وجود

... loading ...

وجود
وجود

وزیرِ اعظم کا گھر غیر محفوظ تو محفوظ ہے کیا ؟

بدھ 28 ستمبر 2022 وزیرِ اعظم کا گھر غیر محفوظ تو محفوظ ہے کیا ؟

اہم ترین حکومتی شخصیات کی وزیرِ اعظم کے گھر ہونے والی بات چیت کی آڈیوریکارڈنگ افشا ہونے سے یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ وزیرِ اعظم کا گھر ہی جب غیر محفوظ ہے تو ملک میں آیاایسا کوئی اور مقام ہے جس کے بارے وثوق سے کہہ سکیںکہ وہ مکمل طورپر محفوظ ہے ؟کیونکہ بات ریکارڈنگ تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یہ ریکارڈنگ ڈارک ویب پر فروخت کے لیے پیش کر دی گئی ہے جسے دشمن ملک بھی ادائیگی کے بعد خرید سکتا ہے بات چیت کی آڈیو لیک ہونے سے اِس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ملک کے اہم ترین منصب پر فائز شخصیات اور مقامات تک نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ فیصلے ،بات چیت اور مشاور ت کچھ بھی خفیہ رکھنا ممکن نہیں رہا لہذایہ جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے کہ یہ ڈیٹا افشا کیسے ہوا؟آیا وزیرِ اعظم کے گھر گفتگو ٹیپ کرنے کے لیے ڈیوئسز لگائی گئیں یا فو ن ٹیپ کیے گئے ؟ظاہر ہے جو بھی ہوا ہے کسی اہم ترین اور بااختیار کی تائید ومنشا کے علاوہ ممکن نہیں ہو سکتا ملک کے اہم ترین مقام کے غیر محفوظ ہونے سے سنجیدہ حلقوں کے زہنوں میںاب ہزار ہا قسم کے سوالات مقام بنانے لگے ہیںآڈیو لیکس کے متعلق ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے مگر یہ سلسلہ اکٹھے ہونے،بیٹھنے اور گپ شپ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ جو بھی ملوث ہے اُس کی صرف نشاندہی ضروری نہیں بلکہ کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے وزیرِ اعظم ہائوس کے عملے کی تفتیش کے ساتھ اِس بات کا جائزہ لینا بھی اشد ضروری ہے کہ اُس وقت کسِ اِدارے کے کون کون سے ایسے آفیسر تعینات تھے جن کے پاس ایسے وسائل تھے اور اُنھیں ہرجگہ ا آزادانہ نقل و حرکت کی مکمل آزادی تھی نیز ریکارڈنگ کرنے کے کیا مقاصد تھے یہ بھی جاننا انتہائی اہم ہے ۔
وزیرِ اعظم کے گھر سمیت اہم مقامات سے خفیہ ریکارڈنگ اور آڈیو لیکس کا معاملا اتنا سادا نہیں کہ معمولی جان کر نظر انداز کر دیا جائے بلکہ گہرائی تک جا کر ساری سازش کا پتہ چلانے سے مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے ویسے بھی موجودہ حکومتی اتحاد کی طرف سے تحریکِ عدمِِ اعتماد پیش کرنے سے لیکر اقتدار میں آنے تک کاعمل پہلے ہی رسوائیوں اور الزامات کی ایک طویل داستان ہے اور اب جب حکومت اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے رسوائیوں اور الزامات کی فہرست کا مزیدطویل ہونا ظاہرکرتا ہے کہ کچھ حلقے اِن سے بے چین ہیں اور انھیں آئندہ انتخابات میں کامیابی روکناچاہتے ہیںعلاوہ ازیںایسے خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ موجودہ حکمران اتحاد کو لانے اور اب گھر کی راہ دکھانے میں کہیں نہ کہیں کچھ ایسے کردار متحرک ہیں جو سازشوں کے تانے بانے بُننے سے لیکر عمل کرانے پر بھی قادر ہیں اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حالیہ آڈیو لیکس کو چاہے کوئی اہمیت دے یا غیر اہم جان کر نظرانداز کرے شہباز شریف کا کردار بطور وزیرِ اعظم نیک نام نہیں رہابلکہ اُنھیں ایک ایسے منتظم کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے جو فرائض کی ادائیگی تو ایک طرف،خود اپنی حفاظت سے قاصر اور زمانے کی دستِ برد میں ہے مزیدیہ کہ ایک بار پھر شریف خاندان کے بھارت سے وابستہ مفادات بے نقاب ہوئے ہیںحالیہ آڈیو لیکس کے بعد ایسے الزامات کے حوالے سے مزید کسی دلیل یا ثبوت کی ضرورت نہیں رہی۔
وزیرِ اعظم حلف اُٹھاتے وقت اقرار کرتا ہے کہ بطور وزیرِ اعظم وہ کبھی کسی نوعیت کے ذاتی فائدے کے لیے ہرگز کام نہیں کرے گا نہ ہی اپنے کسی رشتہ دار یا قریبی کو نفع پہنچانے کی کوشش کرے گا مگرآڈیو لیک سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِس حوالے سے کرائی گئی یقین دہانیوں پر زیادہ عمل نہیں کیا جاتاشہباز شریف نے منصب کا حلف اُٹھاتے وقت جو یقین دہانیاں کرائیں تھیں اُنھوں نے بھی اُن کی صریحاََ خلاف ورزی کی ہے دشمن ملک سے چوری سامان منگوانے کو حلف کی پاسداری ہرگز نہیں کہہ سکتے اِس کے ساتھ ایک مزید اہم بات کی نشاندہی یہ ہوئی ہے کہ ماضی میں بھی اِس منصب پر فائز رہنے والے گاڑیوں کے حصول کے دوران حلف کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور پھر چیئرمین نیب کے لیے غیر جانبدار کی بجائے ایسا جانبدار بندہ تلاش کرنے کی بات ،جو اشارہ ابرو پر تمام قواعد و ضوابط بالائے طاق رکھ کر کورنش بجا لائے ایسی باتوں سے نہ صرف حکمرانوں کی نیک نامی متاثر ہوئی ہے بلکہ سفارشوں اورقومی خزانے کے خلاف عرصہ سے جاری سازشوں کے منظرِ عام پر آنے سے ملک کی روزبروز کھوکھلی ہوتی معیشت کی بابت عوام کی معلومات میں بھی وسیع اضافہ ہوا ہے۔
ایک گفتگو میں الیکشن کمیشن کی جانبداری بے نقاب ہوئی ہے جس سے اِس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ اِدارہ غیر جانبدار یا خود مختار نہیں بلکہ ملنے والی حکومتی ہدایات کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے سناتاہے نیز پارلیمنٹ سے باہربیٹھا ایک شخص ممبرانِ پارلیمنٹ کے استعفوں کے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار رکھتاہے یہ اسپیکر کے منصب کی بے اختیار ی اور بے قدری ہے جو اِس امرکا ثبوت ہے کہ حکمران اپنی سیاست کے سوا ملک یا قوم کو کچھ اہم نہیں سمجھتے مزید یہ کہ موجودہ حکمرانوں کے پاس فیصلوں کاکوئی اختیار نہیں بلکہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور ہمارے حکمران ملنے والی ہدایات پرمحض عملدرآمد تک محدود ہیں ایک آڈیو میں اپنے ہی وزیرِ خزانہ کا مزاق اُڑایا جاتاہے اِن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ برسرِا قتدار یہ لوگ اپنی سیاست بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اِس دوران اپنے اور بیگانے کو رگیدنابھی جائز تصور کرتے ہیں ۔
تمام تر غلطیوں کے باوجودپھر یہی سوال ہے کہ جب کوئی بات وزیرِ اعظم کے گھر میں بھی راز نہیں رہتی تو ایسی جگہ پر قومی سلامتی کے حوالے سے حساس ترین معاملات پر اجلاس کرنا مناسب ہے؟ جب کسی اِدارے یا ایجنسی کو یہ ہی معلوم نہیں کہ یہاں جاسوسی کس نے کی اور پھر زمانے بھر کو سنا دی اِداروں کے پاس موجودتمام تر وسائل کا کچھ فائدہ نہیں مل رہابلکہ جن اِداروں کی صلاحیتوں کا ہم صبح و شام فخریہ تزکرہ کرتے ہیں اتنی بڑی جاسوسی ہوگئی مگر وہ آج تک لاعلم ہیں وزیرِ اعظم کا گھر توغیر محفوظ ثابت ہو چکا زرا تصور کریں دوسرے مقامات اور دفاتر کوکیا ہم مکمل طورپرمحفوظ کہنے کی پوزیشن میں ہیں؟ظاہر ہے حالیہ آڈیولیکس کے تناظر میں ایسا کہنااب ممکن نہیں رہا جے آئی ٹی بن چکی ہے اور خفیہ ایجنسیاں بھی اگر متحرک ہوہی گئی ہیں تو تحقیقات کے دوران صرف یہ ہی معلوم نہ کریں کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے گھر میں ہونے والی بات چیت ریکارڈ کرنے کی حرکت کس نے کی بلکہ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ ایسا کن مقاصد کے لیے کیا گیا نیز مستقبل میںغوروفکر کے بعد ایسے سنجیدہ اور موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ راز کی باتیں چوپال کی زینت نہ بن سکیں آڈیو لیکس سے حکمرانوں کے بھارت سے وابستہ مفادات بے نقاب ہونے کے ساتھ یہ وضاحت بھی ہوگئی ہے کہ یہ فیصلوں کے حوالے سے قطعی طورپر بے اختیار ہیں اِس لیے انھیں غلطیوں کا ذمہ دارٹھہرانا مناسب نہیں بلکہ یہ ایسے کھلونے ہیں جن سے کھیلنے کی سب کو کُھلی چھٹی ہے یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ جو فیصلوں میں بااختیارہیں غلطیوں کے زمہ دار بھی وہی ہیں کیا خیال ہے آپ کا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر