وجود

... loading ...

وجود
وجود

منشیات فروش گروہ کے خلاف آپریشن اورسرکار کی عملداری

جمعرات 15 ستمبر 2022 منشیات فروش گروہ کے خلاف آپریشن اورسرکار کی عملداری

جمعہ7ستمبر کو علی الصبح کوئٹہ پولیس اور محکمہ انسداد دہشتگردی نے عین شہر میں واقع سٹی نالہ میں کئی دنوں کی ریکی اور مشق کے بعد کارروائی کی۔ پولیس فورسز کے نالے میں اترتے ہی نالہ اپنا مستقل مستقر بنانے والے منشیات فروخت کرنے والے گروہ نے ان پر گولیاں چلانا شروع کردیں۔ یوں پولیس فورس نے جواباً فائر کھول دیا۔ تا دیر کی مدبھیڑ کے بعد نالہ کنٹرول میں لیا گیا۔ پولیس مقابلے میں منشیات کا دھندہ کرنے والے آٹھ افراد مارے گئے۔ دو زخمی ہوئے اور ان سمیت سات گرفتار کرلیے گئے۔ نعشیں سول ہسپتال منتقل کردی گئیں، جہاں ایک کی شناخت ان کے سرغنہ آصف عرف صفو کے نام سے ہوئی ۔ ڈی آئی جی کوئٹہ غلام اظفر مہیسر نے بتایا کہ آصف پولیس کو منشیات فروشی کے ساتھ قتل ،اقدام قتل، پولیس پر فائرنگ سمیت کم از کم نو مقدمات میں کئی سالوں سے مطلوب تھا۔ مارے جانے والے باقی افراد بھی چوری ، ڈکیتی اور منشیات فروشی کے متعدد مقدمات میں مطلوب تھے۔ اہم بات ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزازاحمد گورائیہ نے یہ بتائی ہے کہ نالہ کے اندر منشیات فروشی کا دھندہ ’’ٹیرر فنانسنگ‘‘ کے لیے بھی ہورہا ہے۔ ذکر کالعدم بی ایل اے ، داعش اور تحریک طالبان پاکستان کا کیا گیا ۔لیکن اس کی جامع اور مربوط تفصیلات نہ بتائی گئی ہیں کہ سٹی نالہ کے اندر منشیات کے کاروبار سے کالعدم گروہ کا کس طرح و نوعیت کا تعلق تھا۔ مارے جانے والے افراد میں کس کا کس گروہ سے تعلق تھا۔ غالباً یہ اطلاع پہلی بار کی ہے کہ کالعدم گروہ سٹی نالہ کے اندر منشیات فروشی سے مالی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ تاوان کی غرض سے اغوا ، بعض اوقات ڈکیتیوں کی رپورٹس موجود ہیں ۔ مصدقہ طور پر کالعدم بی ایل اے کوئلہ کانوں سے جبری ٹیکس لیتی ہے۔ جہاں سے یہ تنظیم ماہانہ خطیر رقم اکٹھی کر تی ہے۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھکی بات نہیں ہے۔ چناں چہ سٹی نالہ آپریشن کا یہ تناظر وضاحت طلب معاملہ ہے ۔ اگر فی الواقع ایسا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔ شہر کوئٹہ کا یہ نالہ حبیب نالہ کے نام سے موسوم ہے۔
انگریز دور میں کوئٹہ شہر کی تعمیر و تشکیل کے بعد بارانی و سیلابی پانی کی نکاسی کی غرض سے یہ اور ایسے دوسرے نالے تعمیر کئے گئے ہیں۔ جس میں خشت( اینٹ ) کاری کی گئی ہے ۔اب تو شہر کا یہ نالہ کچرہ سے لبالب ہے ۔جس کی باقاعدہ اور متواتر صفائی میٹرو پولیٹن کارپوریشن فراموش کرچکی ہے۔ چناں چہ نالہ کا کئی سو میٹر حصہ پچھلی چند دہائیوں سے منشیات کے عادی افراد اور منشیات فروشوں کا ٹھکانہ اور کمین گاہ بن چکا ہے۔ یقینا مختلف اوقات میں پولیس کارروائی بھی کرچکی ہے، جو عارضی اور محض نمود کا تاثر دیتی رہی ہے ۔جبکہ در حقیقت نالہ حکومت، پولیس اور ضلع کی انتظامیہ کی عملداری ( رٹ) سے باہر رہا ہے۔ کالعدم تنظیموں کی زبانی کلامی رپورٹ تودی جا چکی ہے، لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ نالہ میں منشیات کے سیاہ و قبیح دھندہ میں پولیس، انٹی نار کوٹیکس فورس ، ایکسائز وغیرہ کی کالی بھیڑیںکسی نہ کسی طور و طرح ملوث ہیں۔ شراکت داری کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ وسط شہر حساس علاقے میں جہاں متصل ریڈیو پاکستان کا دفتر ہے،چند میٹر کے فاصلے پر ایرانی قونصل خانہ اور بلوچستان ہائی کورٹ، بلوچستان اسمبلی اور کچھ ہی دوری پر گورنر ، وزیراعلیٰ ہائوس ،آئی جی کا دفتر اور گھر واقع ہے میں دن رات دھڑلے سے منشیا ت کے عادی افراد کا تانتا بندھا رہے۔ ایک سروے کے مطابق دس ہزار افراد جن میں پانچ سو خواتین بھی شامل ہیں نالے میں آتے جاتے ہیں ۔ایک بڑی تعداد ہمہ وقت نالہ میں رہتی ہے۔ باقی کوئی شہری بشمول میڈیا کے لوگوں کی جرأت و ہمت نہیں کہ اترنے کی کوشش کریں۔ نالے کے آس پاس شہری لوٹے بھی جاتے ہیں۔ جناح روڈ پر نالہ میں اترنے کاراستہ بند کرنے کی خاطر پل کے دونوں اطراف دیوار تعمیر کی گئی ہے کہ مغربی سمت دیوار میں منشیات فروشوں کی سہولت کے لیے دیوار کی تعمیر کے وقت کھڑکی مانند جگہ چھوڑی دی گئی ۔جس پر صبح شام منشیات کے عادی افراد کی لائن لگی ہوتی ۔ دوسری جانب انہیں منشیات فروخت کی جاتی۔ گویا دن رات چلنے والا یہ دھندہ سرکار کی ناک کے نیچے ہوتا رہا ہے۔
مذکورہ آپریشن کے بعد نالہ کی بندش ماضی کی مشق کو دیکھتے ہوئے عارضی لگتی ہے۔ نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ ہیروئن کا نشہ کرنے والے افراد مختلف موذی امراض میں مبتلا ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد کالا یرقان، ایچ آئی وی میں مبتلا ہیں۔ ان افراد نے شادیاں کر رکھی ہیں۔ بچوں کے باپ ہیں۔ ازدواجی تعلق سے وہ خواتین اور بچے بھی ان موذی امراض کا شکار بن جاتے ہیں ۔اس طرح یہ بیماریاں تیزی سے معاشرے کے اندر پھیل و سرایت کررہی ہیں ۔یہ پہلو بھی لمحہ فکریہ ہے جس کے تدارک کے لیے راست قدم اٹھانے ہوں گے۔ سوال حکومت، انتظامیہ ، پولیس اور دوسرے محکموں اور اداروں کے کردار اور ساکھ پر اٹھتا ہے کہ جو دہائیوں سے نالے میں رٹ قائم کرنے میں ناکام ہیں۔سو ایسی حکومتیں اور ادارے دوسرے سنگین معاملات سے جو ریاست کیلئے چیلنج اور مشکل بنے ہیں خاک نبرد آزما ہوں گے ۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی غفلت اور بد عنوانی نے شہر برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ حکومت والے دیواروں پر پینٹنگ کراکر دراصل اپنے گناہ چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔شہر گندگی کے ڈھیر میں بدل چکا ہے ۔ کوئٹہ پر تیزی سے آبادی کا دبائو بڑھ رہا ہے ۔ بے مہار آبادی گوناں گوں مسائل اور مشکلات کی وجہ بن رہی ہے ۔ زیر زمین پانی کی کمی کا سامنا ہے۔وجہ آبادی کا غیر فطری اژدھام اور غیر قانونی ٹیوب ویلوں کی تنصیب ہے ۔ ظاہر ہے ایسا سرکار کے محکموں کی اجازت سے ہورہا ہے۔ بجلی و گیس کی کمیابی و بحران کی وجوہات یہ بھی ہیں۔ سرکار اور ریاست کی زمینیں قبضہ ہوئی ہیں یا ہورہی ہیں۔ حالیہ سیلابوں میں نقصانات بارانی ندی نالوں پر قبضہ اور تجاوزات ایک وجہ بنی ہیں ۔ گویا جو حکومت ایک نالہ پر تصرف نہ پاسکے وہ صوبے کی دارالخلافہ کو بربادی سے کیسے بچا سکے گی۔ خود صوبے کی سرکار پر عوام کی رتی بھر اعتبار نہیں جو اپنے حق حلال کی کمائی سیلاب زدگان کی بحالی و مدد کی خاطر سرکار کے فنڈ میں جمع کرنے کو تیار نہیں۔ چند لاکھ اکٹھے ہونے کی خبریں سننے کو ملی ہیں، جونہ جانے کن معصوم لوگوں نے ان کے قائم ریلیف اکائونٹ میں جمع کئے ہیں۔ اس کے برعکس شاید سیلاب فنڈز سے زیادہ کی رقم کے اخبارات کو ترغیبی اشتہارات جاری ہوچکے ہیں۔ چناںچہ یہ معاملہ بھی سمجھنے والا ہے !۔موجودہ حکومت کو قائم ہوئے بڑا عرصہ ہو چکا ہے جو اب تک کوئٹہ میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکی ہے۔ترقیاتی منصوبے الل ٹپ ہیں ۔ سریاب روڈ توسیع منصوبہ جام کے ہٹائے جانے کے ساتھ ہی رک چکا ہے ۔ رئیسانی روڈ ، لنک مغربی بائی پاس ، لنک بادینی روڈ ،سرکی روڈ اور سبزل روڈ پر بھی کام رکا ہوا ہے ۔ اگر کچھ کام ہوا ہے تو اس میں معیار نظر اندا زہے۔اب اس جمودکے لیے شاید بارشوں اور سیلاب کی تباہیوں کا عذر تراشیں ۔ ان میں سے کئی منصوبوں پر کام کئی سال پہلے شروع کیا گیا تھا ۔ کام رکنے کی وجہ سے ٹریفک جام ، مٹی ، دھول اور بارش اور نالوں کا گندا پانی جمع ہونے سے شہری تکلیف میں مبتلا ہیں۔بہر کیف کوئٹہ پولیس نے سٹی نالے بارے بہترین پیشرفت کی ہے اس پر ہمہ وقت اعلیٰ سطح پر نگاہ اور توجہ مرکوز رکھی جائے گی تو دوبارہ سے نالہ منشیات کے عادی افراد اور فروخت کرنے والوں کی آماجگاہ نہ بن سکے گا۔ بتایا گیا کہ نالے میں پولیس چوکیاں قائم کی جائیں گی ۔چناں چہ ایک منظم میکنزم کے تحت اگر نگرانی ہو تو کامیابی ملے گی۔ وگر نہ یہ مشاہدہ عام ہے کہ مامور اہلکار، آلہ کاراورجرم میںشریک بن جاتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر