وجود

... loading ...

وجود
وجود

اورنگزیب کے خلاف نفرت کا طوفان کیوں؟

اتوار 05 جون 2022 اورنگزیب کے خلاف نفرت کا طوفان کیوں؟

بنارس کی گیان واپی مسجد کے خلاف جیسے جیسے افواہوں کا بازارگرم ہورہا ہے، ویسے ویسے اورنگزیب کے خلاف نفرت اور تعصب کا طوفان بھی بڑھ رہا ہے۔اورنگزیب کو ولن ثابت کرنے کے لیے ایسی بے سرپیر کی باتیں کہی جارہی ہیںجن کاحقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور تاریخی کتابوں میں بھی ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔اورنگزیب کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت کے اس طوفان کی وجہ سے ہی مہاراشٹر کے خلدآباد میں واقع ان کے مقبرے میں تالا ڈال دیا گیا ہے، کیونکہ بعض شرپسندوں نے اس مقبرے اور مرقد کو مسمار کرنے کی دھمکی دی ہے۔نئی دہلی میں واقع اورنگزیب لین کے سائن بورڈکو مٹاکر اسے بابا وشوناتھ مارگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اورنگزیب روڈ کو پہلے ہی سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کے نام سے موسوم کیا جاچکا ہے۔اورنگزیب پر الزام ہے کہ وہ ایک ظالم بادشاہ تھا۔اس نے اپنے بھائیوں کو قتل کیا اور اپنے والد شاہجہاں کو قیدمیں ڈالا۔سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اس نے مندروں کو توڑا اور وہاں مسجدیں تعمیر کیں۔
بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں بھی یہ پروپیگنڈہ بہت زور وشور سے کیا جاتا رہاہے کہ اس کی تعمیر اورنگ زیب نے مندتوڑ کر کرائی تھی۔ حالانکہ گیان واپی مسجد اورنگزیب سے پہلے تعمیر ہوچکی تھی اور وہاں بابری مسجد کی طرح کسی مندر کوتوڑنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔اس پروپیگنڈے کے برعکس اگر آپ غیرجانبدار مورخین کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ اورنگزیب نے اپنے دوراقتدار میں سب سے زیادہ مندروں کو جائیدادیں عطا کیں اور انھیں مالامال کیا، لیکن سنگھ پریوار نے اورنگزیب کے خلاف اس حد تک نفرت پھیلارکھی ہے کہ بیشتر لوگ ان کا نام آتے ہی پھدکنے لگتے ہیں۔
جب سے بی جے پی نے مرکز میں اقتدار سنبھالا ہے تب سے ان یادگاروں کو مٹانے کی کوششیں عروج پر ہیں، جنھیں ہم اس ملک میں قومی یکجہتی یا پھر ہندومسلم اتحاد کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاج محل، قطب مینار، شاہی عیدگاہ اور جامع مسجد کے نیچے بھی مندر تلاش کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ مسلم عہد کے بعض خوبصورت مقبروں کو بھی مندروں میں بدلنے کی کوششیں جاری ہیں اور ان کے سائن بورڈ غائب کیے جارہے ہیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ملک میں وہ تمام عمارتیں اور نشانیاں خطرے میں ہیں جنھیں مسلم بادشاہوں نے بنایا تھا اور جن کی وجہ سے ہندوستان کا نام دنیا کے نقشہ پر عزت واحترام کے ساتھ لایاجاتاہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مغلیہ عہد کی سب سے خوبصورت عمارت تاج محل کو آج بھی پوری دنیا میں ہندوستان کا تاج تصور کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ سیاح اسے ہی دیکھنے آتے ہیں اور اس سے حکومت کو کروڑوں روپوں کا زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
اورنگزیب کے بارے میں اس وقت جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، اس کی حقیقت جاننے کے لیے آئیے ہم بی این پانڈے کا رخ کرتے ہیں، جو ایک زمانے میں اڑیسہ کے گورنر تھے اور ان کا شمار ملک کے اہم مورخین اور دانشوروں میں ہوتا تھا۔انھوں نے اورنگ زیب کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، وہ یقینا پڑھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہے۔ابوالمظفرمحی الدین محمدجنھیں عرف عام میں اورنگ زیب عالمگیر کے نام سے جانا جاتا ہے، مغلیہ سلطنت کے چھٹے تاجدار تھے۔ان کی پیدائش3/نومبر1668کو داہوڑ میں ہوئی۔ ان کا عہد سلطنت 1658سے شروع ہوکر ان کے انتقال1707تک جاری رہا۔ اس طرح انھوں نے ہندوستان پر آدھی صدی تک راج کیا۔ان کی زندگی کا مقصد ہندوستان کے زیادہ سے زیادہ حصوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرنا تھا جس کے لیے انھوں نے جنگ وجدال کی راہ اپنائی۔ بیس برسوں تک وہ دکن کی ریاستوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔/ مارچ کو انھوں نے احمدنگر (مہاراشٹر) میں وفات پائی اور انھیں خلد آباد میں دفن کیا گیا، جس کانام بدل کر اب سمبھا جی نگر کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔
اس وقت بی این پانڈے کی لکھی ہوئی ایک مختصر کتاب ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات پیش نظر ہے۔ اس کتاب کو 1988میں خدابخش لائبریری پٹنہ نے شائع کیا تھا، جو ایک سرکاری ادارہ ہے۔اس لیے اس کتاب کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس کتاب کا ایک اقتباس آپ کی نذر ہے تاکہ آپ پر اورنگزیب کی اصلیت آشکارا ہوسکے۔ وہ لکھتے ہیں:
جس طرح شیواجی کے متعلق انگریز مورخوں نے غلط فہمیاں پیدا کیں، اسی طرح اورنگ زیب کے متعلق بھی۔ ایک اردو شاعر نے بڑے سوز کے ساتھ لکھاہے:
تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا
کہ عالم گیر ہندو کش تھا، ظالم تھا، ستمگر تھا
بچپن میں، میں نے بھی اسکولوں کا لجوں میں اسی طرح کی تاریخ پڑھی تھی اور میرے دل میں بھی اس طرح کی بدگمانی تھی۔ لیکن ایک واقعہ پیش آیاجس نے میری رائے قطعی بدل دی۔ میں تب الہ آباد میونسپلٹی کا چیئرمین تھا۔ تربینی سنگم کے قریب سومیشور ناتھ مہادیو کا مندر ہے۔ اس کے پجاری کی موت کے بعد مندر اور مندر کی جائیداد کے دو دعویدارکھڑے ہوگئے۔ دونوں نے میونسپلٹی میں اپنے نام داخل خارج کی درخواست دی۔ ان میں سے ایک فریق نے کچھ دستاویزیں بھی داخل کی تھیں۔ دوسرے فریق کے پاس کوئی دستاویز نہ تھی۔ جب میں نے دستاویز پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ وہ اورنگزیب کا فرمان تھا۔ اس میں مندر کے پجاری کو ٹھاکر جی کے بھوگ اور پوجا کے لیے جاگیر میں دو گاں عطا کیے گئے تھے۔ مجھے شبہ ہوا کہ یہ دستاویز نقلی ہیں۔ اورنگزیب تو بت شکن تھا۔ وہ بت پرستی کے ساتھ کیسے اپنے کو وابستہ کرسکتا تھا؟ میں اپنا شک رفع کرنے کے لیے سیدھا اپنے چیمبر سے اٹھ کرسر تیج بہادر سپرو کے یہاں گیا۔ سپرو صاحب فارسی کے عالم تھے۔ انھوں نے فرمان کو پڑھ کر کہا کہ یہ فرمان اصلی ہیں۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب، عالمگیر تو مندر توڑتا تھا، بت شکن تھا، وہ ٹھاکر جی کے بھوگ اور پوجا کے لیے کیسے جائیداد دے سکتا ہے؟
سپرو صاحب نے منشی کو آوازدے کر کہا منشی جی، ذرا بنارس کے جنگم باڑی شیو مندر کی اپیل کی مثل تو لا۔
منشی جی مثل لے کر آئے توڈاکٹر سپرو نے دکھایا کہ اس میں اورنگ زیب کے چار فرمان تھے جن میں جنگموں کو معافی کی زمین عطا کی گئی تھی۔
ڈاکٹر سپرو ہندوستانی کلچر سوسائٹی کے صدر تھے، جس کے عہدے داروں میں ڈاکٹر بھگوان داس، سید سلیمان ندوی،پنڈت سندر لال اور ڈاکٹر تارا چند تھے۔ میں بھی اس کا ایک ممبر تھا۔ ڈاکٹر سپرو کی صلاح سے میں نے ہندوستان کے خاص خاص مندروں کی فہرست مہیا کی، اور ان سب کے نام یہ خط لکھا کہ اگر آپ کے مندروں کو اورنگزیب یا مغل بادشاہوں نے کوئی جاگیر عطا فرمائی ہو(خصوصا اورنگزیب)تو ان کی فوٹو کاپیاں مہربانی کرکے بھیجیں۔ دوتین مہینے کے انتظار کے بعدہمیں مہاکال مندراجین،بالا جی مندرچترکوٹ، کاماکھیہ مندر گوہاٹی، جین مندر گرنار، دلواڑا مندر آبواورگرودواررام رائے دہرہ دون وغیرہ سے اطلاع ملی کہ ان کو جاگیریں اورنگ زیب نے عطا کی تھیں۔ مورخوں کی تاریخ کے مطابق ایک نیا اورنگ زیب ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔(ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایاتازبی این پانڈے، صفحہ17اور 18،ناشرخدابخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ، 1988)
یہ محض ایک اقتباس ہے ورنہ یہ اور دوسری کئی کتابیں اورنگزیب کی رواداری کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔مگر اورنگزیب کے خلاف سنگھ پریوار کی پروپیگنڈہ مشنری اتنی سرگرم ہے کہ لوگ کوئی دوسری بات سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کی عقل پر پتھر پڑ گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر