وجود

... loading ...

وجود
وجود

اب کیا ہوگا؟

جمعه 06 مئی 2022 اب کیا ہوگا؟

 

رفیق پٹیل

 

پاکستان کے سیاسی حالات میں روزبروز انتشار بڑھتا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ موجودہ حکومتی اتحاد کی گرتی ہوئی ساکھ ہے اس کے قیام کے روز اول سے اسے مطلوبہ پذیرائی نہیں مل سکی اور اس نے اپنی توجہ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے بجا ئے سابق وزیر اعظم عمران خان کوسیاست کے میدان سے باہر کرنے اور ان کی سیاسی جماعت کو تقسیم کرنے کی ترکیبوں پر لگارکھی ہے ٓٓٓٓ ٓٓٓٓٓ ٓاورسیاسی و انتخابی میدان سے بھاگ رہے ہیںحال ہی میں توہین مذہب کے مقدمات نے حکومت کو مزید کمزور کردیا ہے خصوصاً انسانی حقوق کی بین ا لاقوامی تنظیمیں مجبور ہوگئی ہیں کہ اس طرز عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کرے بلکہ اب اس بات پر بھی مجبور ہوگئی ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے ہر قدم کا جائزہ لیںاس طرح حکمراں اتحاد کو عدم اعتماد کے بعد ان مقدمات سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے
جوحکومتی اتحادکو مزید نقصان پہنچارہی ہے حال ہی میں تو ہین مذہب کے ملک بھر کے مختلف تھانوں میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات کے نتیجے میں حکومت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اورحکومت نزع کی حالت میں چلی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میںبیشتر مذہبی حلقوں سمیت ہر سطح پر اسے انتقامی کارروائی کے اوچھے طریقے کار کے طور پر گردانا گیاہے خصوصاً پیپلز پارٹی میں شامل ایک طبقہ اور اے این پی کے نظریاتی کارکن ا س طرح کے طریقہ کار کے سخت مخالف ہیں اس کا نوٹس دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ مغربی ممالک نے بھی لیا ہے پی ٹی آئی نے اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کی انسانی حقوق تنظیموں کو خط لکھ دیا ہے کہ پاکستان توہین مذہب کا سہارا لے کر اپنے مخالفین کو ہراساں کرنے اور انہیں سزا دینے کی کوشش کی جارہی ہے اب یہ مقدمات حکمراں اتحاد کو نقصان پہہنچاتے رہیںگے اور یہ پھندا حکومت کی گردن سے نہیں نکل سکے گا بلکہ پاکستان کو ان مقدمات کی وجہ سے جو عالمی سطح پر نقصان ہو رہا ہے اس کا تدارک قریباً ناممکن ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان قوانین کی شدت سے مخالفت موجود تھی اور یہ انتہائی حساس نوعیت کا مسئلہ تھا ا گر یہ مقدمات واپس بھی لے لیے جائیں توبھی یہ مقدات حکومت کو پریشان کرتے رہیں گے یہ مقدمات ہی حکومت کی خودکشی کا آغاز بن گئے ہیںدوسری جانب خودعمران خان جن عالمی طاقتور قوتوں کے خلاف گفتگوکر رہے ہیں وہ قوتیں عمران خان کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں برداشت نہیں کریں گی اسکے لیے وہ اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کریں گی دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے مفادات کو اولیت دے کر قدم اُٹھاتی ہیںیہ ایک فطری عمل ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستا ن کے مخصوص جغرافیائی محل قوع کی وجہ سے دنیا کی بڑی قوتوں اور خطے کے دیگر ممالک پاکستان کے اندرونی معاملات میں اپنا اثر و رسوخ چاہتے ہیں جس میں انہیںکسی حدتک کا میابی بہت پہلے سے مل چکی ہے۔
اسی وجہ عمران خان کی راہ کانٹے بچھے ہوئے ہیں انہیں پیغام دیا جا چکا ہے ہے کہ سرخ لکیرسے آگے نہ جائیں اسی لیے ان میں کچھ نرمی آئی ہے اورمکمل پر امن رہنا چاہتے ہیں ا س سارے عمل میںبنیادی مسئلہ پاکستان کے اندرونی عدم استحکام کا ہے جس میں بہتری کے کے امکان ختم ہورہے ہیں پاکستان مروجہ نظام پر عوام کا اعتمادکم ہورہا ہے یہ انتہائی خطرناک علامت ہے جس سے ملک دشمن قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے اداروں پر عوام کا اعتماد ملک کے دفاع کے لیے انتہائی ضروری ہے ان تما م باتو ں میں اس بات کونظر انداز نہی کرنا چاہیے کہ پاکستان حالات جنگ میں ہے حال ہی میں کراچی میں بم دھماکہ ہواجس میں تین چینی اساتذہ کی جان چلی گئی افغانستان سے بھی حملوں کا سلسلہ جاری ہے بھارت بھی نقصان پہنچانے کے اقدامات کررہا ہے سب سے بڑا حملہ اندرونی انتشار ہے کسی بھی ملک کا اصل دفاع کرنے والے اس کے عوام ہی ہوتے ہیں جو دفاعی اداروں کو بلند حوصلہ دیتے ہیں اس لیے عوام کی خوشحالی ،آزادی ، قانون کی حکمرانی، انصاف کے موثر نظام اور ملکی امور میں عوام کی شراکت سے ہی ملک کو طاقتوربنایا جا سکتاہے خود عمران خان کو بھی کسی سمجھوتے کی طرف بڑھنا چاہیے اور تمام اہم سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو بہتری کی راہ تلاش کرنی چاہیے حکمراں اتحاد کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اس نے کانٹوں کا تاج سرپر سجا لیا ہے ان کانٹوں کو کم کرنے کی کوئی راہ موجود نہیں ہے اپنی تکلیف میں اضافے کے نتیجے میں غصے کی حالت پیدا ہوگی اور ایسے اقدامات ہونگے جس سے مزید جگ ہنسائی اور نقصان ہوگا قومی یکجہتی کو مدنظر رکھنا حکومت کی اہم ذمہ داری ہے منفی اقدامات سے کچھ حاصل نہی ہوگا سیاسی جماعتو کی کامیابی کی بنیادی وجہ اس اس کا نظریہ اور کارکردگی ہوتی ہے جب بھی وہ اسے پس پشت ڈال دیتی ہیں تواس کی مقبولیت کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے اس کی ایک مثال پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت میں پہلے کے مقابلے میں کمی ہے۔
پیپلز پارٹی جیسی نظریاتی جماعت کا زوال پاکستانی سیاست میں نقصان کا باعث بنا ہے اور اسے قومی سطح کی جماعت بنانے کے لیے نئے سرے سے کام کی ضرورت ہے پیپلز پارٹی کے قومی سطح پر گرفت کمزور ہونے کی وجہ بھی موجودہ خرابی کا سببب بنی ہے اب سوائے خود احتسابی کے بھرپور عمل ، تنظیم میں موثر کارکنوں اور نوجوانوں کو آگے لائے بغیرپیپلز پارٹی بڑی سیاسی قوت نہیں بن سکتی ہے مسلم لیگ ن کے اند ر بھی موجودہ صورت حال کی وجہ سے اب یہ احساس پیدا ہونے کی ابتدا ہو گئی ہے کہ حکومت حاصل کرکے غلطی کردی ہے جسے وہ پھولوں کا ہار سمجھے تھے وہ جوتیوں کا ہار ثابت ہورہاہے یہ کیفیت اگر بڑھتی چلی گئی ان کا سیاسی مستقبل تاریک بھی ہوسکتا ہے مجموعی طور پر پاکستان ایک ایسے انتشار کی کیفیت میں ہے جس سے نکلنے کی راہیں مسدود ہورہی ہیں اس کافائدہ شاید ہی کسی فریق کو ہوگاخطرے کے احساس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف اہم افراد کو فون کرکے اپنے روابط مضبو ط کرنا چاہتے ہیں جو کہ ایک سطحی کوشش ہے ہے انہیں پاکستان کے عوام کا دل جیتنا ہوگا جس کے لیے سب سے پہلا مسئلہ مہنگائی کا خاتمہ ہے بجلی اور پٹرول میں کمی کے اقدامات ہیں ایک متوازن بجٹ ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کا مشورہ شامل ہونا ضروری ہے عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کے جلسے جلوس پر امن ہونگے تو حکومت کوئی خطرہ نہ ہوگا پہلے بھی ایک طویل جلسے جلوس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تھا حکومت جوابی بیان بازی جلد بازی کے اقدامات بے جا مقدمات سے نقصان میں رہے گی حکومت کو صرف اپنی کارکردگی پر توجہ دینی چاہیے یا اسے بوجھ سمجھ کرکسی اچھے سمجھوتے کے ساتھ باہر آنا زیادہ اچھا ہوگا واضح رہے کہ عمران خان حکومت سے باہر نکل کر زیادہ مقبول ہوئے ہیں تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان میں وارت عظمیٰ کی کرسی بڑی خطرناک رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر