وجود

... loading ...

وجود
وجود

کانگریس کا ’غیرگاندھی‘ صدر کتنا کامیاب ہوگا؟

پیر 03 اکتوبر 2022 کانگریس کا ’غیرگاندھی‘ صدر کتنا کامیاب ہوگا؟

کئی روز کی کھینچ تان کے بعد آخرکار ملک ارجن کھڑگے کانگریس پارٹی کے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔حالانکہ انھوں نے نامزدگی کے آخری دن پرچہ بھراہے، لیکن ایک غیرمتنازعہ لیڈر کے طورپر پارٹی میں ان کی اچھی پہچان ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے میدان میں اترنے کے بعد سینئر کانگریسی لیڈر دگوجے سنگھ نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔اشوک گہلوت کی مقابلہ سے دستبرداری کے بعدعام خیال یہ تھا کہ عہدہ صدارت کے لیے اصل مقابلہ دگوجے سنگھ اور ششی تھرور کے درمیان ہوگا،لیکن جیسے ہی ملک ارجن کھڑگے میدان میں آئے تو دگوجے سنگھ نے اپنی امیدواری سے کنارہ کرلیا۔ نامزدگی کے آخری دن کھڑگے کے علاوہ جھارکھنڈ کے کانگریسی لیڈر کے این ترپاٹھی نے بھی پرچہ بھرا، لیکن اصل مقابلہ ششی تھرور اور کھڑگے کے ہی درمیان ہوگا اور یہ مقابلہ بھی دوستانہ ہوگا۔
ملک ارجن کھڑگے اس وقت راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ انھیں کانگریس ہائی کمان کا سب سے زیادہ اعتماد حاصل ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ آنجہانی جگجیون رام کے بعد کھڑگے پارٹی کے دوسرے دلت صدر ہوں گے۔ بہار سے تعلق رکھنے والے آنجہانی جگجیون رام 1971میں کانگریس کے صدر بنے تھے،لیکن ایمرجنسی کے بعد وہ کانگریس سے علیحدہ ہوکر جے پی تحریک میں شامل ہوگئے تھے۔ کھڑگے کا تعلق جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک سے ہے اور وہ دوبار گلبرگہ سے کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا اوردس بار کرناٹک اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔80 سالہ کھڑگے ایک ایماندار شبیہ کے سیکولر لیڈر ہیں اور انھیں کانگریسی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس وقت کانگریس پارٹی جس آزمائشی دور سے گزر رہی ہے، اس میں کھڑگے کس حد تک کامیاب ثابت ہوں گے اور وہ بطورپارٹی صدرانھیں کام کرنے کی کس حدتک آزادی ملے گی۔ عرصہ بعد کسی’غیرگاندھی‘صدر کو پارٹی کے دیگر لیڈران کس حد تک قبول کریں گے، یہ بھی دیکھنے والی بات ہوگی۔ ویسے اطمینان بخش بات یہ ہے کہ کھڑگے کی امیدواری پر کانگریس کے ناراض گروپ نے بھی اپنی مہر لگائی ہے۔
کھڑگے کے میدان میں اترنے سے قبل عام خیال یہ تھا کہ راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کانگریس کی صدارت سنبھالیں گے۔ ان کا نام خود کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے پیش کیا تھا، لیکن وہ وزیراعلیٰ کی کرسی اور کانگریس کی صدارت ایک ساتھ سنبھالنا چاہتے تھے، جبکہ ہائی کمان نے ان کی جگہ سچن پائلٹ کو وزیراعلیٰ بنانے کی ٹھانی تھی۔ ایک شخص ایک عہدے کے اصول کے تحت ان سے وزیراعلیٰ کی کرسی چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا، لیکن گہلوت نے وزیراعلیٰ بنے رہنے کے لیے اپنے حامی ممبران اسمبلی سے جوکچھکرایا اور ہائی کمان کی حکم عدولی کے مرتکب ہوئے، اس کے نتیجے میں کانگریس کی پوزیشن خاصی مضحکہ خیز ہوگئی اور آخرکار اشوک گہلوت کو دہلی آکر سونیا گاندھی سے معافی مانگنی پڑی، مگر ساتھ ہی انھوں نے پارٹی کی صدارت کا الیکشن لڑنے سے انکار کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی سے چپکے رہنا ہی منظور کیا۔
قابل غور پہلو یہ ہے کہ جس کانگریس پارٹی نے تحریک آزادی کی قیادت کی تھی وہ آج خود قیادت کے بحران سے دوچار نظر آتی ہے۔یہ بحران صرف قیادت کی حدتک نہیں ہے بلکہ آج پارٹی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اپنے وجود کو بچانے کا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ آج کانگریس پارٹی اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔حکمراں بی جے پی نے پہلے ہی ’کانگریس مکت‘ ہندوستان کا نعرہ اچھال رکھا ہے اور وہ ہر اس صوبے میں جہاں کانگریس کا وجود باقی ہے، اسے ختم کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اقتدار اور دولت کا لالچ دے کر کانگریسی ارکان اسمبلی کو توڑکر بی جے پی میں شامل کئے جانے کی خبریں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ حال ہی میں گوا میں کانگریس کے آٹھ ممبران اسمبلی بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ بی جے پی کا سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ کانگریس ایک خاندان کی پارٹی ہے اور اس میں کوئی داخلی جمہوریت نہیں ہے۔کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد کی پارٹی سے علیحدگی بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ انھوں نے اپنے طویل استعفیٰ نامے میں پارٹی قیادت اور خود راہل گاندھی پر جو الزامات عائد کیے ہیں، ان میں بعض باتیں ایسی ضرور ہیں جو کانگریس کے داخلی بحران کو اجاگر کرتی ہیں۔
آزادی کے بعد نہرو۔گاندھی خاندان کا ہی کوئی فرد کانگریس کی قیادت کرتا رہا ہے اور وہی کانگریس کے ساہ سفید کا مالک بھی رہا ہے۔ بیشتر وقت نہرو۔گاندھی خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں میں ہی پارٹی کی کمان رہی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب پارٹی کا ستارہ عروج پر تھا اور پورے ملک میں اس کا طوطی بولتا تھا۔لیکن جب سے پارٹی کے ستارے گردش میں ہیں اور اس کے ہاتھوں سے ملک کی باگ ڈورچھوٹی ہے تب سے کانگریس صدر کا عہدہ کانٹوں کا تاج بن کررہ گیا ہے اور اس کی کمان سونیا گاندھی کے ہاتھوں میں ہے۔ سونیا گاندھی اپنی بگڑتی ہوئی صحت اور سیاسی ماحول کی وجہ سے اس عہدے سے سبکدوش ہوناچاہتی ہیں۔ایسے میں سب کی نظریں ان کے بیٹے راہل گاندھی پر لگی ہوئی تھیں، جو 2017میں پارٹی کے صدر بنے تھے، لیکن 2019 کے عام انتخابات میں شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انھوں نے پارٹی کی صدارت چھوڑدی۔ تب سے سونیا گاندھی ہی پارٹی کی عبوری صدر ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ کانگریس میں باقاعدہ صدر کا انتخاب ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ اس میں کتنی شفافیت اور غیرجانبداری برتی جاتی ہے، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ پارٹی کیڈر کو ہی اپنے صدر کے انتخاب کا حق حاصلہے جبکہ حکمراں بی جے پی میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے اور اس کا صدرآرایس ایس کی دیگر بغلی تنظیموں کی طرح ناگپور میں طے ہوتا ہے۔ کانگریس کے نئے صدر کے انتخاب کے لیے آئندہ 17اکتوبر کی تاریخ طے کردی گئی ہے۔ راہل گاندھی آج کل ’بھارت جوڑویاترا‘ پر ہیں، جو کنیا کماری سے کشمیر تک کا سفر طے کررہی ہے۔ اس یاترا کو کیرل میں جو مقبولیت حاصل ہورہی ہے، اس سے راہل کا سیاسی قد یقینابلند ہوا ہے اور اب یہ یاترا کرناٹک میں داخل ہوچکی ہے، جہاں بی جے پی سرکار ہونے کی وجہ سے اسے مزاحمت کا سامنا ہے۔
راہل اپنی یاترا کے دوران عوام کے بنیادی مسائل اٹھارہے ہیں اور لوگ جوق درجوق ان کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ ان کی اس یاترا سے بھارت کس حد تک جڑے گا، یہ کہنا ابھی مشکل ہے،کیونکہ نفرت کی آبیاری اس حدتک کردی گئی ہے کہ لوگ صحیح خطوط پر سوچنے کو تیار نہیں ہیں۔ آج ملک کے اندرسیکولرجمہوری سوچ کو پروان چڑھانے کی جتنی زیادہ ضرورت ہے، اتنی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ماضی میں کانگریس نے قدم قدم پر سیکولراصولوں سے جوسمجھوتے کئے ہیں اس کے نتیجے میں وہ آج حاشیہ پر پہنچ چکی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ 2024کے عام انتخابات کو نظر میں رکھتے ہوئے ایک ایسا محاذ بنایا جائے جس کے تحت بی جے پی کے مقابل اپوزیشن کا ایک ہی مشترکہ امیدوار میدان میں ہو۔ اپوزیشن کے انتشار اور اختلاف کا فائدہ اٹھاکر ہی بی جے پی اتنی سیاسی طاقت حاصل کی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک ہی پلیٹ فارم لانا ہوگا اور اس کام کو انجام دینے کے لیے کانگریس کی نئی قیادت کو بڑی قربانیاں دینی ہوں گی۔ امیدہے ملک ارجن کھڑگے اس امتحان میں کھرے اتریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر