وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیر پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ

جمعرات 15 ستمبر 2022 کشمیر پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ

انسانی حقوق کے لیے سرگرم معروف عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حال ہی میں جاری اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جموں و کشمیر میں پچھلے دو برسوں یعنی اپریل 2020سے مارچ 2022تک پولیس مقابلوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اگست 2019کے بعد سے ا ب تک شہریوں کی ہلاکتوں میں 20فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقامی قوانین کی منسوخی کے نتیجے میں سات اداروں بشمول انسانی حقوق کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا، جس سے خطے کے لوگوں کیلئے انصاف کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق خطے کے ہائی کورٹ میں اسوقت 1346 حبس بیجا کے کیسز التواء میں ہیں۔ مجموعی طور پر حبس بیجا کی درخواستو ں میں پچھلے تین برسوں میں 32فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ عدالت نے جن 585درخواستوں کی سماعت شروع کی ہے، ا ن میں اب تک صرف 14درخواستیں ہی نمٹا دی ہیں۔رپورٹ نے 60 ایسے واقعات کی تفصیلات درج کی ہیں، جن میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو یا تو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا یا حراست میں لیا گیا۔ اسکے علاوہ متعدد نیوز میڈیا اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگا کر قومی تحقیقاتی ایجنسی اور محکمہ انکم ٹیکس کی طرف سے مسلسل چھاپوں اور تحقیقات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہراساں کیے جانے اور ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے بہت سے صحافی یا تو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا پیشہ ہی چھوڑ گئے ہیں۔ اسکے علاوہ صحافیوں، وکلائ، سیاست دانوں، انسانی حقوق کے کارکنان، اور تاجروں سمیت 450 سے زائد افراد کو بغیر کسی عدالتی حکم کے “نو فلائی لسٹ” میں رکھا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پایا کہ 5 اگست 2019 سے 5 اگست 2022 کے درمیان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم سمیت کم از کم چھ افراد کو بغیر کسی وجہ کے بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا۔ انسانی حقوق کے ایک محافظ نے جسے بیرون ملک پرواز کرنے سے روک دیا گیا تھا ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا، کہ سفری پابندیاں جبر کے انداز کا ایک اور پہلو ہیں۔یہ ایک ایسا حربہ ہے جس کو حکام نے ملک کے اندر اور باہر آزاد، تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا ہے۔
پچھلے تین سالوں میں بھارتی حکومت نے 164 مقامی قوانین منسوخ کیے اور 143مرکزی قوانین کی اس خطے تک توسیع کی۔ مگر بد نامہ زمانہ مقامی قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کو برقرار رکھا۔ اس کے علاوہ ا?رمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ جو فوجی اہلکاروں یا نیم فوجی تنظیم کے اہلکاروں کو کسی بھی شخص کو مکمل استثنیٰ کے ساتھ گولی مارنے یا قتل کرنے کا اختیار دیتا ہے،مضبوطی سے نافذ ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمارکے مطابق جموں و کشمیر میں انسداد دہشت گردی قانون (UAPA) کے استعمال میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس قانون کے تحت حکام کسی بھی فرد کو بغیر چارچ شیٹ فائل کیے 180 دن تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شکایت کی ہے کہ بھارت میں اسکی زمین پر کام کرنے کی صلاحیت کو محدود کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اس کے دفاتر پر ریڈ کرکے اس تنظیم کے خلاف منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ 2002، فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ، 1999 اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ، 2010اور دیگر قوانین کے تحت کیسز درج کیے گئے ہیں۔ ستمبر 2020 میں، بھارتی حکام کی جانب سے تنظیم کے خلاف مسلسل مہم کے بعد، ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھارت میں اپنا دفتر بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اس کے تمام بینک اکائونٹس منجمد کر دیے گئے۔ اس رپورٹ میں ایمنسٹی نے بتایا کہ زمین پر کام کرنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے انکو مختلف افراد سے انٹرویو کا سہارا لینا پڑا۔ انٹرویو دینے والوں نے تنظیم کو بتایا کہ ان کے نام ظاہر ہونے کی صورت میں ان کو اور ان کے رشتہ داروں کو انتقامی کاراوائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کئی صحافیوں نے ایمنسٹی کے اہلکاروں سے بات کرنے سے ہی انکار کردیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 22 اگست 2022 کو بھارتی حکومت کو اس صورت حال کے حوالے سے خط لکھا ، مگر رپورٹ کے اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ رپورٹ میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، 5 اگست 2019 سے جموں و کشمیر میں کم از کم 27 صحافیوں کو بھارتی حکام نے گرفتار اور نظر بند کیا ہے۔پریس کونسل آف انڈیا نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2016 سے اب تک اس خطے میں کم از کم 49 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے آٹھ کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومتی یا گودی میڈیا نے 11صحافیوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کی طرف سے حکومت سے جوابدہی کا مطالبہ کرنے پر اسکو ریاست مخالف بیانیہ بتایا اور ا ن پر الزام لگایا کہ ان کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔
جولائی 2020 میں، سیکورٹی اہلکاروں نے کشمیر کے ضلع شوپیاں میں تین افراد کو ‘دہشت گرد’ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ہلاک کیا۔ تین افراد نے گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔ جس کے بعد فوج نے انکوائری کا حکم دیا اور پایا کہ مسلح افواج کے ارکان نے اختیارات سے تجاوز کیا تھا۔ مگر بجائے عدالت کے ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ فوجی عدالتیں اپنی اہلیت کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مقدمہ چلانے کے لیے غیر موزوں ہوتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مبینہ مجرموں، خاص طور پر حراستی تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے ملزموں کو قانونی چارہ جوئی اور جوابدہی سے بچانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کے کیسز فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اگست 2019 تک، جموں و کشمیر کا اپنا ریاستی انسانی حقوق کمیشن تھا۔یہ ان سات مختلف خود مختار کمیشنوں میں شامل تھا جن کو ختم کر دیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے، ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس بلال نازکی نے کہا، جس وقت اس ادراے کو تحلیل کیا گیا، اس وقت اس میں آٹھ ہزار سے زیادہ زیر التوا مقدمات تھے۔دوسری طرف بھارت کی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی تین سالوں سے سماعت نہیں کی۔ ایک وکیل نے تنظیم کو بتایا کہ عدالتیں مناسب وجوہات بتائے بغیر مقدمات کی سماعت میں تاخیر کرتی ہیں۔اس خطے میں، جموں و کشمیر رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ موجود تھا جس کی جگہ نیشنل رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ، نے لے لی۔ مگر ، مرکزی حق اطلاعات ایکٹ کو برسوں کے دوران مسلسل کمزور کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انتظامی حراست اور دیگر جابرانہ قوانین کے تحت من مانی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے خلاف باقاعدہ عدالت میں فوری اور منصفانہ مقدمہ چلایا جائے۔اسکے علاوہ حکومت کو فیصلہ سازی کے عمل میں جموں و کشمیر کے لوگوں کی نمائندگی اور شرکت بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ غیر قانونی نگرانی کے اقدامات، من مانی حراست، اور آزادی اظہار پر پابندیاں لگانے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اقدامات کو چھپانے کی حکومت کی کوششیںجموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر