وجود

... loading ...

وجود
وجود

برطانیا میں بادشاہت تبدیل ہو گئی، کردار بھی بدلے گا؟

اتوار 18 ستمبر 2022 برطانیا میں بادشاہت تبدیل ہو گئی، کردار بھی بدلے گا؟

ملکہ برطانیا ایک بھرپور اور طویل عمر گزارنے کے بعد اسی دنیا میں لوٹ گئیں ہیں جہاں ان کے آبا واجداد سمیت دنیا میں آنے والے ہر فرد کو واپس جانا ہے۔ انہوں نے زندگی کے 96 برس خوب مزے اور آسائش میں گزارے۔الزبتھ دوم نے آنکھ محل میں کھولی، بچپن اور لڑکپن سے جوانی تک کا سفر ایک شہزادی کے طور پر طے کیا، پھر تاج برطانیا ان کے سر پر سج گیا۔ وہ 70 برس تک ملکہ برطانیا رہیں۔جب انہوں نے فروری 1952میں تخت وتاج سنبھالا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ صرف برطانیا کی نہیں، بہت سے اور ملکوں کی بھی ملکہ ہیں۔ جب ان کا انتقال ہوا تو بھی ان کے زیر نگیں ریاستیں موجود تھیں۔ان کے اقتدار سنبھالنے کے وقت یہ دعویٰ تو باقی نہ رہا تھا کہ برطانیا میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر یہ حقیقت سب دنیا والے مانتے رہے کہ برطانیا کا ستارہ قسمت بہرحال جھلمل کرتا رہا۔
حتیٰ کہ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ملکہ برطانیاکے حلف اٹھانے کے دن سے آخری دن تک کسی نہ کسی صورت ان کے زیر نگیں ملکوں میں شامل رہا۔ 70 سال قبل ملکہ سے لیے گئے حلف کا یہ اقتباس آج بھی تروتازہ ہے۔
‘Archbishop of Canterbury: ‘‘Will you solemnly promise and swear to govern the Peoples of the United Kingdom of Great Britain and Northern Ireland, Canada, Australia, New Zealand, the Union of South Africa, Pakistan, and Ceylon, and of your Possessions and the other Territories to any of them belonging or pertaining, according to their respective laws and customs?’’
Queen Elizabeth II: ‘‘I solemnly promise so to do.’’
کیونکہ الزبتھ دوم نے اپنے حلف میں جن ملکوں کے عوام پر حکومت کا حلف اٹھایا تھا ان میں برطانیا عظمیٰ کے علاوہ شمالی آئرلینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، یونین آف جنوبی افریقہ، سیلون اور پاکستان شامل تھے۔ اس لیے ملکہ کے انتقال کے بعد پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں قومی پرچم سرنگوں کیا گیا اور سوگ کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔
؎اب ان کے فرزند ارجمند شہزادہ چارلس نے بادشاہت کا تاج پہنا ہے تو ان کے حلف کے الفاظ اور دنیا کے حالات میں تبدیلی ہو چکنے کے پیش نظر مممالک کا نام لینے کی بجائے شاہ چارلس سوم کے حلف میں برطانیا اور اس کے سمندر پار علاقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔اس کی وجہ یقیناً ان زیر نگیں علاقوں اور ملکوں کی تعداد میں کمی بھی ہو سکتی ہے کہ اپنی ان نو آبادیوں کے کم ہونے کی خفت کا اظہار نہ ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تیز طرار ذرائع ابلاغ اور سفارتی حکمت عملی پیچیدہ تکنیکی تقاضے ایسا رکھنے پر مجبور کر رہے ہوں۔
بہرحال ملکہ برطانیا ان معنوں میں خوب کامیاب رہیں کہ انہوں نے 70 سال قبل اپنی جس انجیل مقدس اور چرچ کے ساتھ گہری وفاداری کا حلف لیا تھا، طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی ملکہ اپنے بیٹے اور نئے شاہ برطانیا چارلس سوم کو انجیل مقدس کے ساتھ وہی وابستگی اور وفاداری منتقل کر کے گئی ہیں۔اسی لیے شاہ چارلس سوم نے اپنی تقریب حلف برداری کے دوران اسی بائبل کو ہاتھ میں لے کر گواہی دی کہ وہ اس کے ساتھ وفادار رہیں گے۔ ان کی والدہ نے 1952 میں بھی بائبل کے ساتھ اپنی تقریب حلف برداری میں گہری کمٹمنٹ اور وفاداری کا اظہار کیا تھا۔مسلم دنیا کے حکمرانوں اور قائدین کا مندروں میں گھنٹیاں بجانے اور مورتیوں کو عوام کے لیے زیارت گاہ بنا دینے میں کردار ادا کرنا ازخود اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
ملکہ برطانیا نے میز پر رکھی بائبل کے سامنے اعلان فرمان برداری کے انداز میں گھٹنے ٹیکتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ بائبل کی بیعت کرنے کے انداز میں رکھا تھا۔ شاہ چارلس سوم نے اسی بائبل کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر حلف اٹھایا ہے۔دونوں میں یہ بات بھی مشترک رہی ہے کہ جب ان سے حلف لیتے ہوئے بائبل اور چرچ کے بارے میں استفہامیہ انداز میں وفاداری اور ان کے تحفظ کا پوچھا گیا تو ان کا جواب مکمل اثبات میں تھا۔اب ستر سال بعد جب شاہ چارلس برطانیا کے اس اعلیٰ ترین منصب تک پہنچے ہیں تو انہوں نے بھی کسی شرم یا جھجک کے بغیر بائبل اور چرچ کے ساتھ اپنی گہری وابستگی کا برطانیا کے تمام تر زعما کے سامنے اعلان کیا ہے۔
یہ بلاشبہ جب پوری دنیا کی سیاست اور نظامِ مملکت کو مذہب سے بیگانہ اور اجنبی کرنے کی یورپی تحریک زوروں پر ہے۔ مسلم دنیا میں بھی یہ تحریک اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر ’انٹیلی جینسیا‘ اور حکمران طبقے کو یہ باور کرا چکی اور بہت سوں کو مذہب کے مقابل کھڑا کر چکی ہے۔شاہ چارلس سوم کا اپنی والدہ کے نقش قدم پر مذہبی حوالے سے بھی کاربند رہنے کا عزم ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس پر خود برطانیا کے لبرل اور سیکیولر طبقات کا آنے والے برسوں میں رد عمل کن شکلوں میں سامنے آتا ہے، یہ اپنی جگہ اہم ہو گا۔مگر یہ بھی امکان رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں عوامی، سیاسی اور سماجی سطحوں پر یہ سوال اٹھیں کہ ہمیں اپنی سیاست اور نظامِ حکومت کو کتاب وسنت سے الگ رکھ کر چلانے کی تبلیغ کیوں کی جاتی ہے؟
کیوں ایسا ہے کہ ملکہ برطانیا اور شاہ چارلس کے آبائی دین کو برطانیا سمیت بہت سے یورپی ممالک کے پرچم بھی صلیب اٹھائے کھڑے نظر آتے ہیں مگر دوسروں کو اپنی سیاست ’مذہب سے پاک‘ رکھنے کا درس دیتے ہیں۔آنے والے دنوں میں اٹھنے والے اس سوال کی بھی اہمیت کو نظر انداز کرنا آسان نہ رہے گا کہ اگر آج بھی برطانوی بادشاہ برطانیا سے باہر کے کئی ممالک یا علاقوں کے عوام پر حکومت کر رہے ہیں اور اپنے حلف میں بھی اس کا اظہار کرتے ہیں تو کیا واقعی آزادی کی نیلم پری کی تاریخ محض ایک کہانی ہے یا جمہوریت کی نیلم پری برطانوی بادشاہت کے تابع ہے۔اس پہلو سے بھی اہم ہے کہ برطانیا اور اس انداز میں سوچنے والے تعلیم یافتہ طبقوں کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی نوجوانوں کے حوالے سے فعال ہو رہی ہیں ان سوالوں کیا ہو گا اور کیسا ملے، اس بارے میں کہنا تو مشکل ہے لیکن دنیا میں سوچنے سمجھنے کی سطح پر ایک ہلچل ضرور جنم لے سکتی ہے۔
برطانوی شاہ کے حلف کے تناظر میں جہاں نئے سوالات ابھریں گے وہیں یہ امکانات بھی پیدا ہوں گے۔ کہ آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کے بارے میں یورپ اور امریکا میں جاری معاندانہ انداز ختم کرنے کے لئے برطانوی قیادت اور ’انٹیلی جینشیا‘ کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔نیز جس طرح شاہ برطانیا چرچ کے تحفظ کا حلف لے کر سامنے آ رہے ہیں۔ مسلمانوں کی مساجد اور مدارس کا تحفظ بھی دنیا کے مدبر اور باضمیر قائدین سے اسی طرح کی توقع کی جائے اور دنیا میں سماجی وسیاسی سطح پر نفرت کے راستے میں رکاوٹ پیدا ہو۔
اگر اس پس منظر میں شاہ چارلس کے تخت برطانیہ سنبھالنے کے بعد مثبت انداز میں سفر آگے کی طرف بڑھا تو بلاشبہ اس سے افراتفری کی زد میں آ چکی مضطرب دنیا میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے کا احساس ابھرے گا۔بصورت دیگر ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کو جہاں آج کل خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے، ان کی ریاستی وسیاسی سوجھ بوجھ اور تدبر کا اعتراف جاری ہے، وہیں نئے بادشاہ کے حوالے سے ایسے سابقوں لاحقوں کا امکان کمزور ہوتا چلا جائے گا۔یہ اپنی جگہ درست ہے کہ ملکہ برطانیا نے 70 سالہ طویل اقتدار میں رہنے والی شخصیت کے باوجود زیادہ وقت دنیا کے مسائل کے بارے میں چپ اختیار کیے رکھی یا پھر برطانیا کی حکومتی پالیسی کی پشت پر خاموش کھڑی رہیں۔
بدقسمتی سے انہیں 70 برسوں میں جس قدر مثبت انداز میں برطانیہ کے باہر کے علاقوں کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ نہ ہو سکا۔ دیکھا جائے تو اس بارے میں زیادہ تر تاریخ بھی خاموش ہے۔ خصوصاً اتنے طویل عرصے کے لیے حکمرانی پر رہنے والی شخصیت کے تدبر اور تجربے سے دنیا کی توقعات کے مقابلے میں خاموشی زیادہ رہی۔ترکیہ اور مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے لیے جو 1920 میں برطانیہ اور فرانس نے مل کر معاہدہ کیا تھا، وہ الزبتھ دوم کی پیدائش سے پہلے ہوا تھا۔ تاہم جس طرح ان کی تخت نشینی کے بعد مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل کو ہر طرح کے تسلط اور قتل وغارت کی اجازت جاری رہی اور آج بھی موجود ہے۔اسے تبدیل کرنے کے لیے ان کا ایسا مدبرانہ کردار سامنے نہیں آ سکا جس کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ کے ممالک کی اکثریت بالعموم اور فلسطینی عوام بالخصوص انہیں اس کھاتے میں خراج عقیدت پیش کر سکیں۔
اب ملکہ برطانیا کا اس دنیا کسے کوچ ہو چکا ہے اور انہیں ان کے آنجہانی شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ کے پہلو میں دفن کرنے کی تیاری بھی ہو چکی ہے۔ لیکن ان کا عالمی سطح پر مثبت یا منفی کردار کبھی دفن نہیں ہو سکے گا۔مظلوم اقوام خصوصاً پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بھی اسرائیلی ظلم وجبر کا مسلسل نشانہ بننے والے فلسطینی اور ان کی نئی نسل یہ سوچنے پر مجبور رہے گی کہ اس عالمی شخصیت کا ایسا کردار کیوں سامنے نہ آ سکا جو فلسطین کی سر زمین میں پیوست اسرائیلی خنجر کا تدارک کرنے والا ہوتا۔دیکھنا یہ ہو گا برطانیا کے نئے بادشاہ اس اہم عالمی مسئلے پر اپنی والدہ کی طرح خاموش تماشائی بن کر بادشاہت چلاتے رہتے ہیں یا اس قدیمی ادارے کو انسانیت کے لیے وسیع تر بنیادوں پر مفید ثابت کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر