولیس کو قرار دیتے ہوئے اُس کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے یو این اوکے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مظاہروں کے دوران خواتین اور بچوں سمیت ہونے والی ہلاکتوں کی اطلاعات پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے مظاہرین کے خلاف غیر مناسب طاقت کا ستعمال روکنے کا مطالبہ کر دیا ہے یورپی یونین نے بھی بدترین کریک ڈائون کی شدید مذمت کی ہے اگر پڑھے لکھے ملکی طبقے کی بات کریں تو اساتذہ بھی خاموش نہیں زنجان یو نیورسٹی میں فزکس کی پروفیسرانسیہ عرفانی نے ٹویٹر پر استعفے کا اعلان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سڑکیں خون میں ڈوبی ہوئی ہیں مگر ایرانی حکومت یا پاسدارانِ انقلاب کے رویے میں کوئی فرق نظر نہیں آیا جس پر اساتذہ خاموش نہیں رہ سکتے ایسے ردِ عمل کو جھٹلانایاچھپانا آسان نہیں مگر حکومتی رویے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اختلافی آوازوں کو کچلنے اور دبانے کے عمل میںکسی کوکسی قسم کی رعایت دینے پر تیار نہیں اسی وجہ سے مظاہرے بحران میں تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر