وجود

... loading ...

وجود
وجود

لال قلعہ کاقیدی

پیر 27 جون 2022 لال قلعہ کاقیدی

دوپہرکا وقت ہونے کو تھا شہرکی تمام بڑی مارکیٹیں بندتھیںرابرٹ مائیکل نے پریشان ہوکرپوچھا کیا آج سٹرائیک ہے؟ میں نے نفی میں سرہلایاتو اس نے ایک نیا سوال کرڈالا ’’توپھریہ دکانیں کیوں بند ہیں؟
میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا وہ کچھ بڑبڑایا
میں نے پوچھ ہی لیا کہ اب کیا پریشانی ہے ؟
اس نے پریشانی کے عالم میں اضطراب سے کہا’’یار میری تو فلائیٹ نکل جائے گی ابھی شاپنگ میںنے شروع بھی نہیں کی یار دوست ،اہلیہ ،بچے ناراض ہو جائیں گے کہ پاکستان سے ہمارے لیے کوئی گفٹ کیوں نہیں لائے؟
میں نے اس کی باتیں سن کر ایک آہ بھری اور کہا کیا بتائیں ہم فیشن زدہ ہوگئے ہیں
’’فیشن زدہ ۔۔اس کے لہجے میں حیرت تھی
’’ تم دوپہرکے وقت دکانیں کھولنے کو فیشن کہتے ہو رابرٹ مائیکل نے اس اندازسے کہا جیسے وہ کاٹ کھانے کے درپے ہو تمہارا مذہب کو صبح صادق اٹھنے کاحکم دیتاہے پھر تم مسلمانوںنے اپنے اوپریہ نحوست کیوں سوارکررکھی ہے؟کیاتم نہیں جانتے پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے پورے یورپ امریکہ جاپان آسٹریلیا اور سنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہو میں نے مشاہدہ کیا ہے تمہارے ملک میں ڈیوٹی کاوقت9بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے تک بھی نہیں آتے ! آجکل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے اور تم طوائفوںکی طرح راتوںکوجاگتے ہو اور دن کا سونا معمول ہے
’’یار رابرٹ مائیکل نے میرے کندھے پر زور سے ہاتھ مارکرکہاتم بربادہورہے ہو اور مطلق احساس بھی نہیں اب میں سمجھا پاکستان ترقی کیوںنہیں کررہا؟
میں نے شرمندگی سے سرجھکالیا میں سوچنے لگا ہم تباہ ہورہے ہیں تو یقینا تباہی ایک دن میں نہیں آ جاتی میری نگاہوںکے سامنے تاریخ کے ا وراق فلم کی مانندگردش کرنے لگے یہ 1850ء کا زمانہ ہے دلی میں صبح کے ساڑھے تین بجے کاوقت ہوگا کہ سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے پچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اس کے اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری کی پھرتی دیدنی تھی وہ آنکھیں ملتے ہوئے اپنے بستروں سے اٹھ بیٹھے انہی پر موقوف نہیں ایک دو گھنٹوں کے اندر اندر طلوع آفتاب کے قریب انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے تھے انگریز عورتیں گھوڑ سواری کو نکل جاتیں سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہے بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہ دن کے ایک بجے سر مٹکاف بگھی پر سوار ہو کر لنچ کرنے کے لیے گھر کی طرف چل پڑا ہے یہ ان سب کا روزانہ کا معمول تھا ادھر وقت لال قلعہ کے شاہی محل میں ”صبح” کی چہل پہل شروع ہو رہی تھی ظل الہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھا جس کے بعد ظلِ الٰہی آخری مغل فرمانروا بہادرشاہ ظفر اور ان کے درجنوں عمائدین اپنی خواب گاہوں کو گئے تھے۔ اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا۔ ہزاروںشہزادوں کا بٹیربازی، مرغ بازی، کبوتر باز اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا ، 1725ء کے لگ بھگ برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی بندرگاہوں پر اترتے چلے گئے برسات کے موسم میں مچھر وںکی بہتات اور گندے پانی کے باعث ملیریا سے اوسطاً دو انگریز روزانہ مرنے لگے ہیں انگریزان دنوں بھارت کو موت کی وادی کہنے لگے اس کے باوجودایک بھی گورا بھارت کو چھوڑکربرطانیہ واپس نہیں گیا کیونکہ ان کے نزدیک سونے کی چڑیا پر اپنا تسلط جمانا تھا مقاصدکے حصول کے لیے قربانیاں ناگزیرتھیں اس دوران لارڈ کلائیو پہروں گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ،مختلف علاقوںکاوزٹ کرکے حالات کا جائزہ لیتا،تجارتی سرگرمیوںکی معلومات حاصل کرتا،انگریزوںکے مفادات کے لیے ملاقاتیں کرتا اس نے دل ہی دل میں ہندوستان پر تسلط قائم کرنے کے لیے ایک مربوط سسٹم تشکیل دیدیا جس سے سونے کی چڑیا برطانوی سامراج کی ایک کالونی میں تبدیل ہوگئی۔
یقینااللہ کانظام کسی کے لیے نہیں بدلتا انسان جوکچھ بولتاہے بالآخراسے وہی کاٹنا پڑتاہے یہی مکافات ِعمل ہے یہ قانون ِ فطرت ہے کسی کی محنت رائیگاں نہیں جاتی جو جتنی محنت کریگا تو وہ اتناہی کامیاب ہوگا عیسائی،مسلم،سکھ ،ہندو یاپھر آتش پرست سب کے سب اللہ کے سسٹم کے تابع ہیں عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف صبح سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو ناکام رہے گا۔اب واضح ہوا کہ بہادر شاہ ظفر کے سارے شہزادوں کے سر قلم کر کے اس کے سامنے کیوں پیش کیے گئے،انہیں اپنے ہی وطن میں قبر کے لیے2گز زمین کی جگہ کیوں نہ ملی یہ کتنا بڑاالمیہ ہے آخری مغل تاجدا رکی بچی کھچی نسل کے لوگ بھیک مانگتے پھرتے ہیں کیوں؟ آخرکیونکر وہ وقت کے ساتھ نہیں چلے انہوںنے وقت کوضائع کیا اور پھر وقت نے انہیں زمانے کی ٹھوکروں کے حوالے کرکے ضائع کردیا صبح تاخیر سے بیدار ہو نے والوںکے لیے یہ ایک لمحہ ٔ فکریہ ہے ۔
آپ غورکریں کہ غزوہ ٔبدر میں اللہ نے قطاراندرقطار فرشتے نصرت کے لیے اتارے تھے کیوں؟ اس جنگ کی حکمت ِ عملی پر تدبرکی ضرورت ہے جنگ سے پہلے ہی مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے آخری نبی ﷺ رات بھر یا تو پالیسی بناتے رہے یا پھر سجدے میں پڑے اللہ کے حضور دعا کرتے رہے !
حیرت ہوتی ہے ان دانش وروں پر جو یہ کہہ کر قوم کو مزید افیون کھلا رہے ہیں کہ پاکستان ستائیسویں رمضان کو بنا تھا کوئی اسکا بال بیکا نہیں کرسکتا کیا سلطنتِ خدا داد پاکستان اللہ کی تھی اور کیا سلطنت خداداد میسور(ٹیپو سلطان کی سلطنت ) اللہ کی نہیں تھی۔ کیا کئی براعظموںپرپھیلی سلطنت ِ عثمانیہ قائم رہی یا بھارت میں مختلف ادوارمیں قائم ہونے والے صدیوںپرمحیط مغلیہ ،غوری،غزنوی حکومتیں کیوں قائم نہ رہ سکیں حالانکہ ان حکومتوںمیں تو انصاف کا بول بالا بھی تھا حقیقت یہ ہے جو سلطنت،شخصیت یا ادارے فطرت کے اصولوں پر قائم نہیں رہتے انہیں کوئی معجزہ ہی بچاسکتاہے ۔ بھارت،پاکستان،بنگلہ دیش پر ہی موقوف نہیں یہ ہر ملک اور خطے کی بات ہے آج ہم اپنے اردگردکے ماحول کودیکھیں اور سوچیں کہ جس جس ملک کے ووٹر ذہنی غلام ہوں، پیر غنڈے ہوں،مذہب کے ٹھیکیدار جاہل،دانشور منافق ہوں، ڈاکٹر بے ایمان ہوں، بیشتر سیاستدان لٹیرے ، اور پولیس میں ڈاکو ہوں، کچہری بیٹھک ہو، ججز انصاف فروش ہوں، لکھاری خوشامدی ہوں، اداکار بھانڈ ہوں، ٹی وی چینل پر مسخرے ہوں، تاجر بے ایمان اور سود خور ہوں، دکاندار چور ہوں، عوام بے حس اور حکمران بے حس ہوں اور جہاں تین سال کے معصوم بچوں سے پچاس سال تک کی عورتوں کا ریپ عام ہو اور مجرموں کو سیاسی دباؤ میں آکر چھوڑ دیا جائے۔ وہاں رحمتیں کیسے نازل ہوسکتی ہیں؟ اوریہ معاشرے کیسے پنپ سکتے ہیں وہاں بیماریاں،وبائیں،بارشوںکی افراط،قحط اورزلزلے نہ آئیں تو پھرکیاہوگا قدرت کی وارننگ کے باوجود لوگ ٹس سے مس نہ ہوں ان کو تباہی سے کوئی نہیںبچاسکتا۔
آج یہ جان کر دل دکھتاہے کہ مرکزی صوبوں حکومتوںکے دفاتر ،کاروباری مرکز یا نیم سرکاری ادارے ، ہر جگہ لال قلعہ کی طرز زندگی کا دور دورہ ہے،، کتنے وزیر کتنے سیکرٹری کتنے انجینئر کتنے ڈاکٹر کتنے پولیس افسر کتنے ڈی سی یا کلرک وقت پر ڈیوٹی پر آتے ہیں؟ ہم ہڈحرام،بدمزاج،نکھٹو،رشوت خور اور انسانیت سے عاری افسروں اور ان کے ماتحتوںکی فوج ظفرموج کے نخرے اٹھا اٹھا کر تنگ آچکے ہیں
کیا اس قوم کے تباہ وبرباد ہونے میں کوئی شک ہے جن کے دلوں میںاپنے ہی ہم وطنوں کے لیے صلہ رحمی نہ ہو سے دنیا کی کوئی قوم بچا سکتی ہے جس میں کسی کو تو اس لیے مسند پر نہیں بٹھایا جاسکتا کہ جس کا راتوںکو دیر سے سونا اور دوپہر سے پہلے بیدار ہونا معمول ہو اور پھر وہ اس پر فخر بھی کرے کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے یہ بات پتھرپہ لکیر ہے جو بھی کام دوپہر کو زوال کے وقت شروع کیاجائے وہ زوال ہی کی طرف جائے گا کبھی بھی اس میں برکت اور ترقی نہیں ہو گی اور یہ مت سوچا کریں کہ میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا تو اس وقت لوگ سو رہے ہونگے میرے پاس گاہک کدھر سے آئے گا گاہک اور رزق اللہ رب العزت بھیجتے ہیں اور اللہ وہاںسے رزق دینے پر قادرہے جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ورنہ ان میں لال قلعہ کے قیدیوںمیں کوئی فرق نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر