وجود

... loading ...

وجود
وجود

گیان واپی مسجد کے خلاف شرانگیزی

اتوار 22 مئی 2022 گیان واپی مسجد کے خلاف شرانگیزی

تاج محل کے نیچے مندر تلاش کرنے والوں کو الہ آباد ہائی کورٹ نے آئینہ دکھاکر یہ تو ثابت کرہی دیا ہے کہ اس ملک میں ساون کے اندھوں کے لیے سب کچھ ہرا نہیں ہے بلکہ اس ملک میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سیاہ اور سفید میں فرق کرنا جانتے ہیں۔ لیکن اس دوران بنارس کی ایک عدالت نے تاریخی گیان واپی مسجد کی ویڈیو گرافی اور معائنہ کرانے کے اپنے حکم پر اصرار کرکے تشویش کی کچھ لہریں ضرور پیدا کردی ہیں، کیونکہ اس عمل سے کشیدگی میں اضافہ کے سوا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ۔ عدالت نے مسلم فریق کے اعتراضات کو ٹھکراکر ویڈیو گرافی جاری رکھنے کا حکم سنایا ہے جس سے فسطائی خیموں میں جشن کا ماحول ہے اور وہ اس تاریخی مسجد کا انجام بھی وہی سوچ رہے ہیں جو بابری مسجد کا ہوا تھا۔گیان واپی مسجد پر تنازعہ کھڑا کرنے والے عناصر بھی وہی ہیں جنھوں نے 90 کی دہائی میں رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع کرکے ملک میں ہزاروں بے گناہوں کا خون بہایا تھا۔یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور کسادبازاری اپنے عروج پر ہے اور لوگ حکومت سے اپنے بنیادی مسائل پر تیکھے سوال پوچھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان تلخ سوالوں کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے انھیں دھرم کی افیم چٹا ئی جارہی ہے ۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہرروز ایک گڑھا ہوا مردہ اکھاڑا جارہا ہے اور ملک کا ماحول پراگندہ کیا جارہا ہے ۔
کچھ لوگ ایک بیمار ذہن شخص پی این اوک کی ایک کتاب کہیں سے اٹھا لائے ہیں اور اس کے مطابق تاریخی حقائق کو بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔پی این اوک آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آتما ان فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کے وجود میں سرایت کرگئی ہے جو اس وقت ملک میں پوری شدت کے ساتھ سرگرم ہیں اور جن کا ہرقدم اس ملک سے اسلامی تہذیب اور ثقافت کو مٹانے کی طرف اٹھ رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دوہفتہ کے دوران مسلم دورحکومت کی تعمیرشدہ ہرعمارت کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم شباب پر ہے ۔ اپنی اس شرانگیز مہم کو پروان چڑھانے کے لیے یہ عناصر عدالتوں کا سہارا لے رہے اور عدالتیں بھی دانستہ یا نادانستہ طورپر اس کام میں شامل ہوگئی ہیں، ورنہ کیا وجہ ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں شرنگارگوری مندر کی باقیات تلاش کرنے کے لیے ویڈیو گرافی کرانے کا حکم دیا گیا ہے ۔حالانکہ عدالت کو دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عرضی کو پہلے ہی مرحلہ میں خارج کردینا چاہئے تھا۔
اس کے ساتھ ہی متھرا کی شاہی عیدگاہ کو ہٹاکر اس کی اراضی شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ کو سونپنے کا جومطالبہ کیا گیا ہے ، اس پر عدالت میں سماعت جاری ہے ۔اس دوران راجدھانی دہلی میں قطب مینار کے باہر ہنومان چالیسا پڑھ کر وہاں مندر تعمیر کرنے کی مہم چھیڑی گئی ہے ۔یونائٹیڈ ہندو فرنٹ اور راشٹروادی ہندو سینا کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ قطب مینار اصل میں وشنو مندر ہے ، لہٰذا اس کا نام ‘وشنو استمبھ’ رکھ دیا جانا چاہئے ۔آٹھ سو سالہ قدیم قطب مینار کویونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے اور یہ بھی دنیا کے عجائبات میں شامل ہے ۔لیکن شرپسندوں کی اس پر بھی بری نگاہ ہے ۔ اس سے قبل بی جے پی کے مطالبہ پر دہلی کے ایک قدیم گاؤں محمدپور کا نام تبدیل کرکے مادھوپورکردیا گیا ہے ۔ دہلی پردیش بی جے پی کے صدر آدیش گپتا نے دہلی کے ایسے چالیس گاؤوں کا نام بدلنے کی سفارش میونسپل کارپوریشن کو بھیجی ہے جو مسلم ناموں سے پکارے جاتے ہیں۔غرض کہ مسلم حکمرانوں کی تعمیر کی ہوئی ہر عمارت کو نیست ونابود کرنے اور ان کی بسائی ہوئی بستیوں کے نام مٹانے کے علاوہ ہرتاریخی مسجدمیں ایک مندر تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یہ ان لوگوں کا طرزعمل ہے جن کے پاس تہذیب اور ثقافت کے نام پر دنیا کو دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ۔ دنیا میں آج ہندوستان کی جو کچھ بھی تہذیبی اور تمدنی حیثیت ہے وہ مسلم دورحکومت کی شاندار عمارتوں کی وجہ سے ہی ہے ۔اس ملک کو درحقیقت ہمارے بزرگوں نے ہی بنایا تھااور یہاں کی قوموں کو تہذیب وتمدن ان ہی نے سکھایا۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہاں تہذیب ومعاشرت نام کی کوئی شے موجوود نہیں تھی۔ اس لیے اس ملک کے ساتھ مسلمانوں کا جو جذباتی تعلق ہے وہ کسی اور کا ہوہی نہیں سکتا۔
گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے خلاف بھی ایسی ہی شرانگیزیوں کا آغاز ہوچکا ہے جیسا کہ بابری مسجد کے خلاف کیا گیا تھا۔ جس وقت بابری مسجد کو مندر میں بدلنے کی تحریک چل رہی تھی تو اسی وقت یہ نعرہ اچھالا گیا تھا کہ یہ تو ایک جھانکی ہے ، کاشی،متھرا باقی ہے ۔لیکن کچھ لوگوں کو یہ اطمینان تھا کہ بابری مسجد کی اراضی رام مندر کی تعمیر کے لیے دئیے جانے کے بعد ملک میں مندر مسجد کی سیاست ختم ہوجائے گی، لیکن یہ محض لوگوں کی خام خیالی تھی۔ بابری مسجد کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کو جو ‘فتح’ ملیہے اس سے وہ اتنے اتاولے ہوگئے ہیں کہ انھوں نے ہر مسجد کا انجام یہی سوچ لیا ہے ۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے خلاف نئی اور زیادہ خطرناک مہم چھیڑدی گئی ہے ۔
سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی پانچ خواتین نے سول جج روی کمار دواکر میں عرضی داخل کرکے اپیل کی گئی ہے کہ انھیں ‘شرنگارگوری مندر’ میں روزانہ پوجا پاٹ کی اجازت دی جائے ۔ واضح رہے کہ گیان واپی مسجد کے احاطہ میں واقع ہے اور اس کی دیوار مسجد کی دیوار سے متصل ہے ۔ احتیاطی تدبیر کے طورپر اس مندر میں تالا لگا ہوا اور اسے محض نوراتروں کے دوران کھولا جاتا ہے ۔ خود مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس مندر کے کھلنے سے نظم ونسق کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے مگر عدالت نے اس پہلو کو نظرانداز کرکے نہ جانے کیوں اس مقام کی ویڈیو گرافی کے احکامات جاری کردئیے ، جس کے نتیجے میں خاصی کشیدگی پھیل گئی اور امن وامان کے غارت ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیاہے ۔واضح رہے کہ بابری مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے بھی شروع میں اسی قسم کی شرانگیزیاں کی گئی تھیں۔آج ایک بار پھر ملک میں ایسے ہی حالات پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جاسکے اور وہ بے روزگاری، مہنگائی، لاقانونیت اور کساد بازاری پر کوئی سوال نہ کھڑا کرسکیں۔ دوسری طرف متھرا کی شاہی عیدگاہ پر بھی شرپسندوں کی بری نظریں ہیں اور وہ اس سمجھوتے کو رد کرانے کی کوششیں کررہے ہیں جو برسوں پہلے قیام امن کے لیے شری کرشن جنم استھان سیوا سمیتی اور شاہی عیدگاہ انتظامیہ کمیٹی کے درمیان ہوا تھا۔ اس سمجھوتے کو پوری طرح غیرقانونی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی ایک وکیل رنجنا اگنی ہوتری سمیت چھ کرشن بھکتوں نے عدالت میں کہا ہے کہ متعلقہ سمجھوتہ اور اس سلسلے میں عدالت کی طرف سے دی گئی ڈگری پوری طرح غیرقانونی ہے کیونکہ مذکورہ کمیٹیوں کو ایسا کرنے کا کوئی قانونی حق نہیں تھا، لہٰذااسے مسترد کرکے شاہی عیدگاہ کو اس کی زمین سے ہٹادیا جائے اور مذکور پوری زمین اس کے حقیقی مالک شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ کو دے دی جائے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ مطالبہ اب تک دو عدالتوں سے خارج ہوچکا ہے ، لیکن گزشتہ سال اکتوبر میں ضلع جج کی ہی عدالت میں ازسرنو عرضی دائر کی گئی ہے جس پر سماعت مکمل ہوچکی ہے اور عدالت نے فیصلہ ۹۱ مئی تک کے لیے محفوظ کرلیا ہے ۔
لوگ کہتے ہیں کہ جب 1991میں یہ قانون بن چکاہے کہ1947میں جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی اس کی وہی حالت برقرار رکھی جائے گی اور اس میں کسی کو کسی قسم کی ترمیم وتنسیخ کا حق نہیں ہوگا تو پھر کیوں اس قسم کے مسائل بار بار اٹھائے جارہے ہیں۔لیکن جاننے والے یہ بات بھی جانتے ہوں گے کہ شرپسندوں نے اپنی مہم شروع کرنے سے پہلے اس قانون کو ہی چیلنج کردیا تھا اور اس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے ۔یہ تمام شرانگیزیاں دراصل اقتدار کے گھمنڈ میں چور شرپسندوں کی طرف سے اس لیے کی جارہی ہیں کہ وہ مسلمانوں کو نیچا دکھائیں اور انھیں ردعمل پر مجبور کریں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ گیان واپی مسجد کے معاملے میں وہ بابری مسجد والی غلطیاں نہ دہرائیں اور اپنے جذبات کو ہرممکن قابو میں رکھیں تاکہ شرپسندوں کے منصوبے ناکام ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر