وجود

... loading ...

وجود
وجود

مہنگائی کا سونامی

جمعه 09 ستمبر 2022 مہنگائی کا سونامی

دوستو، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور سیلاب و طوفانی بارشوں کے باعث اشیاء کی سپلائی متاثر ہونے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔گزشتہ ہفتے کے دوران ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں مزید 1.83 فیصد اضافہ ہوگیا اور مجموعی شرح 44.58 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ متوسط طبقہ اور غریب اس کی زد میں زیادہ ہیں۔ یومیہ جتنی آمدنی نہیں، اس سے زیادہ خرچ ہے۔ تعلیمی ادارے، دواخانے اور سفر۔غرض ہر شعبہ مہنگائی کی زد میں ہے۔ ضروری بنیادی اشیاء جیسے دال، چاول، شکر، دالیں، مسالے، تیل، گھی وغیرہ کے دام بڑھنے سے متوسط اور غریب طبقے کے لئے مشکلیں پیدا ہوگئی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آمدنی نہیں بڑھ رہی ، بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے۔ ایسے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ اس طرح کی پالیسی ترتیب دے کہ ہر انسان دو وقت کی روٹی سکون سے کھا سکے۔
مہنگائی کے طوفان نے ہر پاکستانی کو شدید متاثر کیا ہے اور ایک سروے کے مطابق 81فیصد پاکستانیوں نے مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے طرز زندگی کے معیار میں کمی کی ہے۔ مارکیٹ ریسرچ کمپنی آئپسوس(Ipsos)کی طرف سے کیے گئے اس سروے میں 81فیصد پاکستانیوں نے مہنگائی اور 51فیصد نے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو اپنا سب سے بڑا خدشہ قرار دیا۔ کمپنی کی طرف سے یہ سروے پاکستان کے علاوہ افغانستان اور مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ کے پانچ ممالک میں بھی کیا گیا ہے۔جس میں صرف 28فیصد پاکستانیوں نے کرپشن اور محض 16فیصد نے غیرمعیاری تعلیم کو اپناخدشہ بتایا۔ حیران کن طور پر 94فیصد پاکستانیوں نے بڑھتی مہنگائی پر پریشانی کا اظہار کیا۔ 92فیصد شہریوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے وہ گزشتہ سال کی نسبت اب زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں۔درسی کتب، کاپی، اسٹیشنری کی قیمتیں بھی آسمان پر پہنچ گئیں، قلیل آمدن و تنخواہ دار طبقے کے لئے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی بھی خواب بن گئی، پچھلے برس 6سے 7ہزار روپے میں ملنے والا سالانہ کورس اب 10سے 12ہزار روپے تک کا مل رہا ہے، آمدن کم، اخراجات زیادہ ہیں، بچوں کو بہتر خوراک و غذا کی فراہمی یقینی بنائیں یا تمام رقم تعلیمی اخراجات پر خرچ کریں؟ ۔ عالمگیر وبا کورونا وائرس کے بعد عالمی کساد بازاری کے باعث دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مہنگائی و بیروزگاری کا عفریت عوام کا خون چوس رہا ہے، کھانے و پینے کی اشیاء سمیت روز مرہ استعمال میں آنیوالی تمام چیزوں کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں، لوگوں نے غیر ضروری اشیاء کا استعمال بالکل ترک کردیا ہے اور ضرورت کی چیزیں بھی محدود پیمانے پر خرید رہے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو تاحال نیا کورس نہیں دلاسکی ہے، کیونکہ کتاب، کاپی، اسٹیشنری کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ پہلے ہی ذہنی اذیت سے دوچار ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔۔ اے مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو،وہ پانچ باتیں یہ ہیں۔۔ پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں۔ دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی ظلم و زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔ چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے۔ پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے۔ سنن ابی ماجہ کی اس حدیث کو دیکھا جائے تو جن باتوں سے پیارے آقا صلوۃ والسلام نے ہمیں خبردار کیا وہی تمام معاملات ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکی ہیں۔۔ہمیں اجتماعی طور پر سوچنا ہوگا اور اجتماعی استغفار کرنا ہوگا۔۔ باباجی بتارہے تھے کہ ۔۔حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کے زمانے کا قصہ ہے کہ ان کے زمانے میں مہنگائی بہت بڑھ گئی، کچھ لوگ مولانا کے پاس آئے اور مہنگائی کی شکایت کی اور کہا کہ کیا ہم حکومت کے سامنے مظاہرے کرکے اپنی بات پیش کریں؟ حضرت ؒنے ان سے فرمایا۔۔ مظاہرے کرنا اہلِ باطل کا طریقہ ہے۔ پھر سمجھایا کہ دیکھو! انسان اور چیزیں، دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہیں، جب انسان کی قیمت اللہ تعالیٰ کے یہاں ایمان اور اعمالِ صالحہ کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے تو چیزوں کی قیمت والا پلڑا خودبخود ہلکا ہوکر اُوپر اٹھ جاتا ہے اور مہنگائی میں کمی آجاتی ہے۔ اور جب انسان کی قیمت اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کے گناہوں اور معصیتوں کی کثرت کی وجہ سے کم ہوجاتی ہے تو چیزوں والا پلڑا وزنی ہوجاتا ہے اور چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، لہٰذا! تم پر ایمان اور اعمالِ صالحہ کی محنت ضروری ہے، تاکہ اللہ پاک کے یہاں تمہاری قیمت بڑھ جائے اور چیزوں کی قیمت گرجائے۔ پھر فرمایا۔۔ لوگ فقر سے ڈراتے ہیں، حالانکہ یہ شیطان کا کام ہے، اس لیے تم لوگ جانے انجانے میں شیطانی لشکر اور ایجنٹ مت بنو۔ اللہ کی قسم! اگر کسی کی روزی سمندر کی گہرائیوں میں کسی بند پتھر میں بھی ہوگی تو وہ پھٹے گا اور اس کا رزق اس کو پہنچ کر رہے گا۔ مہنگائی اُس رزق کو روک نہیں سکتی جو تمہارے لیے اللہ پاک نے لکھ دی ہے۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اللہ پاک سے چلتے پھرتے باتیں کریں، اللہ پاک کو اپنی پریشانیاں بتائیں (وہ سب جانتا ہے، لیکن اسے یہ پسند ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے اپنی حاجات رکھے)اور بولیں کہ۔۔اے اللہ پاک! آپ کے علاوہ کوئی میری پریشانیاں حل نہیں کرسکتا، میری مدد کریں، مجھے اکیلا نہ چھوڑیں، یعنی اپنی دعا کی طاقت کو بڑھائیں۔ ۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر