وجود

... loading ...

وجود
وجود

امدادی سامان اور شفافیت

هفته 17 ستمبر 2022 امدادی سامان اور شفافیت

آج بھی ملک کے کئی علاقوں میںشہری سیلاب میں گھرے امداد کے منتظر ہیں سیلاب کی تباہ کاریوں سے یہ متاثر ہ مردو زن بھوک و افلاس کا شکاربھی ہیں اور کئی علاقوں میں وبائی امراض پھیلنے لگے ہیں سیلاب کی وجہ سے ہزاروں انسانی اموات کے ساتھ لاتعدادجانور مرچکے ہیں لاکھو ںایکڑ دھان کی فصل ضائع ہوچکی ، سبزیوں کے کھیت پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر اتنی تباہی کے باوجود محفوظ گھروں میں بیٹھی اشرافیہ ایسے ظاہرکررہی ہے جیسے کچھ ہواہی نہ ہوحالانکہ سیلاب کی تباہی کاریوں کے اثرات چند ماہ میں ختم ہونے والے نہیں کیونکہ اناج اورسبزیوں کے لہلاتے کھیت پانی کی جھیلیں بن چکی ہیں جس سے مستقبل قریب میں خوراک کا سنگین بحران جنم لے سکتا ہے ایسے میں چاہیے تو یہ تھا کہ متاثرین کی بحالی کے ساتھ زرعی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے پر سب یکسو ہوتے بے گھروں کو بسانے کی منصوبہ بندی کی جاتی اور ہنگامی طورپر متاثرین کے لیے کھانے پینے کا فوری بندوبست کیا جاتا مگر ایسا کچھ نہیں ہورہابلکہ حالات کے رحم وکرم پر بے یارومددگارچھوڑ دیا گیا ہے جس طرف نگاہ دوڑائیں نمبر بنانے اور خودنمائی کی دوڑ تولگی نظر آتی ہے لیکن عملی طورپرکچھ نہیں ہورہا وفاق اور صوبوں میں سیاسی سرگرمیوں کی دوڑ ہے مگرامدادی کاموںکے حوالے سے طریقہ کار بناکر عمل درآمد کی نوبت نہیں آسکی یہ بے رحمی و سنگ دلی ہے اور لاپرواہی و سُستی بھی، آناََ فاناََ ہنستے بستے گھر ملیا میٹ ہوگئے مگرکسی کو احساس تک نہیں ہم وطنوں کو مشکلات میں گھرا دیکھ کرتو کوئی ذی شعور بے حس اورلا تعلق تو ہر گز نہیں رہ سکتا۔
حکومت کی اپیل پر عالمی برادری اور دوست ممالک سامان بھیجنے لگے ہیںاور سیلاب سے دوچارکچھ علاقوں تک امدادپہنچنا شروع ہو گئی ہے لیکن یہ امداد نقدی نہیں بلکہ زیادہ تر خوراک ،خیمے ،پانی جیسی اشیا کی صورت میں ہے ایسے حالات بنانے کی ذمہ دار ہماری قیادت ہے حکومت کے امدادی کاموں پر اپوزیشن سوال اُٹھا رہی ہے جبکہ حکومت یقین دلا رہی ہے کہ اپوزیشن بددیانت ہے جس سے دوست ممالک اور عالمی اِدارے نقد امداد سے کترانے لگے ہیںعالمی برادری کی طرف سے قبل ازیںایسا مظاہرہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا یہ بے اعتباری اور شکوک و شبہات کی فضا بنانے میں ملک کی سیاسی اشرافیہ نے بڑی محنت کی ہے تب جا کر عالمی برادری نے ہمیں من حیث القوم ناقابلِ اعتبار سمجھاہے اتنا نقصان ہونے کے باوجود لگتا ہے ہمیں احساس تک نہیں کہ ہم اپنے طرزِ عمل سے اپنے متعلق دنیا کوکیا باور کرارہے ہیں پوری قوم کو خائن قرار دینے اورثابت کرنے کاذمہ دار ایک فریق نہیںبلکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ذمہ دار ہیں یہ جو تھوڑی بہت بیرونی امداد آئی ہے اِس میں ہماری سیاسی قیادت ،وزارتِ خارجہ یا حکومتی ذمہ داران کا کوئی خاص کردار نہیں بلکہ آرمی چیف کی شب وروز محنت کا ثمر ہے، جب حاکمانِ وقت اور حزبِ مخالف دشنام طرازی کے وار کرنے اورایک دوسرے کو نیچادکھانے میں مگن تھے عسکری قیادت نے سعودیہ،چین ،بحرین ،امریکا،ترکی سمیت دیگر کئی دوست ممالک سے روابط کیے اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا اِن روابط کا ثمر ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے امدادی سامان سے بھرے طیارے آرہے ہیں یہاں ایک اور نکتہ بہت اہم ہے کہ لایا جانے والا بہت کم سامان حکومتی زمہ داران کے حوالے کیا جا رہا ہے بلکہ عطیہ دینے والے ترکی سمیت کئی ملک زیادہ تر امدادی سامان کی تقسیم کی خود نگرانی کررہے ہیں ایسی بے اعتباری کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی مگر ہم پھر بھی کچھ سیکھنے یا سمجھنے کو تیار نہیں بلکہ بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کو چور اور بددیانت ثابت کرنے میں مصروف ہیں یہ ملک یا قوم سے الفت نہیں بلکہ ہم وطنوں کودنیا کی نظروں سے گرانے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے شاید قیادت کے پیشِ نظر واحد فرض ملک کو دنیا کی نظرں میں بے اعتبار ثابت کرنا ہی ہے ۔
حکومتی حلقوں نے خود بڑے پیمانے پرعطیات اکٹھے ہی نہیں کیے جبکہ عمران خان کی ٹیلی تھون فنڈ ریزنگ ایسی کوششوں کو بھی دانستہ طورپر ناکام بنانے کی ہرممکن کوشش کی ہے حالانکہ اپوزیشن رہنما کو ذرائع ابلاغ سے دور رکھنے کے اور بھی کئی طریقے اختیار کیے جا سکتے تھے مگرحکومت نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا بہتر تصور کیا شاید اِس کی وجہ حکومت کو یہ خوف ہے کہ اگر عمران خان نے زیادہ عطیات اکٹھے کر لیے تو اُس کی نیک نامی میں اضافہ اور حکومت کی سُبکی ہو گی مگر ایسا سوچتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عمران خان کئی دہائیوں سے فلاحی منصوبوں کے لیے بڑے پیمانے پر عطیات اکٹھے کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں عطیات حاصل کرنے کی تقریبات منعقد کرنے اور اُن میں کئی عالمی سطح کی شخصیات کو مدعو کر چکے ہیں لیکن کسی قسم کے غبن کا کوئی داغ نہیں لگااِس لیے اُن کی ایک ساکھ اور اعتبار ہے بہتر تو یہ تھا کہ متاثرین کی بحالی کے کام کو سیاست سے الگ رکھا جا تا مگر حکومتی حلقے ایسے ظرف کا مظاہرہ نہیں کر سکے بلکہ ذرائع ابلاغ پر دبائو ڈال کر ایسے حالات پیدا کرتے رہے کہ عطیات کے حوالے سے عمران خان کا پیغام لوگوں تک نہ پہنچ سکے پھر بھی ایک خطیر رقم عطیات کی صورت میں جمع ہو گئی ذرائع ابلاغ پر بندشیں لگانے کے فعل کو عوام کی بڑی تعداد نے پسند نہیں کیابلکہ سچ تویہ ہے کہ حکومت نے کچھ حاصل کرنے کی بجائے اپنی نا عاقبت اندیشی سے اپوزیشن کومقبول کو مزید مقبول بنانے کی کوشش کی ہے ۔
سیلاب کی صورت میں وطنِ عزیز ایک بڑی آزمائش سے دوچارہے مواصلات کا نظام تباہ اور انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ چکا ہے سیلاب زدہ علاقوں میں زرعی سے لیکر صنتی سرگرمیاں تک رُک چکی ہیں یوں روزگارکے مواقع ختم ہوچکے محصور علاقوں سے لوگوں کو نکالنے کے لیے فوجی طیارے ہیلی کاپٹر اور کشتیاں استعمال کی جارہی ہیں فوج کے ساتھ کئی خیراتی اِدارے تو متحرک ہیں مگر حکومتی حلقوں کی طرف نگاہ دوڑائیں تو آج بھی مایوسی ہوتی ہے، ایک سکوت سا طاری ہے وہی وزیر و مشیر جو نت نئے انداز میں حزبِ مخالف پر گرجتے برستے نظر آتے ہیں وہ سیلاب متاثرین کی امداد سے ایسے کنارہ کش ہیں جیسے ایسے کاموں سے اُن کا کوئی سروکارہی نہ ہو جبکہ سوشل میڈیاپر الگ طوفان برپاہے جہاں دکانوں پربکتے امدادی سامان کی تشہیر کی جارہی ہے اِس گری حرکت میں اپوزیشن ملوث ہے ایسی حرکتوں کی بناپرہی قدرتی آفت کے دوران عالمی ردِ عمل اندازوں سے کم ہے اپوزیشن بھی ایسی غیر زمہ دارانہ سرگرمیوں سے سیلاب متاثرین کی مدد نہیں کررہی بلکہ مشکلات کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے حکومت کو فوری طورپر چاہیے کہ سچ و جھوٹ واضح کرنے کے ساتھ سُستی و کاہلی چھوڑ کر اقوامِ متحدہ اور امدادی ایجنسیوں سمیت اُن کے شراکت داروں کی طرف سے اعلان کی گئی امدادی رقوم کی وصولی اور اُس کی تقسیم میں شفافیت یقینی بنانے پرتوجہ دے تاکہ عالمی برادری کا اعتبار کم نہ ہو یہ رقم وزیروں و مشیروں کے دستِ بُرد سے بچاکر خوراک ،صحت،صاف پانی کی فراہمی اور صفائی کی خدمات پر خرچ کرنے کو یقینی بنایاجائے اگر ایسا نہیں ہوتا تو حکومت ،سیاستدانوں اور سرکاری اِداروں کی تباہ حال ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا اور آئندہ شاید ہی کوئی مشکل میں ہماری مددکو آئے صرف سیلاب متاثرین کے بجلی کے بل معاف کرنا کوئی ریلیف نہیں بلکہ یہ ایک مذاق ہے کیونکہ جہاں گھر اور کارخانے تباہ ہو چکے ہیں وہاں بجلی تو استعمال ہی نہیںہورہی اِس لیے بجلی کے بل معاف نہ بھی کیے جائیں تو متاثرین کو خاص فرق نہیں پڑے گابہتر یہ ہے کہ متاثرین کی بحالی کاکام ٹھوس بنیادوں پر کیا جائے اگر قدرتی آفت کے ایام میں بھی ہم اتحاد ویگانگت کا جذبہ ظاہر نہیں کرتے تو نہ صرف عالمی اِدارے مزید بدظن ہوں گے بلکہ من حیث القوم ہماری غیرسنجیدگی کا تاثربھی راسخ ہو گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر