وجود

... loading ...

وجود
وجود

جمہوری سیاست ، انتظامی تشدد کے نرغے میں؟

جمعرات 02 جون 2022 جمہوری سیاست ، انتظامی تشدد کے نرغے میں؟

عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ کا آغاز ہونے سے پہلے ایک عام خیال یہ پایا جاتا تھا کہ شاید وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت گرانے کے لیے نکالے جانے والے حقیقی آزادی مارچ کا اصل ہدف چونکہ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت ہے ،لہٰذا، احتجاجی مارچ کے مضر ،اثرات صوبہ پنجاب اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے گرد و نواح تک ہی محدود رہیں گے اور پاکستان تحریک انصاف کے مذکورہ حقیقی آزادی مارچ کی تپش سے سندھ حکومت یکسر محفوظ و مامون رہے گی ۔ مگر ہمارے جیسے بعض لوگوں کی یہ خام خیالی بہت ہی ’’خام ‘‘ ثابت ہوئی اور25 مارچ کو عمران خان کی آواز پر لبیک کہنے والے عام لوگ علی الصبح ہی جوک در جوک صوبہ سندھ کے کم و بیش ہر بڑے شہر میں احتجاج کے لیے خاصی بڑی تعداد میں سٹرکوں پر نکل آئے ۔اگرچہ سندھ کے اکثر شہروں میں احتجاج کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کی تعداد صوبہ پنجاب میں نکلنے والے مظاہرین سے خاصی کم تھی ۔مگر پھر بھی تحریک انصاف کے کارکنان اور عمران خان سے محبت کرنے والوں کی جانب سے کراچی کے مختلف علاقوں اور مقامات پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے عوامی شرکت کے لحاظ سے اتنے غیر معمولی اور پریشان کن ضرور تھے کہ سندھ حکومت کو بھی مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پنجاب حکومت کی تھوڑی بہت پیروی کرتے ہوئے ریاستی طاقت کا بھرپور انداز میں استعمال کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔
مگر یہاں اِس بات کی وضاحت از حد ضروری ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے حقیقی آزادی مارچ کے شرکاء پر صوبہ پنجاب میں پنجاب پولیس کی جانب سے ظلم و بربریت کی جوالم ناک اور شرم ناک داستانیں رقم کی گئیں ہیں ، اُن کے مقابلے میں سندھ حکومت اور سندھ پولیس کا رویہ مظاہرین کے ساتھ کافی حد تک ’’بہتر‘‘ اور ’’مناسب ‘‘ہی کہا جاسکتاہے۔ بلاشبہ کراچی میں بھی حقیقی آزادی مارچ کے شرکاء پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی ، ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں اور کارکنان کو گرفتار کر کے انہیں حوالہ زنداں بھی کیا گیا ۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ سندھ حکومت نے بہرحال سفاک پنجاب حکومت کی مانند چادر اور چاردیواری کا تقدس ہرگز پامال نہیں کیا ، علامہ اقبال کے گھر کی دیواریں پھلانگ کر اُن کی بہو کو زود و کوب اور دھمکانے کی کوشش نہیں کی ،باپردہ گھریلو خواتین کو بالوں سے پکڑ کا سرعام سڑکوں پر گھسیٹااور مارا پیٹا نہیں ، نیز نوجوان مظاہرین کو پکڑ کر بے رحمی کے ساتھ اُن کے ہاتھ اور پاؤں بھی نہیں توڑے۔جبکہ ضعیف العمر افراد ، اورکم عمر چھوٹے بچوں پر بہیمانہ تشدد بھی نہیں کیا ۔بلکہ سندھ پولیس نے ایسی خواتین جن کے ہمراہ نوعمر بچے تھے انہیں احتجاجی مظاہرہ کے دوران گرفتار بھی کیا تو،فوراً ہی مظاہرے کے مقام سے تھوڑی دور لے جاکر انہیں عزت و احترام کے ساتھ رہا بھی کردیا تھا۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق سندھ بھر سے پاکستان تحریک انصاف کے جتنے کارکنان کو بھی نقصِ اَمن کے پیش نظر گرفتار کیا تھا،اَب تک سب کی رہائی عمل میں آچکی ہے۔
دوسری جانب پنجاب حکومت، سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح حکم کے برخلاف نہ صرف حقیقی آزادی مارچ کے گرفتار بعض شرکاء کو، ابھی تک رہا کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی بلکہ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ پنجاب پولیس نے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کی ہدایات کے تناظر میں احتجاجی مارچ میں شرکت کرنے والے عام افراد کو بھی سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے شناخت کرکے رات کی تاریکی میں اُن کے گھروں میں گھس کر گرفتار کرنے کا اعلانِ عام کر دیا ہے ۔یقینا یہ خبر پڑھ اور سُن کر تحریک انصاف کے کارکنان تو اپنے گھروں کو چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر روپوش ہو جائیں گے ،لیکن اُن کے گھروں میں پیچھے رہ جانے والی باپردہ مائیں اور بہنیں ایک بار پھر پنجاب پولیس کی بربریت کا سامنا کرنے کے لیے موجود ہوں گی ۔ شاید وفاقی داخلہ رانا ثناء اللہ کی خواہش بھی یہ ہی ہے کہ وہ صوبہ پنجاب میں بار بار چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرکے عمران خان سے محبت کرنے والے عام افراد کے دلوں میں اتنا خوف اور دہشت طاری کر دیں کہ لوگ عمران خان کے جلسہ اور لانگ مارچ میں شرکت کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باز آجائیں ۔ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا ء اللہ کی یہ دیرینہ خواہش تو شاید پورا ہونا مشکل ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ رانا ثناء اللہ ، نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جس قدر بدنامی کے تمغے اپنے 36 انچ چوڑی چھاتی پر سجائے تھے، حالیہ شرم ناک انتظامی کارکردگی سے اُن بدنما تمغوں کی تعداد میں مزید اضافہ ضرور ہوگیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کے خلاف ایک حد تک حکومتی اور انتظامی طاقت کا استعمال معمول کی انتظامی کارروائی سمجھی جاتی ہے اور اس طرح کے ہتھ کنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے احتجاج کی غرض سے سڑکوں پر نکلنے والے سیاسی کارکنان بھی ذہنی و جسمانی طور پر خوب تیار ہو کر آتے ہیں ۔لیکن مسلم لیگ (ن) نے رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے ماضی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسی ہول ناک کارروائی کی جو دل خراش روایت کی ڈالی ہے ، اُس نے پاکستانی جمہوریت اور سیاست کے چہرہ پر کالک مل کررکھی دی ہے اور اگر حالیہ نازک سیاسی مقام پر بھی رانا ثناء اللہ کے سینے میں بھڑکنے والی انتقامی آگ کو ٹھنڈا نہیں گیا تو اس کے ملکی سیاست پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے۔
لہٰذا ہر دردِ دل رکھنے والے پاکستانی کی یہ خواہش ضرور ہوگی کہ25 مارچ کو عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ کے خلاف جس بے دردی کے ساتھ رانا ثناء اللہ کی طرف سے پنجاب پولیس کو استعمال کیا گیا ہے، ویسی اندوہناک انتظامی طاقت کا استعمال ملک کے طول و عرض آئندہ ہرگزنہ کیا جائے۔ یعنی رانا ثناء اللہ سے وفاقی وزیرداخلہ کا منصب لے کر اُنہیں کوئی دوسری مناسب وفاقی وزارت دے دی جائے اور یہ ایک ایسا مشکل کام ہے جسے صرف پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری ہی انجام دے سکتے ہیں ۔کیونکہ عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے قبل رانا ثناء اللہ کو وفاقی وزارت ِداخلہ کے لیے زرداری صاحب نے ہی نامزد کیا تھا۔اس لحاظ سے رانا ثناء اللہ صرف مسلم لیگ (ن) ہی کے نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کے بھی وفاقی وزیر داخلہ ہیں اور ایک ایسے وزیرداخلہ کا تقرر جس کی تمام شہرت ہی ظلم و بربریت اور سفاکیت سے عبارت ہو، کسی بھی صورت آصف علی زرداری کی مصالحانہ سیاسی طرزِ فکر سے مطابقت نہیں رکھتا۔
یاد رہے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے وطن عزیز میں جس رواداری اور مفاہمت کی سیاسی فضا کو فروغ دیا تھا۔ اندیشہ ہے کہ اگر رانا ثناء اللہ چند ماہ مزید وفاقی وزیر داخلہ کے منصب پر قائم رہ گئے تو یہ ساری فضا ،غارت ہو جائے گی اور ملکی سیاست ایک بار پھر سے نوے کی دہائی کے انتقامی دور میں داخل ہوجائے گی۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ عمران خان کے اگلے احتجاجی مارچ کو روکنے کی ضد میں رانا ثناء اللہ، پاکستان تحریک انصاف کے خلاف اِس قدر ریاسی طاقت استعمال کرگزریں کہ لوگ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو بھی بھول جائیں ۔اگرخدانخواستہ ایسا واقعی ہوگیا تو پھرجب کبھی تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو وہ بھی اپنا حساب کتاب بے باک کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کس قدر ریاستی طاقت کا استعمال کرسکتی ہے ، سوچنے والوں کو تویہ سوچ کر بھی خوف آنا چاہیئے۔ کیا محترم آصف علی زرداری صاحب عام عوام کے وسیع تر مفادکے پیش نظر اور ملکی سیاست کے مستقبل کو تشدد اور ا نتقام کے بھیانک سائے سے بچانے کے لیے پیپلزپارٹی سے کسی بردبار شخصیت کو وفاقی ویرداخلہ بنا کر پاکستانیوں کو شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے؟۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ وجود جمعرات 09 مئی 2024
بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ

مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر