وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسرائیل کو مانیں یا نہ مانیں؟

پیر 06 جون 2022 اسرائیل کو مانیں یا نہ مانیں؟

گزشتہ ایک دو برس سے اسلامی ممالک کے درمیان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عالمی کھیل شروع ہوچکا ہے اور چونکہ اِس مقابلہ میں شرکت کرنے والے ممالک پر اسرائیل اور امریکا کی جانب سے غیر معمولی معاشی انعامات کی بارش کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔لہٰذابیش بہا معاشی فوائد کا لالچ آہستہ آہستہ اُن مسلم ممالک کے حکم رانوں کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پالیسی اختیار کرنے پر آمادہ کرتا جارہا ہے ، جو ایک مدت سے مظلوم فلسطینیوں کی محبت و الفت میں اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنے سے صاف انکاری رہے ہیں۔ عموماً ہمارے ہاں یہ تاثر پایا جاتاہے کہ جو گنتی چند ممالک اسرائیل کے ناپاک وجود کو سفارتی سطح پر تسلیم نہیں کرتے وہ سب کے سب مسلم ممالک ہیں ۔حالانکہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے ایک ،دو ممالک ایسے بھی ہیں ،جن کا شمار کسی بھی لحاظ سے مسلمان ممالک کی فہرست میں نہیں کیا جاسکتامگر وہ پھر بھی اسرائیل کو صرف اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی مظلوم ہیں اور اسرائیلی ظالم۔
واضح رہے کہ دنیا میںاقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ کل ممالک کی تعداد 193 ہے ، جن میں بڑی مسلم آبادی والے ممالک کی تعداد تقریباً 56 بنتی ہے ۔گو کہ دنیا کی اکثریت نہ صرف اسرائیل کو بطور ایک ریاست تسلیم کرچکی ہے بلکہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ مضبوط سفارتی ،سیاسی و دفاعی تعلقات بھی رکھتی ہے ۔ مگر اسرائیل کی حکومت کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ جو ممالک بطور ریاست اُسے تسلیم نہیں کرتے اُن کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے ۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بعض ممالک ماضی میں اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرچکے تھے لیکن بعد میں اُس کے سفارتی وجود سے انکاری ہوگئے ۔ نیز کچھ ممالک تجارتی و معاشی تعلقات تو اسرائیل کے ساتھ رکھتے ہیں لیکن اُس کی سفارتی حیثیت کو نہیں مانتے ۔اسرائیل کو نہ ماننے والے کُل ممالک کی تعداد 22 ہے۔جن کی اجمالی سی تفصیل ذیل میں درج کی جارہی ہے۔
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ نیزعرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔یاد رہے کہ الجزائر 1962 میں آزاد ہو اتھا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔جبکہ انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔نیزبرونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔جبکہ بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔حالانکہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔ دوسری جانب بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ نیزجمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔علاوہ ازیں ہمسایہ ملک شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہے اور دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ جبکہ شام کے اسرائیل دشمن قوتوں مثلاً ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ایک غیر مسلم ملک ہوتے ہوئے بھی شمالی کوریا نے کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔نیزافریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔جبکہ عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے لیکن ابھی تک وہ اس معاہدہ کا حصہ نہیں بنا ہے۔علاوہ ازیں قطر اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔جبکہ کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔
اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ اس کا پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔نیزلیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔جبکہ ملائیشیا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔علاوہ ازیں یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔جبکہ ہمارا ملک پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ اسرائیل اور امریکا کا خیال ہے کہ اگر سعودی عرب اور پاکستان اسرائیل کی سفارتی حیثیت کو تسلیم کرلیتے ہیں تو باقی ممالک شاید اگلے روز ہی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیں۔یہ ایک خواب ہے اور آج کل اِس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ایک بہت بڑا عالمی کھیل جاری ہے ۔ اَب اِس کھیل کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا، پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر